حامد میر صاحب لگے ہاتھوں ملعوں ر شدی اور تسلیمہ سے بھی مل آتے؟

جنگ میں حامد میر صاحب کا مضمون’’ کیا ملالہ واپس آئے گی‘‘ پڑھا اور معلومات میں اضافہ ہوا۔ معلومات تو پہلے سے ہی تھی مگر پھر بھی وہ تازہ ہو گئیں۔ پہلے توحامد میر صاحب کی صحت اچھی ہونے پر اطمینان ہوا کہ وہ برمنگھم کے ہسپتال میں اپنا علاج کروانا چاہتے تھے مگر کرامیل ہاسپٹل لندن کے ڈاکٹروں کے مشورے پر انہوں نے جسم سے گولیاں نکلوانے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ ہماری دعاء ہے اﷲ ان کو مکمل صحت عطا فرمائے۔ ملالہ سے ملاقات کے حوالے سے عرض ہے کہ حامد میر اور ان جیسے خیالات کے حامل کالم نگار وں کا یہ پسندیدہ مشغلہ ہے کہ ایسے کام کر کے ہم وطنوں کے سینوں پر مونگ دلتے رہیں۔ پاکستانی عوام ملالہ کو بھی تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی جیسے اسلام دشمنوں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔ حامد میر صاحب لگے ہاتھوں تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی سے بھی ملاقات کرتے آتے ۔ کل ہی سوشل میڈیا پر مجھے ان تینوں کی ایک ساتھ فوٹو اپنے صلیبی آقاؤں کے ساتھ کھڑے ایک دوست نے میری فیس بک پر پوسٹ کی ہے۔ ملالہ کو صرف امریکی غلام حکمران اور بیرونی فنڈد میڈیا اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے کالم نگاروں نے سر پراُ ٹھایا ہوا تھا وہ پاکستان میں عام مخالفت کی وجہ سے پس منظر ہو گئی تھی مگر حامد میر صاحب نے برمنگھم لندن میں اُس سے ملاقات کی اور اپنے مضمون میں اس ملاقات کے ذریعے تشہیر بھی کی۔ ملالہ جو برمنگھم میں اسلام دشمن صلیبیوں کے زیر اثر ہے حامد میر نے بھی اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے ملالہ سے ملاقات کی۔ ایسے کاموں سے بین الاقوامی مارکیٹ میں حامد میر جیسے کالم نگاروں کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔ حامد میر افطار کرنے ان کے گھر برمنگھم میں جو حکومت پاکستان نے لے کر دیا ہوا ہے، افطار سے تھوڑا پہلے ہی پہنچ گئے اور ضیا الدین کے ساتھ مل کر افطار کی۔ ۲۰۰۹ء میں بھی حامد میر نے جیو کا لائف پروگرام کر کے پاکستانی قوم کوجھوٹ سے آشناکیا تھا جس کی تصدیق وہاں کے مقامی لوگوں نے سوشل میڈیا پر کی تھی۔ حامد میر نے اپنے مضمون میں جس سوشل میڈیا ، جو پوری پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتا ہے کے لیے کہاکہ کچھ ذہنی بیماروں کی اندرونی گندگیوں کا بیت الخلاء کہتے ہیں جس کے پاس گندگی ہے وہ گندگی پھیلائے گا۔جس کے پاس روشنی ہے وہ روشنی پھیلائے گا سوشل میڈیا یہ بھی بتائے کہ کس کے والدین نے کس کی کیسی تربیت کی ہے؟ حامد میر صاحب سوشل میڈیا اس لیے بیت الخلاء ہے کہ وہ قوم کے سامنے ڈھونڈ ڈھونڈ کر آپکا اور آپ جیسے دوسرے کالم نگاروں کے جھوٹ کو قوم کے سامنے بیان کر رہا ہے آپ جیسے کالم نگاروں اور آپ کے ٹی وی نیٹ ورک نے جیسے سوات کی جھوٹی ویڈیو کو عام کر کے بیت الخلاء کا کام کیا تھا جسے عدلیہ نے بھی جھوٹ ثابت کیا تھا۔ آپ نے اپنے مضمون میں والدین کی تربیت کی بھی بات کی۔ جی ہاں پہلے آپ کے والد نے آپ کی یہ تربیت کی کہ بنگلہ دیش جا کر انعام وصول کرتے ہوئے یہ بیان دو کہ پاکستان کی بقاء کے لیے مکتی باہنی کے خلاف لڑنے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ان کو سزا دے جائے جن میں پاکستانی فوج اور البدر والے شامل ہیں۔ جبکہ دونوں حکومتوں نے پرانے واقعات کو نہ اُ ٹھانے کا معاہدہ بھی کیا ہوا تھا۔ آپ کی اس پاکستان دشمنی کی ویڈیو کو سوشل میڈیا نے عام کیا تھا۔ آپ نے ملالہ کے چمچ کے بجائے ہاتھ سے چاول کھانے کو ملالہ کا کانامہ بیان کیا ۔ملالہ کی کتاب جس کا تازہ ایڈیشن آپ کوپیش کیا گیا اس میں موجود ملالہ کی ڈائری کا وہ ذکر بھی ہو گا جس میں ملالہ برقعے اور داڑھی کا مذاق اُڑایا تھا پاکستان اور فوج کوبدنام کیا تھاآپ اُس کو بھی مضمون میں بیان کرتے تو اچھاہوتا۔مقامی لڑکیوں اور تعلیم کے لیے آواز اُٹھانے پر بات کرنے اور پروگرام کرنے سے پہلے وہاں کے مقامی لوگوں اور کالم نگاروں کو بھی پڑھ لیا ہوتا کہ وہ کیا کہتے ہیں جب سوات میں طالبان کا زور تھا تو ملالہ اور اس کا باپ خوف کی وجہ سے بھاگ کر محفوظ مقام پر ایبٹ آباد میں مقیم تھے۔ حالات بہتر ہونے پر یہ دونوں سوات میں تشریف لائے تھے اور۲۰۰۹ء میں جناب نے بھی پروگرام کیا تھا۔ آپ نے ملالہ کے یورپی پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ میں ملالہ کے خطاب کے ذکر میں تسلیمہ نسرین کا بھی ذکر کیا کہ اس نے کہا کہ خطاب میں بسم اﷲ کیوں پڑتی ہے اور سر پر چادر کیوں اُوڑھتی ہے۔ یہ تو تسلیمہ نسرین کی اور اُس جیسے اسلام دشمنوں کی کم خباثت ہے وہ اورسلمان رُشدی تو اسلام کے بارے بہت کچھ کہتے رہتے ہیں۔ ملالہ جس کو سر اور گردن پر گولی لگی تھی۔ پرسرار طور پر سی ایم ایچ ہسپتا ل پشاور، راولپنڈی اور آخر میں برمنگھم کے ہسپتال میں صحت یا ب ہو گئی تھی۔ نہ سر کے بال کاٹے گئے نہ گردن کا زخم نظر آیا۔شروع میں تو مجھ سمیت سب پاکستانیوں کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ تھی میں نے ایک کالم بھی اس کی حمایت میں لکھا تھا مگر جب سوشل میڈیا پر ساری کاروائی اور سوات کے مقامی اخبار میں کالم نگاروں جس میں ڈاکٹر سلطان روم شامل ہیں کے سلسلہ وار مضامین سے معلومات حاصل ہوئی تو میں نے ملالہ اور اُس کی کتاب پر’’ ملالہ کی کہانی اور کتاب‘‘ پرپا نچ قسطوں میں حقیقت حال کو بیان کیا تھا جسے پاکستانی پریس نے شائع کیاتھا۔ چھٹی اور آخری قسط کا وقت نہ مل سکا جو ابھی پاکستانی عوام کے سامنے پیش کرنی ہے جس میں اس کاروائی میں شامل تمام حضرات سے کہنا ہے کہ کاش ان میں سے کسی کے اندر کا انسان جاگ اُٹھے اورکیریگ مونٹیل امریکی شہری جیسے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے سب کہانی بیان کر دے۔ معروف عرب چینل الجزیرہ کی تحقیق کے مطابق امریکا میں ایف بی آئی کے افراد منافق بن کر اسلام لاتے ہیں ایجنٹ بن کر مساجد میں آتے ہیں اورسادح لوح مسلمان نوجوانوں کو مساجد میں جہاد پر اُکساتے ہیں ان کے ذہن میں چھپے جہادی خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور دھوکا دے کر بدلہ لینے اور تخریبی کاروائیوں میں ملوث کرتے ہیں اس قسم کی تازہ مثال کریگ منٹیل ایک بدمعاش امریکی سفید فام کی ہے اس کو ایف آئی بی نے پونے دو لکھ ڈالر دے کر اس بات پر تیار کیا۔ اس نے اپنا فرضی نام فرخ عزیز ظاہر کر کے صومالی نوجوان محمد عثمان محمود کو کرسمس پر دھماکا کرنے پر تیار کیا۔ کرسمس ٹری بم سازش تحزیب کاری پر اُکسایا بم میں مصنوعی دھماکا خیز مواد رکھا۔ اس کے بعد عین موقعے پر بم بلاسٹ کرتے ہوئے ایف بی آئی نے اس مسلمان نوجوان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا اور پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر اس کی خوب تشہیر کی ساری دنیا میں اس کرسمس ٹری بم سازش کا پروپیگنڈہ کیا گیا اور مسلمانون کا دنیا بھر میں دہشت گرد ہونے کا واویلا مچایا۔ صلیبی مکر کرنے والوں سے اﷲ کا مکر جیت گیا اور کریگ مونٹیل کے اندر کا انسان جاگ اُٹھا اس نے اس بات اعتراف کیا اور میڈیا کے سامنے ساری سازش کو بے نقاب کر دیا پہلے تو ایف بی آئی کے اعلیٰ افسران نے اس واقعے سے انکار کیا پھر جب کریگ منٹیل نے ایف بی آئی کا نشان میڈیا کے سامنے پیش کیا تو ایف بی آئی نے کہا کہ مجرموں کی تلاش میں ایسے کام کرنے پڑتے ہیں کریگ مونٹیل نے ایف بی آئی پر مقدمے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے کچھ سال قبل ’ صلیبی سازشوں‘‘کالم کے تحت میں نے کالم لکھ تھا جوپریس میں شائع ہوا تھا۔ ملالہ کے بارے میں بھی کاش کوئی غیر جانبدار ڈاکٹروں پینل ملالہ کے بارے تحقیق کرے اور سچ دنیا کے سامنے بیا ن کر دے۔ آخر میں حامد میر صاحب اور ان جیسے کالم نگاروں سے کہنا ہے کہ صلیبی پاکستان کے اسلامی تشخص ختم کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ملالہ اس کی تازہ مثال ہے وہ پاکستان کی خاموش اکثریت کی ترجمانی کریں اور ان کو یرغمال بنانے والے غلط عناصر سے عوام کو آگاہ کریں۔ ان کے اسلامی خمیر کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے خلاف کام کرنے والوں کا اس اجتماہی خمیر نے کیا حشر کیا۔ اس کی مثال قادیانیوں کی جہاد کو ختم کرنے ،ڈکٹیٹر مشرف کی جہاد اور اسلامی تشخص کو پاکستان سے ختم کرنے کی کوشش تھی اور حال ہی میں جیو کی پاکستان کے نظریے کے خلاف امن کی آشا اور جیو کہانی اور اسلامی روایات کے خلاف پروگرام ہیں۔ عوام نے ان عوامل سے نفرت کا اظہار کر کے ثابت کر دیا کہ قاعد اعظم ؒ کی تعلیمات کے مطابق اسلام اور نظریہ پاکستان اس ملک کا مقدر ہے اس سے جو انحراف کرے گا پاکستانی عوام اس کا یہی حشر کریں گے جیسے قادیانیوں، ڈکٹیٹر مشرف اور جیو کا کیا ہے۔ اﷲ ہم سب کو نظریہ پاکستان اور اس کے اسلامی تشخص کو قائم کرنے میں مدد گار بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094725 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More