حکومتی محکموں میں متعصب عناصرکی موجودگی :ایک تجزیہ
گزشتہ دنوں ہائی کورٹ نے یہ سوال اٹھایاہے کہ آخرجیلوں میں مسلمانوں کے
خلاف ہی تشددکے واقعات کیوں پیش آتے ہیں۔عدالت کایہ سوال انتہائی اہمیت
کاحامل ہے۔جیلوں میں آبادی کے تناسب سے زیادہ مسلمانوں کی موجودگی اورپھردس
دس برس کے بعدثبوت کی عدم موجودگی کی بنیادپربے گناہوں کی عدالت سے برات یہ
ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص مشن کے تحت کیاجارہاہے۔اعلیٰ
حکومتی اداروں ،پولیس فورسزاورتفتیشی ایجنسیوں میں ایسے مخصوص ذہنیت رکھنے
والے افسران موجودہیں جن کامقصدصرف اورصرف مسلمانوں کااستحصال ہے۔ثبوتوں کے
بغیرمسلم نوجوانوں کوٹارگیٹ بناناتفتیشی ایجنسیوں کامحبوب مشغلہ
ہے۔اورحدتویہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کے جھوٹے مقدمات سے بری ہونے پربھی ان کی
عمرعزیزسے کھلواڑکرنے والوں کی کوئی سرزنش نہیں ہوتی۔مسلمانوں کیلئے انصاف
کی آخری امیدعدالت کواس پر توجہ دینی چاہئے۔کیونکہ وطن عزیزکے دستورمیں
شخصی آزادی کاتحفظ متعدددفعات کے ذریعہ کیاگیاہے۔ آئین کے مطابق کسی شخص کو
اسی وقت سزادی جاسکتی ہے کہ لگایاگیاالزام، ثابت بھی ہوجائے،چنانچہ مقدمہ
چلائے اورصفائی پیش کئے بغیرکسی قسم کی سزاکسی کونہیں دی جاسکتی ۔لیکن
حالیہ برسوں میں جس طرح تمام دستوری تقاضوں کوپامال کرکے اوران کی دھجیاں
اڑاکر مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچی جارہی ہیں اور ہندوتوذہنیت ، آئینی
اورتفتیشی اداروں میں جس طرح سرایت کرگئی ہے وہ صرف مسلمانوں کیلئے ہی باعث
تشویش نہیں ہے بلکہ وطن کی سالمیت واتحاداورجمہوری قدروں کی بقاء کیلئے بھی
مضرہے۔ چنانچہ قتیل کے قتل سے لے کر خالد مجاہد کی پراسرارموت کے واقعہ میں
یہی ذہنیت کارفرماہے اور فرقہ پرست عناصر اورمتعصب افسران اس میں پیش پیش
رہے ہیں۔ان عناصرکے ہاتھوں مسلمانوں کو نشانہ بناکرجیلوں میں ڈال
دیاجانا،ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک ،یہاں تک کہ انہیں مو ت کے گھاٹ تک
اتاردیناایک روایت سی بن گئی ہے ۔
مسلمانوں کی گرفتاریوں کاجس طرح سلسلہ جاری ہے اس کااندازہ ستمبر2012میں
جاری ’’نیشنل کرائم ریکارڈبیورو‘‘(این سی آربی )کی رپورٹ سے بھی
لگایاجاسکتاہے جس میں بتایاگیاہے کہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ
جیلوں میں ہیں۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ3,72,726 قیدیوں میں
75,053یعنی(20,12%)فیصدمسلمان ہیں۔نیزجن1,28,592 قیدیوں کوسزاسنائی جاچکی
ہے ان میں22,943مسلمان قیدی ہیں جواپنی آبادی کے تناسب سے17.8فیصدہیں،مغربی
