انقلاب ،آزادی اور جمہوریت کی کچھڑی

جب مغرب نے جمہوریت کو خوبصورت اور دل فریب پری کی صورت میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا تو اس کی جو تھوڑی بہت خوبیاں تھیں اسے لوگوں کے سامنے نہایت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا سرمایہ دارانہ نظام کی تلخیوں اور بے ہودگیوں کو جمہوریت کے خوبصورت لبادے میں ملفوف کرکے چھپانے کی بھرپور کوشش کی گئی تاکہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو بھول جائیں اور یہ لوگ بھولی عوام کو دونوں ہاتھوں سے انہیں لوٹتے رہیں اور اس میں تقریبا دو صدی تک کامیاب بھی رہے ۔ پھر اشتراکی نظام کو سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کے مدمقابل پیش کیا گیا۔ چونکہ یہ بھی ایک غیر فطری نظام تھا اس لئے اس کا خاتمہ بھی روس کے حصے بکھرے ہونے پر ہوگیا۔ مغربی جمہوریت پر بھی اب آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور ناکامی اور پسپائی نے اس کا راستہ بھی دیکھ لیا ہے۔ مشہور جرنلسٹ کلدیپ نیئر کہتے ہیں کہ ’’ بدنصیبی سے پورے جنوبی ایشیا میں جمہوریت ناکام ہوچکی ہے‘‘ انہوں نے صرف جنوبی ایشیا کی بات کی ہے حالانکہ عالمی سطح پر اس کو ناکام طرز حکومت قراردے دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس نظام کی وجہ سے عوام الناس غربت و افلاس، جہالت و بے شعوری کی دلدل میں دھکیلے جارہے ہیں۔ 85 فیصد سے زیادہ وسائل صرف 10 فیصد امراو خواص کی عیاشیوں اور اللے تللوں پر صرف ہو رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کیپٹل ازم اور ڈیموکریسی دونوں ایکدوسرے کو کور دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب ان کا خاتمہ بھی بعید ازقیاس نہیں کیونکہ مغربی جمہوریت کا نام نہاد لبادہ اب اترنے لگا ہے۔ ہاں ایک اور عنصر جس نے سرمایہ داران نظام اور مغربی جمہوریت کو ڈھال دی وہ ہے دہشت گردی کا خودساختہ عفریت ۔یہ بھی چندلوگوں کی ایما پر مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں پر تھوپا گیا ہے تاکہ انسانیت اور انسانی حقوق کا مسئلہ پس منظر میں چھپا رہے اورلوگ بالخصوص مسلمان موجودہ نظام کی خامیوں اور خرابیوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں اور متحد ہوکر اس کے خلاف برسرپیکار نہ ہوسکیں

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان تینوں نظاموں کے پنپنے اور پھلنے پھولنے کی وجہ صرف اور صرف مسلم حکومتوں کا یہودی نواز ہونا ہے حالانکہ کوئی بھی مسلم مملکت ایسی نہیں جو یہودیوں کی دست برد کا شکار نہ ہوئی ہو۔ مسلمانوں میں مسلک ، فرقہ واریت اور لسانیت کا ناسورپھیلا کر یہودیوں اور غیر مسلم طاقتوں نے ہمیشہ سے تماشا دیکھا ہے تو دوسری طرف غدار قوم و ملک اسلام کے مضبوط قلعوں میں دراڑیں ڈالنے میں مصروف عمل ہیں جن کے جد امجد میر جعفر و میر صادق جیسے غدار ہیں۔امریکہ اور اسرائیل ان کے سرپرست ہیں۔ان تمام صیہونی ،عیسائی اور غیر مسلم باطل قوتوں سے نمٹنے کیلئے ،ان کی ریشہ دوانیوں کو ختم کرنے اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے ایک ایسی طاقت ،قوت اور نظام کی ضرورت ہے جو کہ ان کے خلاف ناصرف سیسہ پلائی دیوار کا کام دے بلکہ اپنے حامیوں کو جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ بھی فراہم کرسکے اور مسلم امہ کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکے تو وہ نظام صرف اور صرف اسلامی حکومت کا قیام ہے کہ جسکی مدد سے آج کے حالات کے پیش نظر دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں بیداری کی لہر کو پیدا کیا جاسکے۔ خاندانی اور موروثی اجارہ داری سے بیزاری کا رجحان پیدا کیا جاسکے۔ اور اس کی لہر بھی چل نکلی ہے جس کی شروعات ایران کے اسلامی انقلاب سے ہوچکی ہے۔ایک وقفہ کے بعد اب طبل انقلاب بج چکا ہے جس کی مثال امریکہ کی افغانستان اور عراق میں پسپائی ہے مگر اس کیلئے لاتعداد انسانی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انقلاب کشت و خون کے بغیر رونما نہیں ہوسکتا۔انقلاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ’’انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نہیں ڈھال لینے کا نام ہے ۔ مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جولوگ اپنا کوئی اصول، کوئی مقصد حیات، کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں۔ جو بلند مقصد کیلئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں جن کو دنیا میں آسائش اور سہولیات مطلوب ہوں جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ تاریخ انسانی میں نہیں پایا جاتا۔تاریخ بنانا صرف بہادروں کا کام ہے انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے۔دنیا کے خیالات بدلے ہیں۔ منہاج عمل انقلاب پیدا اور برپا کیا ہے۔ زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کی بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کے چھوڑا ہے‘‘۔ ہم سوشلسٹ انقلاب کی بات کرتے ہیں نہ کہ چین کے انقلاب کی۔ہم اتاترک کے سیکولر انقلاب کو زیر بحث لاتے ہیں نہ ہی کسی اور کے انقلاب کی کہ جس کو ایک بڑی آبادی نے مسترد کردیا ہو۔ہم بات کرتے ہیں اسلامی نظام حکومت کی اسلامی انقلاب کی ۔جس طر ح سے مذکورہ بالا نظاموں کو آزمایا گیا یا جارہا ہے اگر صرف ایک بار دنیامیں نظام اسلام کا نفاذ کردیا جائے۔ اس کی تائید نہ ہو تو کم از کم اس کی مخالفت اور اس کے خلاف سازشیں نہ کی جائیں۔طاقت کو انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے صرف کیاجائے تو وہ نظام چار پانچ سالوں میں دنیا کو سو فیصد وہ سب کچھ دے گا جس کو آج تک مغربی جمہوریت،سوشلسٹ انقلاب، کمیونسٹ انقلاب ،سیکولر انقلاب سو اور دو سو سال میں نہ دے سکے۔ لیکن ایساہونے نہیں دیا جائیگا کیونکہ وہ خاص طبقہ انسانیت کی بھلائی چاہتا ہی نہیں۔ انہیں تو بے لگام آزادی چاہئے ۔مدر پدر آزادی معاشرہ چاہئے۔ آوارہ گردی بدکاری عیش و عشرت سے بھرپور زندگی چاہئے تاکہ دنیا میں ایک ایسی زہریلی فصل بو دی جائے جو ایڈز اور کینسر کی طرح پوری دنیا میں سرایت کرجائے۔

