آئینہ دیکھایا تو برا مان گئے

آزاد عدلیہ کی تحریک کے دوران وکلا برادری سے تعلق رکھنے والیــ"ہیروز"میں سے کچھ کی یہ خواہش ہے کہ جب وہ عدالتوں میں پیش ہوں تو جج صا حبان ان کی عزت و تکریم کے لئے کمرہٗ عدالت میں کھڑے ہو جائیں اور ان کی طرف سے پیروی کئے گئے مقدمات پر ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق فیصلے دیئے جائیں۔

وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ معزز جج صاحبان کی ـــ ــــــــــــــــــ"بحالی" کی تحریک میں انھوں نے خون پسینے کی طرح بہایا ہے یہاں تک کہ "لترول چھترول" ہوئی، ڈنڈے سوٹے کھا ئے ،کھنے شنے بھی سیکے گئے ، کئی "ماڑے شاڑے "وکلا کے کپڑوں کے توکالے رنگ والے شیروں (پولیس )نے چیتھڑے اَڑا د یئے اور بھی ان کی عزتوں کے ساتھ نہ جانے کیا کیا نہیں کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔بہرحال پوری قوم کو ان کے ساتھ ہمدردری ہے۔

یہ الفاظ ایک ایسی شخصیت کے تھے جن کا تعلق ہمارے ملک کی بیوروکریسی سے ہے اور جو اس ملک کے حالات و واقعات پر گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک ملنے والے اور بہت مہربان دوست جن کو میں فرضی نام"سعید "سے پکاروں گاجو کہ حال ہی میں ایک انتہائی معزز پیشے یعنی "پولیس فورس" سے افسر ریٹائرہوئے ہیں پچھلے دنوں اْن سے ملاقات کرنے اْن کے گھر جانا ہوا ۔انتہائی دلچسپ شخصیت ہیں اور ارد گرد کے حالات و واقعات پرگہری نظر رکھتے ہیں۔ اور اپنے مشاہدے سے اکشرو بیشتر مستفیض کرتے رہتے ہیں خیروعافیت جاننے کے بعد ارد گرد کے حالات و واقعات پر بات ہونے لگی باتوں باتوں میں جنرل مشرف کے دور میں جا پہنچے جب چیف جسٹس صاحب کو معزول کر دیا گیا اور باقی ججوں کو پابندِسلاسل کر دیا گیااور ایمر جنسی ڈکلئیرکر دی گئی۔۔اورپھر جس طرح ججوں کی بحالی کی تحریک چلی، مشرف کا استعفیٰ اور ن لیگ کی کال پر لاہور سے اسلام آباد تک جو عوام کا جمِ غفیر(لانگ مارچ) نکلا اور وفاقی دارالحکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی معزز جج صاحبان بحال ہو گئے۔۔"سعید "صاحب کا کہنا تھا کہ تحریکِ قیامِ پاکستان کے بعد یہ سب سے بڑی تحریک تھی۔(جس کا ایک ہی مقصد تھا عدلیہ کی بحالی)۔

اْن کا کہنا تھا کہ ججوں کی بحالی کی تحریک میں ہر طبقے اور ہر رنگ و نسل کے افراد نے بھرپور کردار ادا کیا۔یہ کسی مخصوص ٹولے یا گروہ کے بس کی بات نہیں تھی۔سب طبقوں کی سوچ اور فکر اجتماعی تھی جس نے اس تحریک میں جان ڈال دی۔اور زرداری حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مضبور کر دیا اور اسے ججوں کو بحال کرنا پڑا۔ ۔۔میں نے کہا سعید صاحب ! اس تحریک کا سارا کریڈٹ تو وکلاء صاحبان اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں بلکہ مشرف کے سامنے سینہ تان کراس کو اس ملک سے بھگانے کا اعزاز تک خود کو دیتے ہیں۔یہ سن کر سعید صاحب تھوڑا سٹپٹائے اور بولے قاضی صاحب! یہ چند وکلاء۔۔؟ ان میں اتنا دم خم ہے۔۔؟چلیں تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے کہ تحریک ان کی وجہ سے کامیاب ہوئی اور مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر انھوں نے مجبور کیا یہاں تک کہ وہ ملک چھوڑکر چلا گیا۔اور زرداری حکومت کو ان کے سامنے سرِتسلیمِ خم کرنا پڑااور جج بحال ہوئے۔۔ مگر جناب یہی وکلاء ہیں یہی وکلاء ۔۔جو آج مشرف کو غداری کیس میں سزا سے بچانے کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔۔جھوٹی دلیلیں اور جھوٹے حیلے بھانوں سے اس کو اسی عدلیہ کے سامنے پیش کرنے سے کترا رہے ہیں اور خود مشرف کو پیش نہ ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں جس عدلیہ کی بحالی کے لئے اِنھوں نے خون بہایاجیلیں کاٹیں اور" گو مشرف گو" کے نعرے لگائے۔ اور آج اسی کی "پیروی "کر رہے ہیں ۔۔۔اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی
سعید صاحب کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئے کہنے لگے کہ دیکھیں جی ۔۔جب ججوں کی بحالی کی تحریک چلی تو میری پوسٹننگ اسلام آباد میں ہی تھی۔اور میں نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آپ یقین کریں کہ وہاں وکلاء کے علاوہ سیاسی و مذہبی کارکنوں اورعام پاکستانی شہریوں کی بہت بڑی تعداد بھی موجود ہوتی تھی جن پر ڈنڈے سوٹے اندھا دھند چلائے جاتے تھے اور ان کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔ مٹھی بھر وکلاء اکیلے تواتنی بڑی تحریک نہیں چلا سکتے تھے ۔ ۔۔

