حکومت مخالف احتجاج ....جمہوریت کی بساط لپٹ سکتی ہے؟

ملک میں سیاسی آگ کے شعلے دن بدن بلند سے بلندتر ہوتے جا رہے ہیں،بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعلے ہر چیز جلا کر خاکستر کردیں گے۔ حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ممکنہ احتجاجی پروگراموں کے پتے شو کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے قائد کی سربراہی میں چودہ اگست کو حکومت کو ملیامیٹ کرنے اسلام آباد جا رہے ہےں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ14اگست کو شریف خاندان کی بادشاہت ختم کرنے کے لیے نکلیں گے، رکاوٹیں ڈالنے کا انجام بہت برا ہوگا، اگر مجھے نظر بند کرنے کی کوشش کی گئی تو پورا پاکستان بند کردیں گے،نیا پاکستان بنانے تک وفاقی دارالحکومت سے نہیں اٹھیں گے۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب اسلام آباد آرہا ہے، جسے دنیاکی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 10اگست کو ماڈل ٹاﺅن لاہور میں یوم شہدا منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقلاب پتھر پر لکیر ہے، اگست ختم ہونے سے پہلے حکومت ختم ہو جائے گی، اگر دس اگست کو ہمارے خلاف کوئی کریک ڈاﺅن ہوا تو یوم شہدا ماڈل ٹاﺅن کی بجائے جاتی امراءکے محل میں منائیں گے۔ طاہر القادری نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کارکن حملہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کی لسٹیں تیار کریں، جتھہ بناکر حملہ کرنے والے اہلکاروں کے گھروں میں گھس جائیں۔ حکومت مخالفت ٹیم میں شامل مسلم لیگ(ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین بھی حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ (ن)لیگ کے اقتدار کے خاتمے کے لیے الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، ملک میں انقلاب کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ جبکہ عمران خان کے خاص اتحادی شیخ رشید کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ اگر ملک کے حالات خراب ہوئے تو فوج مداخلت کر سکتی اور1999کی فلم دوبارہ چل سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ فوج 14اگست سے پہلے ہی کوئی قدم اٹھا لے۔ 14 اگست کے بعد یا اپوزیشن جماعتوں کی سیاست دفن ہونے جا رہی ہے یا نواز شریف کی، لانگ مارچ کے بعد یا نواز شریف زیادہ طاقتور ہو جائیں گے یا گھر چلے جائیں گے۔