مملکت خداداد میں اسوقت بڑی عجیب سی کچھڑی پکی ہوئی ہے۔ جمہوریت کی علمبردار حکومت جمہوریت اور اقتدار کو بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے۔ وہ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کرنے والوں سے اس قدر خوفزدہ ہوچکی ہے کہ افواج پاکستان کی خدمات لے چکی ہے جو کہ بذات خود انکی ناکامی اور پست حوصلگی کا ثبوت ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ ان لوگوں کے نعروں سے انقلاب آگیا تو کیا ہوگا۔ہمارے کھابے، عوام کی کمائی پر عیش و عشرت، گردنوں کے سریے، تنی طنابیں سب ختم ہوجائیگا۔دوسری طرف انقلاب انقلاب کا نعرہ لگانے والے بھی خود اپنی جگہ پریشان ہیں کہ اگر انقلاب نہ آسکا تو ہماا کیا بنے گا؟ حکمران اور عوام ہمارا ککھ نہیں چھوڑیں گے۔اور ویسے بھی فی الوقت انقلاب کے حوالے سے اس کے پورے لوازمات غیر واضح اور دھندلاہٹ کا شکار ہیں۔فی الحال یہ سب زبانی جمع خرچ دکھائی دیتا ہے۔بہرحال اس کھد کھد کرتی کچھڑی میں اصل تڑکہ عوامی شمولیت کا ہی لگے گاورنہ تو یہ کچھڑی پک پک کردم توڑ دے گی اور سوائے مالی، ذہنی اور جسمانی نقصان کے کچھ نہیں ملے گا۔ابھی تک نہ تو حکومت نے ہی کوئی ایسی اصلاحات،سہولیات اور ریلیف عوام کو فراہم کیا ہے کہ جس سے عوام کو یقین آجائے کہ اہل اقتدار و اہل ثروت ہمارے خیرخواہ ہیں جس طرح ماضی و حال میں ہمیں سہولیات دیں ہمارے صحت تعلیم روزگار مہنگائی بجلی گیس پانی و آٹا کے مسائل حل کئے ماضی میں بھی ایسا ہی ہوگا یا اس سے بہتر ہوگا ایسی کوئی مثال کوئی اشارہ کوئی کلیہ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔بعینہ حکومتی تختہ الٹنے والوں نے بھی ابھی تک کوئی لائحہ عمل بلکہ قابل عمل لائحہ عمل نہیں دیا کہ جس پر یقین او ر اعتماد کرکے قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوجائے۔ تمام راستے ماضی کی مشکوک اور غیر یقینی صورت حال سے دھندلائے ہوئے ہیں۔عمران خان ہو کہ طاہرالقادری یا پھر کوئی زید بکر جب تک عوام کو واضح اور غیر مبہم مستقبل،محفوظ و مامون پاکستان اور خوشحال عوام کی حقائق پر مبنی فلم نہیں دکھائی جائیگی اس وقت تک کوام ساتھ چلنے کیلئے تیار نہیں ہوگی۔ یہ بار بار کی ڈسی عوام یقینا بہت کچھ جان اور سمجھ چکی ہے ۔ لالی پوپ دے کر انہیں اب بہلانا ذرا مشکل ہے

المختصر حکومت ہو کہ عوامی نمائندے یا پھر کوئی سیاسی مذہبی جماعتیں انقلاب و تبدیلی کا اصل سرچشمہ عوام ہیں ۔عوام کی طاقت کے بغیر،ان کی شمولیت کے بغیر،ان کے تعاون اور کوآپریشن کے بغیر نہ تو سسٹم تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے کیونکہ تن من دھن عوام کا ہی لٹنا ہے۔لہذا اہل اقتدار اپنی حکومت کو بچانے کیلئے اور اہل انقلاب و اہل آزادی انقلاب و تبدیلی لانے کیلئے عوام کو رام کریں۔پس جو جیتا وہی سکندر۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211823 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More