غزہ ۔۔جہادی تنظیمیں

قرآن مجید میں یہود کے متعلق سورة آلعمران میں بیان کیا گیا ہے ۔۔ترجمہ:اگر اہل کتاب (بنی اسرائیل) ایمان لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ان میں سے کچھ مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں یہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، مگر یہ کہ زبان درازی کر لیں اور اگر یہ تم سے جنگ کے لیے نکلیں گے تو تمھیں پیٹھ دکھائیں گے پھر ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ نکلے گا یہ جہاں کہیں بھی ہیں، ان پر ذلت کی مار ہے، مگر اللہ کے ذمہ کے تحت یا لوگوں کے کسی معاہدہ کے تحت۔ یہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے یہ اس وجہ سے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور یہ جسارت انھوں نے اس سبب سے کی کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور یہ حد سے بڑھ جانے والے تھے سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان اہل کتاب میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اللہ کے عہد پر قائم ہے یہ رات کے وقتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں یہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہیں اور نیکی کے کاموں میں مسابقت کرتے ہیں، یہ لوگ صالحین میں سے ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے، اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اللہ متقیوں کو جانتا ہے ۔۔یہود کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ تمھارے مقابل میں نہیں آ سکتے اور اگر آئیں گے تو منہ کی کھائیں گے ان کے حوصلے پست ہو چکے ہیں اور ان کی ہمتیں ٹوٹ چکی ہیں ان کی مسلسل بدعملیوں کے سبب سے ان پر ذلت اور پست ہمتی کی موت طاری ہو چکی ہے، اب اگر یہ کہیں کھڑے نظر آرہے ہیں تو اپنے بل بوتے پر نہیں کھڑے ہیں یا تو اللہ کے ذمہ نے ان کو امان اور پناہ دے رکھی ہے یا لوگوں کے ساتھ کسی معاہدے کا انھوں نے سہارا حاصل کر رکھا ہے۔غور کیجیے کہ قرآن مجید نے یہودیوں کے بارے میں یہ جو باتیں فرمائی تھیں وہ حرف حرف کس طرح پوری ہوئیں۔ یہود آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مقابل میں کھلم کھلا میدان جنگ میں اترنے کی جرآت کبھی نہ کر سکے اور اگر پس پردہ کبھی آئے بھی تو انھیں منہ کی کھانی پڑی، ان کے جو قبائل مدینہ کے قرب و جوار میں آباد تھے ان کو یکے بعد دیگرے نہایت ذلت کے ساتھ اپنی بستیاں خالی کرنی پڑیں، یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے دور خلافت میںا یک جزیرہ عرب ہی سے جلاوطن کر دیا اور اس کے بعد جہاں بھی ان کو امان ملی یا تو اسلام کے ذمیوں کی حیثیت سے امان ملی یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر انھیں زندگی کے دن گزارنے پڑے، کہیں بھی ان کی یہ حیثیت نہیں باقی رہی کہ وہ ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کر سکیں ۔ یہود کے بارے میں سورة اعراف میں ان الفاظ میں وارد ہے۔ ترجمہ:اور یاد کرو، جبکہ تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ ان کے اوپر قیامت تک وہ ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو برے عذاب چکھائیں گے۔ بے شک، تیرا رب جلد پاداش دینے والا ہے اور وہ غفور رحیم ہے۔ اللہ تعالیٰ یہود پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو قیامت تک برے عذاب چکھاتے رہیں گے۔ اس میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ بیچ بیچ میں ان کو وقفے اور مہلتیں نہیں ملتی رہیں گی، بلکہ آیت کے آخری الفاظ۔۔۔۔’اِنَّ رَبّکَ لَسَرِیع العِقَابِ وَاِنَّہ لَغَفور رَّحِیم‘ ۔۔۔۔سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ خدا ان کی سرکشیوں پر ان کو سزا بھی بھرپور دے گا اور ان کو اپنے قانون کے مطابق مہلتیں بھی عطا فرمائے گا، یہود کی تاریخ کا کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس میں انھوں نے اپنی سرکشی کی پاداش میں عذاب کا مزہ نہ چکھا ہویہ سب سے پہلے مصر میں فرعونیوں کے ہاتھوں پامال ہوئے پھر بنو خد نصر (مشہور بخت نصر) کے ہاتھوں ان کی پوری قوم کی قوم کو اسیری اور غلامی کی ذلت نصیب ہوئی پھر ٹیٹس رومی نے ان کو تاراج کیا پھر عیسائیوں کے ہاتھوں ان کو ذلتیں نصیب ہوئیں پھر مسلمانوں نے ان کو ذمی بنایا اب اس دور آخر میں ہٹلر نے ان کوعذاب کا مزہ چکھایااس مسلسل عذاب کے دوران میں ان کو مہلت کے وقفے بھی برابر ملتے رہے ہیں اور ان وقفوں میں یہ زور و قوت بھی حاصل کر لیتے رہے ہیں، لیکن یہ زور و دبدبہ جب ان کے مزاج میں فساد پیدا کر دیتا تو اللہ تعالیٰ پھرا ن پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیتا جو ان کا سر غرور کچل کے رکھ دیتے۔ سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں یہ بات بڑی وضاحت سے بیان ہوئی ہے۔۔ مسلمانوں کو تنبیہ ہو کہ اب ان کی نالائقی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ خدا نے ان کو ایک مغضوب قوم کے فتنوں کا نشانہ بنا دیا ہے اگر مسلمانوں نے تنبیہ سے فائدہ اٹھایا تو ان شاءاللہ سلطنت اسرائیل کا آخری قلع قمع مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ہو گا ورنہ مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں نا حق مارے جاتے رہیں گے۔۔معزز قائرین ! یہاں میرے کالم کا عنوان بھی غزہ میں ہونے والے یہودیوں کے ظلم پر اسلامی جہادی تنظیموں کا کردار ہے کہ ایک ماہ کا دورانیہ ہوا چاہتا ہے لیکن دنیا بھر کی اسلامی جہادی تنظیموں نے کیوں چپ کی سادھ لی ہے اور خاص کر پاکستان میں آباد سیاسی ،مزہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک طالبان جو کئی سالوں سے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں اسلام کی سلامتی اور نظام کی بقا کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے چلے آئے ہیں اوراپنی خود کشی کو جہاد سے ہمیشہ منسوب رکھا گیا ،کبھی خود کش حملوں سے ، کبھی بم بلاسٹ سے اور پاکستان کی سالمیت کو مسلسل تباہ و برباد کرنے کیلئے اہم ترین اورحساس ترین مقامات کونشانہ بنایا گیاوہ پاکستان جو اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے ، پاکستان کو نا تلافی نقصان پہنچا کر یہ کس کو تقویت دینا چاہتے ہیں ، سلام ہو پاکستان کی افواج کو کہ انھوں نے دشمنان پاکستان تحریک طالبان کے خلاف بھرپور الیکشن لیا اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ان کے عزائم کو خاک میں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ پوری قوم کی دعائیں ہیں ۔ایسے نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان سیاسی و مزہبی جماعتوں پر بھی پابندی عائد کردینی چاہیئے جوپاکستان مخالف جماعتوں کا پوشیدہ یا ظاہری تعاون کرتے ہیں۔ دنیا جان چکی ہے کہ مذہب اسلام کو نا تلافی نقصان ایسی ہی جماعتوں سے ہورہا ہے ، کیونکہ ایسی جماعتیں یہود و نصارا کی آلہ کار ہیں اور ان کے ہی رقموں سے پنپتی ہیں ان کا مقصد صرف اسلامی ریاستوں میں انتشار پھیلانا، سیاسی عدم استھکام پیدا کرنا، معاشی و معاشرتی زندگی کو درہم برہم کرنا اور عسکری قوت کو تباہ کرنا شامل ہے۔ ان کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی قوم و جماعت یہ صرف مافیا کی طرح مذہب اسلام کا سہارا لیکر مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے مکمل فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ لشکر جھنگوی، تحریک طالبان ،حقانی نیٹ ورک، القاعدہ اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتیں جو آئین پاکستان کے خلاف ہیں جو اپنے منشور کو سب سے زیادہ مقدم سمجھتی ہیں کیا ان جماعتوں نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف عملی اقدام اٹھایا، کیا پاکستان اور دینا کی مذہبی ،سیاسی و جہادی جماعتوں نے اسرائیل میں خود کش حملوں، بم بلاسٹ اور اسرائیلی تنصیبات کو تباہ کرنے کیلئے حملے کیئے ، نہیں ! ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ وہ منافق مسلمان ہیں جو چہرہ تو اسلامی سجائے بیٹھے ہیں مگر مذہب یہود کا ہے۔وہ جماعتیں جو خود کو مکمل مذہب اسلام میں کہتی ہیں وہ اب کیوں خاموش ہیں کیوں نہیں جاتے اسرائیل اور کیوں نہیں روکتے اسرائیلیوں کے ظلم کو۔کلعدم تنظیموں میں تحریک طالبان ،القائدہ ، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی،جیش محمد کی بلا وسطہ اور بلواسطہ تعاون کرنے والی پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتیں بتائیں کہ کہاں گئے تمہارے جہادی ٹولے ، نام نہاد اسلامی ٹھکییدار جو خود کو اسلام کے چوہدری بنے پھرتے ہیں جنہیں صدقہ، خیرات، زکواة اور چندہ وصول کرنے سے فرصت نہیں ملتی اور بیرونی طاقتوں، غیر مسلم ریاستوں سے بھاری رقم لینے والے کیوں خاموش ہیں کہاں گئے تمہارے عملی اقدامات۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ فلسطین میں قائم جہادی تنظیمیں بھی بغیر حکمت عملی، دانشمندی اور عقل شعور سے خالی جماعتوں نے اپنے ناقص پالیسی کی بناءپر ہزاروں معصوم لوگوں کو شہید کروادیا۔