دوسری جانب وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ا ±ن کی حکومت کو کسی احتجاج یا لانگ مارچ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سیاسی مسائل مظاہروں یا مارچوں کے ذریعے نہیں، بلکہ مذاکرات اور مفاہمت سے حل ہوتے ہیں۔ بعض عناصر احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے تشدد اور لاقانونیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ”دو انقلابیوں“ کے احتجاج کے حوالے سے وفاقی وزیراطلاعات ونشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان یوٹرن کے بادشاہ ہیں، عمران خان کو11مئی کو ناکامی ہوئی، 14 اگست کو بھی ناکامی ہوگی،عمران خان کے ارکان اسمبلی نے پہلی بار اسمبلیاں دیکھی ہیں، انہوں نے اگر استعفے مانگے تو ان کی پارٹی میں بغاوت پیدا ہوجائے گی۔ جبکہ طاہر القادری کی دھمکیاں کنٹینر والی گیدڑ بھبھکیاں ہیں۔ انقلاب کی سیاست اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔ چودھریوں کے کندھے پر فساد کی سیاست کرنے والا کینیڈا بھاگنے والا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان کے مارچ سے حکومت نہیں جائے گی، وزیراعظم نواز شریف کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، عمران خان اور طاہرالقادری کو توڑ پھوڑ کی بجائے بیٹھ کر احتجاج کرنا چاہیے، پیپلزپارٹی جمہوریت کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی، کیونکہ اس نے ہمیشہ ہی آمریت کے خلاف لازوال قربانیاں پیش کی ہیں۔سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دھرنوں اور احتجاجوں کے ذریعے تبدیلی کی بات کرنے والے ملک میں انار کی پھیلا ناچاہتے ہیں، حکومت کو ان مٹھی بھر لوگوں سے پریشان ہو کر بلیک میل نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف صوبہ کے پی کے میں اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں بری طرح ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے مرکزی حکومت پر الزامات لگارہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ حکومت مخالف جماعتیں حکومت کو گرانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، لیکن ان کی ان کوششوں سے وہ کچھ ہونے والا نہیں ہے، جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔ حکومت بھی بیدار مغزی کے ساتھ مخالفین کے احتجاج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ حکومت اس احتجاج سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کرچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک طرف تو حکومت نے فوج کی مشاورت سے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کیا ہے، جس سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ فوج حکومت مخالفین کی حمایت نہیں کرے گی، بلکہ وہ حکومت کا ساتھ دے گی۔اس لیے اسلام آباد میں فوج کے ہوتے ہوئے حکومت مخالفین کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاسکتے، یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ 14اگست کو کچھ بڑا نہیں ہونے جارہا ۔ اس کے علاوہ حکومت نے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کو کمزور کرنے کے لیے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یکجا نہیں ہونے دیا۔ حکومت کی گزشتہ کئی دنوں سے جاری عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے متحد نہ ہونے کی کوششیں کامیاب ہوچکی ہیں۔ دوسری جانب عوامی تحریک کی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے عوامی تحریک میں پھوٹ پڑ نا شروع ہوگئی ہے۔ عوامی تحریک راولپنڈی کے 5 ضلعی عہدیداران نے استعفیٰ دے دیا۔ مستعفی ہونے والے عہدیداران نے کہا ہے کہ طاہر القادری نے عوامی تحریک کو تشدد کی طرف گامزن کر دیا ہے، دھوکہ دیا جارہا ہے۔پہلے نعرہ تھا کہ گردنیں کاٹیں گے، انقلاب لائیں گے اور اب گردنیں اڑائیں گے، انقلاب لائیں گے کے نعرے سے متفق نہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، کیونکہ ایک طرف تو یہ بات ممکن ہوتی معلوم نہیں ہوتی کہ تحریک انصاف استعفے دینے کی دھمکی پر عمل کر دکھائے گی،کیونکہ تحریک انصاف کے استعفے دینے سے متفق نظر نہیں آتے، دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ آزادی مارچ کے جواب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، مسلم لیگ ن نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری کر لی ہے، صوبے میں اپوزیشن جماعتوں سے رابطے مکمل کر لیے گئے ہیں۔ گورنر سردار مہتاب کو خصوصی ٹاسک دے دیا گیا ہے، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا مقصد صوبائی اسمبلی کی تحلیل کو روکنا ہے، تحریک کی کامیابی کے لیے صرف آٹھ ارکان کی حمایت درکار ہے۔ جبکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق یہ کہہ چکے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں شامل جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد نے خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تجویز کو سختی سے رد کردیا ہے اور متفقہ مﺅقف کا اظہار کیا ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی صوبے کے عوام کی امانت ہے اور صوبے کے عوام نے صوبائی اسمبلی توڑنے کی تجویز کو پسند نہیں کیا ، پی ٹی آئی اگر صوبائی حکومت چھوڑنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے، لیکن جماعت اسلامی اور عوامی اتحاد اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کے پی میں حکومت کے تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے تحریک انصاف کی کوشش بے کار چلی جائے گی، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کے اتنے کامیاب ارکان نہیں ہیں جو حکومت پر اثر انداز ہوسکیں،جبکہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے استعفوں سے کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے بقول تحریک انصاف نے خیبر پی کے حکومت چھوڑ دی تو اس کی جگہ نئی حکومت آ جائے گی اور تحریک انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفوں سے خالی ہونے والے حلقوں پر ضمنی انتخابات کرا دیے جائیں گے، چیئر میں الیکشن کمیشن کا بھی یہی کہنا ہے کہ چند سیٹوں کی وجہ سے عام انتخابات نہیں کرواسکتے۔

مبصرین کے مطابق ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے،، اس میں کشیدگی اور اشتعال کا عنصر شامل ہونے سے سسٹم کی بقا کے لیے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اس لیے اس موقع پر اپوزیشن اور حکومت دونوں کو فہم و تدبر سے کام لینا چاہیے۔ ایک طرف حکومت کو چاہیے کہ ایسی کوئی غلطی کی جائے نہ دہرائے جو ماضی کی طرح ماورائے آئین اقدام والوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا کوئی جواز مہیا کرے۔ اگر حکومت سابقہ روایات کے مطابق جشن آزادی کے موقع پر قوم میں ملی جذبہ ابھارنے کے لیے جشن آزادی کی تقریبات اور پروگراموں کو ترتیب دیتی، جن میں یہ عندیہ موجود نہ ہوتا کہ ان تقریبات کا اہتمام عمران خان کے آزادی مارچ یا طاہر القادری کے انقلابی ایجنڈے کا توڑ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تو یقیناً قوم اسی جذبہ کے تحت جشن آزادی کی تقریبات میں حصہ لیتی، مگر حکومتی اعلانات اور بیانات میں یہ واضح اشارے موجود ہوتے ہیں کہ یہ سب بندوبست عمران خان کے آزادی مارچ، طاہرالقادری کے انقلاب کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے، چنانچہ اس حکومتی پالیسی سے ہی اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کے لیے صف بندی کا موقع ملتا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ ایسا رویہ نہ اپنائے، جس سے ظاہر ہو کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کرنے جا رہے ہیں، ملک کئی گھمبیر مسائل سے دوچار ہے، ان حالات میں ملک میں سیاسی عدم استحکام سے مزید مسائل جنم لیں گے، جو ملک کے لیے سراسر نقصان دہ ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 645034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.