بنگال میں45فیصد،مہاراشٹرمیں36فیصد، اترپردیش میں ہرچوتھاقیدی مسلمان
ہے،گجرات میں مسلمانوں کی آبادی6فیصدہے،جبکہ جیلوں میں22.4فیصد ہیں،دہلی
میں مسلم آبادی 12فیصدہے،اور جیلوں میں 23فیصدہیں،عالی پورسنٹرل جیل کے
1222قیدیوں میں سے530مسلمان ہیں،غازی آبادجیل میں2200قیدیوں میں720مسلمان
ہیں۔اسی طرح جموں کشمیر،مدھیہ پردیش،پانڈیچیری اورسکم سمیت ملک کی
دیگرریاستوں میں مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ جیلوں میں ہیں۔
دوسری طرف یہ دوہراپیمانہ بھی قابل توجہ ہے کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے
مطابق ملک کی 16.6لاکھ پولیس فورسیزمیں صرف ایک لاکھ8ہزارمسلمان ہیں جوکہ
ان کی آبادی کاصرف 6فیصدہے۔اسی طرح قومی دارالحکومت دہلی میں مسلمانوں کی
کل آبادی12فیصدہے جب کہ پولیس فورسیزمیں صرف2فیصدمسلمان ہیں۔
جیلوں میں اپنی آبادی سے کہیں زیادہ ان کی موجودگی اورپولیس اورتفتیشی
ایجنسیوں میں مسلمانوں کی افسوس ناک حدتک بہت کم نمائندگی کاہی نتیجہ ہے کہ
عدالتی تحویل یاپولیس کی حراست میں سب سے زیادہ تشددکے شکارمسلمان ہی ہوتے
ہیں،تفتیشی ایجنسیوں کے فرقہ پرست افسران اپنی حراست میں موجودمسلمانوں کے
ساتھ کسی طرح کی بھی غیرانسانی حرکت سے نہیں چوکتے۔جیلوں میں مسلم نوجوانوں
کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کے حوالہ سے سے یوپی کے سابق انسپکٹرجنرل
آف پولیس (آئی جی) ایس آوراداراپوری کایہ سنسی خیزانکشاف بہت اہمیت رکھتاہے
کہ تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ بے قصورمسلم نوجوانوں کوخفیہ مقام پررکھ کران
کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیاجاتاہے ۔سابق آئی جی نے یہ انکشاف کیا کہ
32برسوں کے کی سروس میں انہوں نے مسلم نوجوانوں پرتشددکے بے شمارواقعات
دیکھے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی انکشاف کیاکہ تفتیشی ایجنسیوں نے کئی
مسلم نواجوانوں کواغواء کرکے خفیہ مقام پررکھاہواہے تاکہ آنے والے وقت
میں’’داشتہ آیدبکار‘‘کے طورپران کوکسی دھماکہ میں شامل قراردے کراپنی پیٹھ
تھپتھپاسکیں۔اسی لئے جیسے ہی دھماکہ ہوتاہے اگرفوری طورپرکوئی مسلم نوجوان
گرفت میں نہ آسکاتواسی تجوری سے مسلم نوجوانوں کو لاکرمیڈیاکے سامنے پیش
کردیاجاتاہے ۔ساتھ ہی سنگھ نے یہ حیرت انگیزانکشاف بھی کیاکہ
خالدمجاہداورطارق قاسمی کوجب گرفتارکیاگیاتوان کے پاس قابل اعتراض کوئی چیز
بھی نہیں تھی،جس سے کسی دھماکہ میں ان کے ہاتھ ہونے کاشبہ کیاجاسکے ۔وکرم
سنگھ نے ان سے پانچ لاکھ روپئے کامطالبہ کیااورکہاکہ روپئے دے