حال ہی میں مقبوضہ فلسطین میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جو اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کا فیصلہ اپنانے کا باعث بنے ہیں، پہلا واقعہ حماس اور فتح کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتیں ہیں، اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان جاری امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد فلسطین اتھارٹی نے اپنا کھویا ہوا اعتبار دوبارہ حاصل کرنے کیلئے حماس کے ساتھ تعاون کا سمجھوتہ انجام دیا، اس معاہدے کے نتیجے میں ایک قومی حکومت تشکیل پائی اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کے راستے کی جانب جھکاو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، فلسطین اتھارٹی کی کوشش ہے کہ وہ حماس کی جہادی صلاحیتوں کو اسرائیل کے خلاف بروئے کار لائے۔دوسرا واقعہ جو اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی جارحیت کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے وہ اسرائیل کی یہودی بستیوں کے تین باسیوں کا اغوا اور بعد میں ان کا قتل ہے، ان تین یہودی باسیوں کی لاشیں ان کے گم ہونے کے بیس روز بعد مغربی کرانے کے شہر الخلیل سے ملیں، اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رڑیم نے ان تین یہودیوں کے قتل کو بہانہ بنا کر غزہ پر دھاوا بول دیا۔لیکوڈ پارٹی، شاس پارٹی اور بینٹا پارٹی کا شمار اسرائیل کی شدت پسند جماعتوں میں ہوتا ہے،یہ پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اسرائیل کی مسلح افواج حماس کا مکمل خاتمہ کر دیںیہ پارٹیاں اس حق میں ہیں کہ اسرائیل کی زمینی فوج غزہ کی پٹی پر قابض ہو کر حماس اور اسلامک جہاد کے تمام رہنماﺅں اور سرگرم کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دے اس وقت ان پارٹیوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر شدید سیاسی دباو ڈال رکھا ہے، جس کا مقصد غزہ کے جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کو مزید وسعت بخشنا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل کی شدت پسند سیاسی جماعتوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو غزہ پر فوجی حملے کی ترغیب دلائی ہے تاکہ حماس اور اسلامک جہاد کا خاتمہ ہوسکے۔دوسری طرف اسرائیل کی بعض معتدل سیاسی جماعتیں جیسے لیبر پارٹی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مخالف نظر آتی ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل غزہ پر زمینی فوجی کارروائی کرنے سے باز رہے، یہ پارٹیاں ایسا ماحول فراہم کرنے کے درپے ہیں جس کے نتیجے میں سیزفائر عمل میں آسکے کیونکہ لیبر پارٹی اور کادیما پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ غزہ پر زمینی حملے کی صورت میں حماس اسرائیل کے خلاف بھرپور میزائل حملے شروع کر دے۔ماضی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دو جنگیں انجام پا چکی ہیں ان میں سے پہلی سن دو ہزار آٹھ میں شروع ہوئی جوبائیس دن تک جاری رہی اور دوسری سن دو ہزار بارہ میں انجام پائی جو آٹھ دن تک جاری رہی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار غزہ کی صورتحال سن دو ہزار آٹھ اور سن دو ہزار بارہ سے بالکل مختلف ہے۔۔۔ اس جنگ کا زیادہ دیر چلنے کے نتیجے میں جہاں غزہ میں بھاری جانی نقصان کا خطرہ ہے وہاں دوسری طرف عالم اسلام اور عرب دنیا میں رجعت پسند عرب حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہونے اور ان کے خلاف تحریکوں کے آغاز ہونے کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ جیسے ادارے بہت کمزور ہو چکے ہیں اور عرب حکمران گہری نیند سو رہے ہیں اور کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کرتےاگر یہی حال رہا تو یہودیوں اور غیر مسلموں کے حوصلے بلند ہوتے رہیں گے اور مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی رہے گی۔

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 273751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.