ملک غلام مرتضے ایک عام سے مگر سفید پوش گھرانے سے تعلق
رکھنے والا شخص تھا ۔ ٹیکسلا کا ایک چھوٹا سا گاؤں سالارگاہ اسکی جائے
پیدائش و رہائش تھی ۔ دوسروں سے ہمیشہ مسکرا کر ملنے کی کوشش کرتا اور جہاں
جاتا خوشیاں بکھیر دیتا عطر کی دو سے تین شیشیاں اسکی جیب میں عام طور پر
ہوتیں تو جو پہلی دفعہ ملتا اسے عطر کی خوشبو لگا دیتا لڑائی جھگڑے سے دور
بھاگنے والا تھا گھنی داڑھی اور کڑیل جوان تھا نماز کی پابندی کی کوشش کرتا
مگر کبھی رہ بھی جاتی زندگی میں کم و بیش ہی کسی کو نماز پڑھنے کی دعوت دی
ہوگی پاک فوج کا ملازم بھی رہ چکا تھا مگر آزاد طبیعت ہونے کی وجہ سے بمشکل
آٹھ سال فوج میں گزار سکا اور فوج سے ڈسچارج ہو گیا اپنی محنت سے کام کرنا
شروع کردیا کبھی کپڑے کا اور کبھی چائے کی پتی کی فروخت ، کبھی نمکو اور
کبھی دوائیوں کی فروخت کرتا اور اپنی گزر اوقات اچھی کر لیتا ۔ اسکا ایک
چار سال کا بیٹا اور ایک اڑھا ئی سال کی بیٹی تھی شادی تھوڑی دیر سے کی تو
اسے اپنے بچے بہت ہی پیارے اور لاڈلے تھے ایک ہفتہ کام پہ جاتا اور ایک
ہفتہ بچوں کے پاس گا ؤں میں گزارتا جب کام پہ بھی ہوتا تو بچوں کی فکر اسے
کھاتی رہتی اور جب گھر میں ہوتا تو راتوں کو اٹھ کر مچھر دانی ٹھیک کرتا
رہتا کہ کہیں میرے بچوں کو مچھر نہ کاٹ لے ۔ 19 مئی 2014 کا دن تھا ، اس دن
بھی وہ اپنے گاؤں سے اپنے کام پہ گیا اسکے بھائی نے اسے گاڑی میں بٹھانے تک
اسکا ساتھ دیا مانسہرہ پہنچا کچھ وقت دوستوں کے ساتھ گزرا چائے پی اور رخصت
ہو گیا بچوں کو فون کیا اور اپنی شریک حیات کو بچوں کا خیال کرنے کا کہا
شام کے 6:15کا وقت تھا ایک ٹیکسی میں اسکے سر میں گولیاں مار کر اسے قتل کر
دیا گیا ٹیکسی ڈرائیور کو بھی گردن میں گولی لگی مگر اسکی زندگی باقی تھی
وہ بچ گیا مقدمہ ٹیکسی ڈرائیور کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر
لیا گیا پولیس نے کوشش کی مگر ـ ’’ نامعلوم افراد ‘‘ نہیں ملے ۔ باوجود
اسکے کہ قتل ہونے سے ایک ماہ پہلے ملک غلام مرتضے تحریک انصاف کے پنجاب کے
ایک ایم پی اے کے ساتھ اپنی تصویر بنواتے ہوئے فخر محسوس کر رہا تھا مگر
اسی تحریک انصاف کی حکومت کے علاقے میں اسے قتل کرنے والا قاتل کہیں روپوش
ہوگیا اور ’’ نامعلوم افراد ‘‘ کی فہرست میں شامل ہوگیا ، آج ملک غلام
مرتضے کے بچے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہو چکے ہیں انکی آنکھوں میں جو چمک
ہوتی تھی وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ ـ’’ نا معلوم افراد ‘‘ نے نا
معلوم وجوہات کی بناء پر ایک شخص کو قتل اسکی بیوی کو بیوہ اور اسکے بچوں
کو یتیم کر دیا ۔
قارئین کرام ! ٹی وی پر روزانہ خبر آتی ہے کہ آج فلاں جگہ پر ’’ نا معلوم
افراد ‘‘ نے کسی کو قتل کر دیا کبھی کراچی میں تو کبھی کوئٹہ میں ، کبھی
سوات میں تو کبھی پشاور میں کبھی کبھی تو عدالت کے احا طے میں بھی یہ
کارنامہ سرا نجام دے دیا جاتا ہے مگر یہ سب کرنے والے چونکہ ’’ نا معلوم
افراد ‘‘ ہوتے ہیں اس لیئے کسی نے ان ’’ نا معلوم افراد ‘‘ کی حقیقت معلوم