دو،چھوڑدیاجائے گااور’’تمہاری جگہ دوسرے کواٹھایاجائے گااورپھنسایاجائے
گا‘‘۔باربارپڑھئے وکرم سنگھ کے تعلق سے آئی جی کے اس خلاصہ کو۔اوراندازہ
کیجئے ان افسران کی فرقہ پرستانہ ذہنیت کااورانتہاء پسندی کا۔
اس ایمانداراورقابل مبارکبادافسرنے دل دہلادینے والایہ حیرت انگیزانکشاف
بھی کیاکہ ان مسلم نوجوانوں کو’’ خنزیرکاگوشت کھانے اورپیشاب پینے
پرمجبورکیاجاتاہے‘‘۔اوران پرظلم وستم کے پہاڑتوڑے جاتے ہیں۔خودان دونوں
نوجوانوں نے بھی عدالت میں پیشی کے دوران اپنے وکیل رندھیرسنگھ سمن
کوبتایاتھاکہ انہیں حراست کے دوران لوہے کے جال پرہاتھ باندھ
کربٹھایاگیااوراس میں کرنٹ ڈال کردھماکہ میں شامل ہونے بات قبول کرنے کے
لئے مجبورکیاجاتارہا۔
ان مظالم اورستم کے حوالہ سے سابق آئی جی نے ان خاطی اورمجرم افسران کے نام
بھی بتائے ہیں جواس کام میں پیش پیش رہتے تھے جن میں ایس ٹی ایف کے پنکج
پانڈے اورادیناش شنکرہیں۔نیزیہ افسران ،ان نوجوانوں کے پوشیدہ مقامات
پرپٹرول ڈال کراقبال جرم کرانے کے بھی ملزم ہیں۔
اس طرح تفتیشی ایجنسیوں کے کالے کرتوتوں کی فہرست بیان سے باہرہے۔ پولیس
محکمہ ،ایس ٹی ایف اوراے ٹی ایس کے ہاتھوں بڑی ذہانت کے ساتھ خالدمجاہدکے
قتل کے واقعہ کوانجام دیئے جانے پر انصاف پسندسماج یہ سوال کررہاہے کہ خالد
مجاہد اور طارق قاسمی کی برات سے متعلق نمیشن کمیشن کی رپورٹ کیوں عام نہیں
کی گئی ،اس کوعملی جامہ کیوں نہیں پہنایاگیا(جب کہ نمیشن کمیشن کی رپورٹ
میں اس بات کے پختہ ثبوت ہیں کہ گرفتارنوجوان بے قصورہیں)اورعدالت میں
لاپراہی کے ساتھ درخواست کیوں داخل کی گئی جیساکہ خوداکھلیش یادو نے بھی یہ
اعتراف کیاہے’’ اگرعدالت میں داخل کئے جانے والے حلف نامہ میں’ خامی‘ نہ
ہوتی توشایدیہ واقعہ پیش نہ آتا‘‘۔کیاصرف یہ اعتراف کرنے سے وزیراعلیٰ ذمہ
داری سے بری ہوجائیں گے؟۔انصاف پسندطبقہ ،مسلمانوں کے ہی ووٹوں سے
اقتدارپربراجمان ہونے والی پارٹی سے یہ سوال بھی کررہاہے کہ ان پر کئی بار
جیل میں حملہ ہوچکنے کے بعداور جان کودرپیش خطرات کی آگاہی کے باوجودانہیں
سیکوریٹی کیوں نہیں فراہم کی گئی؟۔ آخرپولیس انتظامیہ کورات میں ہی اہل
خانہ اوران کے وکلاء کی عدم موجودگی میں پوسٹ مارٹم کرانے کی جلدی کیوں
تھی؟۔ سیکولرکہلائے جانے والے ’’نیتاجی‘‘ کیا ان باتوں کاجواب دے سکتے
ہیں؟۔
چنانچہ یہ کہنے کی بھی گنجائش ہے کہ کئی پولیس اہلکار نمیشن کمیشن کی رپورٹ
کے سامنے آنے کے بعد بے گناہوں کو دہشت گردانہ معاملات میں پھنسانے کے
الزام میں چونکہ گرفت میں آرہے تھے۔ اس لئے پوری پلاننگ کے ساتھ اس معاملہ
کوانجام دیاگیا جیساکہ مورخہ18مئی 2013کے ایڈیشن میں دینک بھاسکر نے بھی یہ