قاضی صاحب چونکہ ہمارا واسطہ سیاستدانوں سے بھی رہتا ہے جن کا تعلق حکومت سے بھی ہوتا ہے اور اپوزیشن سے بھی اور ان سے اکثر ملاقات رہتی ہے۔ اس لئے ان کے خیالات بھی سن لیجئے ۔ ایک اپوزیشن پارٹی کے سیاستدان کہنے لگے جناب! اس قوم کا دستور نرالا ہے کہ محنت کوئی کرتا ہے اور صلہ کوئی پاتا ہے۔کام کوئی کرتا ہے رولا کوئی اور پاتا ہے۔تھوڑا بہت رولا کالے کوٹ والوں نے ضرور ڈالا ۔جلوس بھی نکالے،دھرنے بھی دیئے تھوڑی بہت کْٹ شْٹ بھی کھائی ۔۔مگر جناب اصل کام ہم نے (اپوزیشن)نے ہی کیا۔۔ورنہ اتنا ہجوم نکالنا اور پھر اس کو لے کر چلنا ۔۔کیا یہ اس" گروہ" کے بس کی بات تھی۔۔۔؟

اصل تحریک تو کسی اور ہی کی سرپرستی میں ان کے محل سے لے کر گوجرانوالہ،گجرات اور جہلم تک ہی پہنچی تھی کہ شہنشائے وقت کے زندان کے دروازے کھل گئے تھے۔ اور کل کے" قیدی" آج کے" شیر" بن کر نکلے۔وگرنہ یہ ایک" معمولی گرو ہ" کے بس کی بات نہیں تھی ۔

سعید صاحب نے تو یہاں تک بتایا کہ اس تحریک کے لئے امریکہ اور دوسرے ممالک سے باقاعدہ فنڈز بانٹے گئے تاکہ ایک تو پرویز مشرف کی حکومت کو ختم کیا جا سکے کیونکہ مشرف سے جتنا کام لینا تھا امریکہ نے لے لیا اب مشرف کی اسے ضرورت نہیں رہی تھی اور دوسرے پاکستان میں انارکی پھلائی جا سکے۔اور من پسند حکومت لا کر اپنے مفادات پورے کئے جا سکیں۔اور یہ فنڈز کس کس نے لئے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔۔۔

میں نے تعجب سے پوچھا سعید صاحب ۔۔کیا مطلب ۔۔؟کیا اس تحریک کے لئے امریکہ وغیرہ نے فنڈز تقسیم کئے ۔۔؟ کیا عوام میں تقسیم کئے ۔؟مگر سعید صاحب میں بھی اس تحریک میں شامل تھا مگر مجھے تو ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملی۔۔ سعید صاحب ہنس کر بولے" او بھولے بادشاؤ "تسی ناں تے لیڈر او ناں سیاستدان او تے ناں وکیل تسی تے شریف عوام او" تے عوام نوں کدی کج ملیااے َاج تک سوائے ٹھوکراں تے تکلیفاں دے۔۔او بھئی عوام تو صرف جوشِ جذبات میں ساتھ چل دیئے اور لاکھوں ہی چل دئے۔اگر عوام نہ نکلتے تو یہ گنتی بھر لوگ کیا اتنا بڑا معرکہ انجام دے سکتے تھے؟ ناممکن قاضی صاحب