کرنے کی کوشش ہی نہیں کی نہ تو اس ملک کی پولیس نے اور نہ ہی ہمارے معزز
انصاف دینے کے علمبرداروں نے نہ تو کسی سیاستدان نے اور نہ ہی ارض پاک کے
ان جوان اور با صلاحیت خفیہ اداروں کے لوگوں نے لیکن ایک سوال یہ بھی ذہن
میں آتا ہے ایسا ممکن نہیں کہ ان ’’ نا معلوم افراد ‘‘ کی حقیقت معلوم نہ
ہو کیونکہ بہت سارے وسائل ان اداروں کے پاس ہیں مگر یہ جو ’’ نا معلوم
افراد ‘‘ ہیں بہت ہی با اختیار ہیں جن کو بے نقاب کرتے ہوئے ہمارے تمام اہم
ادارے اور شخصیات ہچکچاتی ہیں ، ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہو سکتا
ہے کہ یہ ’’ نا معلوم افراد ‘‘ واقعی ’’ نا معلوم افراد ‘‘ ہوں جنکا ہماری
ریاست اور ریاستی مشینری کے اہم ادارے کوئی سراغ نہ لگا سکے ہوں ان ’’ نا
معلوم افراد ‘‘ کے پاس وسائل کی بھرمار ہو انکی ٹریننگ اور باگ ڈور
سنبحالنے کی ذمہ داری کسی بہت ہی طاقتور اور ترقی یافتہ ملک نے سنبھالی
ہوئی ہو ، لیکن فورا ہی اس خیال کو رد کر دیتا ہوں اس لئے کہ ہمارے باقی
ادرے تو چلیں نا اہل ہی سہی مگر ہمارے خفیہ ادرے جنکی صلاحیتوں کی پوری
دنیا معترف ہے اتنے نا اہل نہیں ہو سکتے کہ یہ ’’ نا معلوم افراد ‘‘ واقعی
میں نامعلوم ہوں انکو بہت ساری حقیقت کا پتہ ہوگا لیکن کیا ان ’’ نا معلوم
افراد ‘‘ میں سے کسی کو بھی سزائے موت دی گئی ؟ کیا کسی کے چہرے سے بھی
نقاب ہٹایا گیا ؟ اب تک تو محترمہ بے نظیر کے قاتل بھی نامعلوم ہی ہیں اور
پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال مرکز میں ہونے کے باوجود بھی یہ ’’ نا معلوم
افراد ‘‘ نامعلوم ہی رہے
ضرورت اس امر کی ہے ان ’’ نا معلوم افراد ‘‘ عوام کے سامنے لایا جائے جن جن
لوگوں کے پیاروں کو جس جس طریقے سے ان ’’ نا معلوم افراد ‘‘ نے مارا ہے اسی
طرح سے مارا جائے اور معاشرے میں انصاف ہوتا نظر آئے ورنہ جو حالات آگے آنے
والے ہیں وہ کسی کے لیئے بھی سازگار نہیں ہونگے کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا
یہ نا معلوم لوگوں کی عزتیں تار تار کریں گے ، انکے مال وزر پر قبضہ کر لیں
گے جسکی لاٹھی اسی کی بھینس ہوگی لوگ اپنے آپ کو نامعلوم افراد کہلانا پسند
کریں گے کیونکہ اس سے انکا دوسروں پر وہ ڈر اور خوف بیٹھے گا جو طالبان کے
نام پر کام کرنے والے بھیڑیئے بھی نہیں بٹھا سکے ۔ طالبان جب تک نا معلوم
تھے تب تک آپ انکے خلاف اتنی کامیابی حاصل نہیں کرسکے مگر مذاکرات کے نام
پر وہ سامنے آئے اور سب کو معلوم ہوگئے اور اپنی کامیابی آپکو نظر آنے لگی
ہے ۔ نامعلوم لوگوں کے خلاف فوج نہیں لڑ سکے گی اس سے پہلے کہ بہت کچھ
نامعلوم ہوجائے ان ’’ نامعلوم افراد ‘‘ کا پتہ لگانا ہوگا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : یہ کالم دیکھنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی خیر خواہ
خیبر پختونخواہ حکومت تک یہ بات پہنچا دے اور ملک غلام مرتضے کے بچوں کے
تعلیمی اخراجات یہ حکومت اٹھا لے تو یہ اس حکومت کے سنجیدہ ہونے کی مثال
ہوگی ۔ |