اندیشہ ظاہرکیاہے۔
اس تمام واقعات کے پس منظرمیں اس حقیقت کوسمجھنابہت ضروری ہے کہ اعلیٰ
حکومتی عہدوں،پولیس فورسزاوربیوکریسی میں اکثریت متعصب افسران کی ہے۔دوسرے
لفظوں میں یہ کہاجاسکتاہے کہ آرایس ایس کے پروردہ نمک حلالوں کی ۔اوریہاں
تک کہ جوڈیشیل سسٹم میں بھی ۔آخرکیاوجہ ہے کہ ریٹائرہونے کے بعدزیادہ
ترافسران بی جے پی کے دامن تھامتے ہیں۔اس لوک سبھاالیکشن سے قبل سنجے
بارواورکئی بیوکریٹس کی خاک وہی پہونچی جہاں ان کاخمیرتھا۔ان افسران
کوریٹائرہونے کے بعدہی یوپی اے حکومت کی خامیاں کیوں نظرآتی ہیں۔یہ بھی
اپنے آپ میں ایک اہم سوال ہے۔وجہ صاف ہے کہ انہیں اپنی اسی مٹی کی طرف
لوٹناہوتاہے جہاں ان کاخمیرتیارہواتھا۔آپ کواس کااندازہ لگاناہوتوحکومتی
دفتروں میں چلے جائیے،مذہبی تفریق کا واضح ثبوت اورمتعصبانہ ذہنیت جگہ جگہ
کارفرمانظرآئے گی۔ریٹائرہونے کے بعداپنے پرانے گھونسلے میں جانے والے ان
پنچھیوں پرسرسری نظرڈالئے۔توبات بہت واضح نظرآئے گی۔این ڈی اے حکومت میں
وزیراورفوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ اس کی چلتی پھرتی مثال
ہیں۔جنہوں نے توپہلے اپنے ریٹائرمنٹ پرخوب ڈھکوسلہ کیایوپی اے حکومت کے
ساتھ اس دودوہاتھ کرنے سے بی جے پی میں ان کی مقبولیت ہوئی پھرریٹائرمنٹ کے
بعدقربت میں مزیداضافہ ہوتارہاجس نے بالآخروزارت کی کرسی تک پہونچنے میں
کامیابی کی راہ ہموارکی۔
دوسری مثال جسٹس کاٹجوکی ہے جنہیں ابھی فوری طورپرایک عددعہدہ کی ضرورت ہے
کیوں کہ پریس کو نسل آف انڈیاکی صدارت کی مدت اکتوبرمیں مکمل ہورہی ہے۔اس
لئے انہوں نے مودی حکومت سے قربت پیداکرنے کیلئے بے تکے بیانات کاسلسلہ
جاری رکھاہواہے ۔کبھی اردوحلقوں میں معتبرنگاہ سے دیکھے جانے والے سابق جج
ان دنوں پھرسرخیوں میں ہیں۔داڑھی پرمتنازعہ بیان دینے والے جسٹس کاٹجویوپی
اے حکومت میں مسلمانوں اوراردوکے ہمدردسمجھے جانے لگے لیکن جیسے ہی حکومت
بدلی،ساتھ ہی پرانی ذہنیت واپس آگئی۔مودی حکومت کی حلف برداری کے چنددنوں
بعدہی وہ یکساں سول کوڈکی حمایت میں کودپڑے۔اوریہاں تک کہہ ڈالاکہ مسلمانوں
کی پسماندگی کی وجہ مسلم پرسنل لاء ہے۔پھرشایدانہیں لگاکہ اتناہی بولنے سے
کام نہیں چلنے والاہے تواب تسلیمہ نسرین کیلئے ان کے پیٹ میں دردشروع
ہوگیااورمرکزی حکومت سے انہوں نے مستقل ویزاکامطالبہ کرڈالا۔معلوم نہیں
پریس کونسل آف انڈیاکے دائرۂ اختیارمیں یہ سب کچھ کیسے آگیا۔جوابھی تک
الیکٹرانک میڈیاتک کواپنے دائرۂ اختیارمیں نہ کرسکی۔یہ بیانات کاٹجوصاحب کے
عہدہ سے کس قدرمتعلق ہیں ؟۔بات صا ف ہے کہ یہ سب کچھ اکتوبرکے بعدنئی کرسی