یہ لوگ اس وقت کیوں نہیں نکلے جب اسلام آباد میں عبدالرشید غازی کے مدرسے پرخاکی وردی والوں نے کشت و خون مارا تھا؟ مدرسے میں پڑھنے والے معصوم طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ یہ کالی،سفید،نیلی پیلی وردیوں اور کوٹوں والے اس وقت کہاں محوِسراحت و سازو گداز تھے؟ یہ ان بے گناہوں اور معصوموں کو بچانے کیوں نہیں نکلے؟یہ وقت کے لٹیروں ،بدمعاشوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار کیوں نہیں بن گئے ارے کوئی دس بیس پچاس مارے جاتے تو آج ہم بھی ان کو سلیوٹ کرتے ان کے لئے تمغۂ شجاعت کی سفارش کرتے۔۔ تقریباََ60جج پابندِسلاسل تھے اور یہ بچانے نکلے تو صرف ایک چیف جسٹس کو ۔۔آہ ۔کیا چیف جسٹس کی اکیلی جان اْن معصوم بچوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی تھی جنھوں نے زندگی کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں سے ابھی روشناس ہونا تھا۔ چاہے کسی کا جتنا بھی قصور ہو لیکن کسی کا ماورائے عدالت ناحق قتل کر دینا ناقابلِ معافی جرم ہے ۔وہ معصوم طلبہ صرف دین کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر ایک نیک مقصد کی خاطروہاں جمع تھے ۔اور یہ کالے کوٹوں اور کالے بوٹوں وا لے کسی اور کے مفادات اور اپنے لالچ کی خاطر میدان لگائے بیٹھے تھے۔شاید تب بھی ان کو خاموش رہنے کے کچھ۔۔۔۔آپ سمجھ گئے ہوں گے؟یہ آج کچھ ہوتے ہیں اور کل کچھ۔۔۔

اور جب سے عدلیہ بحال ہوئی ہے ان وکلاء کی اب تو چال ڈھال ہی خراب ہو گئی ہے ۔ اب تو یہ حال ہے کہ ان میں سے کچھ وکلاء حضرات جو(وکیل کم اور غنڈے زیادہ دکھتے ہیں) اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھ بیٹھے ہیں راہ چلتے کسی شریف آدمی کا کندھا اگر ان سے غلطی سے ٹکرا جائے تو یہ کاغذ کے شیر کندھے کے فریکچر کی جھوٹی میڈیکل رپورٹ لے کر اس پر جھوٹا کیس ڈال دیتے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ اس کو حیلے بھانوں سے ڈرانا دھمکانا ان کا وطیرہ بن چکا ہے اور پھر پیسے ویسے لے کر اس کی جان خلاصی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جج صاحبان سے ہمارے خصوصی مراسم ہیں ہم نے جج صاحبان کے لئے خون بہایا ہے لہذا جج حضرات ہمارے ذاتی کیس میں ہماری فیور ہی کرتے ہیں چاہے کیس جھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ (من گھڑت )یعنی کہ پاکستان کے معصوم شہری اب ان نام نہاد وکلاء کے رحم و کرم پر ہیں جو اس معزز پیشے کی آڑ میں غنڈے کا کام کر رہے ہیں اور عدلیہ ماضی میں حکومتی غنڈوں کو تحفظ فراہم کرتی تھی اب یہ "آزاد عدلیہ" بقول اس ٹولے کے ان کوتحفظ فراہم کر رہی ہے ۔۔۔اگر یہ ٹولا صحیح کہہ رھا ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عدلیہ اس ملک ،آئین اور اس ملک کے عوام کے تحفظ کے لئے آزاد نہیں ہوئی ۔۔؟؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے -

سعید صاحب کی باتیں سن کر میرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ ہم کب تعلیم یافتہ اور باشعور ہوں گے کہ ایک دن ہمارا شمار بھی مہذب اقوام میں ہو۔۔(ذرا سوچئے)

آخر میں ان تمام شریف النفس ،قابلِ تعزیم اور معزز وکلا سے انتہائی معذرت کے ساتھ جنھوں نے گزرے کل تک اور آج کے دن تک صحیح معنوں میں انصاف کی خاطر اور انصاف و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سچائی کا بھر پور ساتھ دیا اور جن کی وجہ اس معاشرے میں حقیقی وکلا ء کا وقار قائم ہے۔

کالم نگار کا کسی بھی فرد کی باتوں سے متفق ہونا ضروری نہیں یہ کسی کی عوامی رائے ہو سکتی ہے۔

hamid qazi
About the Author: hamid qazi Read More Articles by hamid qazi: 8 Articles with 6971 views energatic,caring and senstive,.. View More