دنیا میں کمزور اقوام اور افراد کیساتھ طاقتوروں کی طرف
سے جو سلوک کیا جاتا ہے میں اس پر عموماََ قلم نہیں اٹھاتا،اس کا ہر گز یہ
مطلب نہیں کہ مجھے ان لوگوں کیساتھ کوئی ہمدردی نہیں جو طاقت کے نشے میں
چُور قوموں یا لوگوں کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جس
خطے کا میں باسی ہوں بے کسوں کیساتھ جو سلوک یہاں کیا جاتا ہے (خواہ افراد
ہوں یا اقوام) اس کی اگر داستاں قلمبند کرنا شروع کر دی جائے تو شاید ساری
زندگی لکھتے گزر جائے لیکن یہ ختم نہ ہو۔ میرا اپنا دیس کشمیرجہاں سروں کی
فصل کئی بار کٹی طویل عرسے سے ظلم کا شکار ہے،موجودہ تحریک جو 1988 میں
شروع ہوئی صرف اس میں نوے ہزار کشمیری شہید ہوئے ہیں،بستیوں کی بستیاں راکھ
کا ڈھیر بنی ہیں،ہزاروں عصمتیں لُٹیں ہیں،سینکڑوں لاپتانوجوانوں کی مائیں
ابھی تک اُن کی راہیں تک رہی ہیں،اتنی قربانیوں کے باوجود کشمیری ابھی تک
اٹوٹ انگ اور شہہ رگ کے نعروں کے بیچ میں لٹک رہے ہیں۔اُدھر وزیرستان کے
لاکھوں بے سہارالوگ رمضان کے مہینے میں تپتے آسمان تلے اس ملک کے ارباب
اختیارکی کئی دہائیوں کی پالیسیوں کی سزابھگت رہے ہیں۔طاقتوروں کے جبر کا
شکارابے کسوں اور لاچاروں کی ا نفرادی داستانیں الگ ہیں،سمجھ میں نہیں
آتاکہ کراچی کے اُس پندرہ سالہ نوجوان کا ذکر کروں جو انڈر 15کرکٹ ٹیم کا
کھلاڑی تھا،غلطی سے پولیس کا ہتھے چڑھااور جعلی پولیس مقابلے میں جان سے
ہاتھ دھو بیٹھااو ر اس کے غریب والدین انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا
رہے ہیںیا کشمیر سے تعلیم کے لیے پنڈی آنے والے طالبعلم کی کہانی لکھوں جو
اسلام آباد کے ایک معروف قبضہ گروپ کے ایک کارندے سے معمولی تلخ کلامی
پرماردیاگیا،یا اُن معصوم بچیوں کی داستاں لکھوں جوملک کے طول وعرض میں
روزانہ درندگی کا نشانہ بنتی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔جب اپنے چاروں
طرف یہ حالات ہوں تو بندہ باہر کی دنیا کے بارے میں کیا لکھے، اس لیے کوشش
یہی ہوتی ہے کہ اگر اس موضوع پر لکھنے کا موقع ملے تو اپنے ارد گرد جو کچھ
ہو رہا ہے اس پر لکھوں ۔ لیکن غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مناظر دیکھے تو
مجھ سے رہا نہ گیا، سوچا ان کیلئے نہ لکھنا بھی نا انصافی ہو گی ۔ بموں کی
گھن گرج ، جلتی بستیاں ، تڑپتی لاشیں ، بیٹوں کے لاشوں پر روتی مائیں اور
اس سب پر عالمی برادری کی بے حسی دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے۔ ایک ساتھی ڈاکٹر
نے غزہ کے حالات پر افسردہ لہجے میں فون کیا تو لکھنے کا ارادہ اور بھی
پختہ ہو گیا، وہ پاکستانی قوم ،حکومت اور میڈیا کی خاموشی پر شکوہ کناں
تھیں ۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ یہ قوم تھوڑی ہی ہے یہ تو انسانوں کا بے
ہنگم ہجوم ہے جن کو صرف اپنی ذات سے غرض ہے، اور حکمران۔۔ ان کے تو اپنے
ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں،میڈیا کے یہ حالات ہیں کہ ان کے لیے
سب سے بڑی خبربیس فلسطینیوں کی موت نہیں فٹبال کا فائنل ہے، ان سے کیا
توقع؟
عالمی امن کے ٹھیکیدار ، طالبان ، داعش ، الشباب اور اس طرح کی مقامی دہشت
گرد تنظیموں کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف جنگ پر اربوں
ڈالر خرچ کرنے والے اسرائیل کی کھلی دہشت گردی پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ
اسرائیل کی طرفداری کر رہے ہیں ۔ جان کیری اسرائیل کی بمباری سے زیادہ اس
کے جواب میں حماس کے راکٹ کے حملوں سے پریشان ہیں ۔ انھوں نے نیتن یاہو کو
فون کر کے یقین دلایا ہے کہ ہم یہ راکٹ حملے رکوانے کی پوری کوشش کریں گے ،
یعنی ہم کوشش کریں گے کہ اسرائیل کو غزہ میں قتل و غارت گری کے دوران کسی
مزاحمت کا سامنا بھی نہ ہو ۔ طاقتور مغربی ممالک نے بھی چُپ سادھ رکھی ہے
اور اقوام متحدہ بھی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے، اِکا دُکا مذمتی بیانات
ضرور سامنے آئے ہیں ۔ لیکن مجھے ان سب سے کوئی شکوہ نہیں، نہ اسرائیل سے اس
وحشت و بر بریت پر ، نہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی خاموشی اور اسرائیل کی
طرف داری پر، وہ تو دشمن ہیں انہوں نے تو ایسا ہی کرنا ہے ۔ یہودیوں کے
بارے میں قرآن نے بتا دیا ہے کہ وہ آپ کے بد ترین دشمن ہیں، اگر بد ترین
دشمن آپ سے دشمنی کر رہا ہے تو اس سے شکوہ کیا؟ عیسائی بھی آپ کے ہمدرد
نہیں ، ان کے بارے میں بھی قرآن نے صاف کہہ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے
دوست ہر گز نہیں ہو سکتے ، جب تک کہ تم ان کی پیروی نہ کرنے لگو،جب وہ دوست
ہو ہی نہیں سکتے تو پھر ان سے دوستی اور خیر کی توقع کیوں ؟گلہ تو اپنے آپ
سے ہے ، ایک ارب لاشوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر دسے ہے جو خود کو
مسلمان کہتے ہیں، پھر سوچتا ہوں ان سے کیا گلہ کروں ، لاشوں سے بھی کبھی
گلہ کیا جاتا ہے ،یہ اگر زندہ ہوتے تویوں ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے؟ پھر بھی
مجھے گلہ ہے ان پچاس سے زائد ممالک سے جو خود کو مسلم ممالک کہلاتے
ہیں،مجھے گلہ ہے نام نہاد خادمین حرمین شریفین سے جنھیں اپنی بادشاہت اسلام
سے زیادہ عزیز ہے ،جنھون نے جنرل سیسی جیسے دہشت گرد کو اخوان کی حکومت کا
تختہ الٹنے کیلئے او ر ان کے قتل عام کیلئے کروڑوں ڈالر دیئے لیکن یہودیوں
کے خلاف سینہ سپر حماس کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ۔ سارا قصور ہمارا اپنا ہے
ہم نے اگر اپنے گھوڑے تیار رکھے ہوتے تو کبھی ایسا نہ ہوتا ۔ ہم اگر رب
العزت کے احکامات کو مان کر چلتے اور اسلام کے سنہرے اصولوں پر عمل کرتے تو
طاقت کے مراکز واشنگٹن ، نیو یارک ، لندن ، پیرس اور تل ابیب میں نہ ہوتے
بلکہ مکہ مکرمہ ، بغداد ، قاہرہ ، استنبول اور اسلام آباد میں ہوتے ۔ پھر
کس کی جرات ہوتی کہ معصوم فلسطینیوں کو یوں بے سہارا سمجھ کر بار بار ان کا
خون بہاتا ، پھر کشمیر میں ظلم کی ہمت کسے ہوتی ۔ اہل مغرب اور اہل امریکہ
نے محنت کی ، ایمانداری سے کام کیا ، ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح
دی اس لیے وہ آج معاشی اور حربی طاقتیں ہیں اور ہم ان کے آگے ہاتھ پھیلائے
اور سر جھکائے کھڑے ہیں ،اگر ہم بھی ایسا ہی کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا
پڑتے۔ جب یورپ اور امریکہ میں آکسفورڈ ، کیمبرج ، ورجینیااور سٹین فورڈ
جیسے یونیورسٹیاں بن رہی تھیں اور تحقیق کے مراکز قائم ہو رہے تھے تو ہمارے
ہاں تاج محل بن رہا تھا اور خلافت عثمانیہ میں بادشاہت کے حصول کیلئے ایک
دوسرے کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں ۔ اسی لیے وہ آج طاقتور ہیں اور ہم کمزور
اور بقول علامہ اقبال ؒ \"ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات \"پھر غیروں سے
کیا شکوہ ؟؟؟ |