کیلئے کیاجارہاہے۔ابھی مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس کی تقرری کے سلسلہ میں
کالجییم کے کرداراورسابق ججوں پرانہوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔آخرکیوں دس سال
بعدانہیں اس بدعنوانی کی یادآئی۔سمجھناکوئی مشکل نہیں ہے کہ اگروہ اس دس
برس کی مدت میں اس کاانکشاف کرتے توکہیں پریس کونسل کی چیئرمینی نہ چلی
جاتی۔اس خدشہ کے پیش نظراب موقع اچھاتھا،حکومت بدل چکی تھی،مدت بھی پوری
ہورہی ہے،نئے عہدہ کی ضرورت بھی ہے جوسابقہ حکومت پرانگلی اٹھائے اورنئی
حکومت سے قربت (یعنی مسلم دشمنی کاثبوت پیش کئے بغیر)کے بغیرپوری نہیں
ہوسکتی ۔اس لئے دس سال کے بعداب یہ ’’بدعنوانی انہیں اچانک یادآگئی‘‘۔خبراب
یہ بھی ہے کہ کاٹجوکے اس انکشاف کے فوراََبعدمرکزی حکومت کالجیم پرعدم
اعتمادکرتے ہوئے ججوں کی تقرری والے کمیشن کی سفارش کرنے والی ہے۔ممکن ہے
کہ یہ سب کچھ(کاٹجوکاانکشاف) صرف اس لئے کروایاگیاہوتاکہ جوڈیشیل سسٹم میں
بھی پوری طرح آرایس ایس کے مشن کوکامیاب بنایاجاسکے۔ظاہرہے کہ جب نیاکمیشن
بنے گاتوجگہ کیسے لوگوں کوملے گی۔جب کہ ملک نے یہ بھی دیکھ لیاکہ امت شاہ
پرشکنجہ کسنے والے جج کوسپریم کورٹ جانے سے روکاگیااورامت شاہ کے وکیل
کوسپریم کورٹ پہونچایاجارہاہے ۔اب یہ سمجھناکوئی مشکل نہیں ہے کہ عدلیہ
کاوقارواعتبارکس طرح مجروح ہونے والاہے۔
مندرجہ بالاسطورمیں دراصل اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ پولیس محکموں اعلی
حکومتی اداروں اورتفتیشی ایجنسیوں میں متعصب افسران کی توپہلے ہی سے کوئی
کمی نہیں ہے۔اب جوڈیشیل سسٹم بھی خطرہ سے دوچارہے جس کے بعدانصاف کی آخری
امیدپرضرب پڑسکتی ہے۔ایسے میں اگرمسلمانوں کی گرفتاری نہ ہو،ان کی آبادی
جیلوں میں بہت زیادہ ہو،اورعدالت سے انصاف ملنے میں بھی پریشانی
کاسامناکرناپڑے توان حالات کامقابلہ کرنے کیلئے تیاررہناچاہئے۔انصاف
پسندطبقہ کواس کیلئے آگے آناہوگااوران عناصرکے خلاف جوجمہوریت کوایک مخصوص
رنگ میں رنگناچاہتے ہیں،مضبوط آوازاٹھانی ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قیادت ہوش کے ناخن لے اورمسلمانوں کی گرفتاری
اوران کی منظم نسل کشی کے خلاف ملک گیرتحریک چلائے کیونکہ حکومت کامزاج یہ
ہے کہ وہ احتجاج اورملک گیرمظاہروں کے بعد ہی وہ کسی مسئلہ کوسنجیدگی سے
لیتی ہے ۔ جمہوری ملک میں اپنی بات منوانے کیلئے بروقت اقدام کامزاج بھی
ضروری ہے۔آج ملت میں مسائل سے واقفیت اوربروقت اقدامی صلاحیت کی کمی ہے وہ
اپنے مسائل دلائل کے ساتھ نہیں رکھتی ہے۔بتان رنگ وخوں کوتوڑکرملت میں گم
ہوجا۔
ان احتجاج اورموثراقدامات کے ذریعہ مسلم قیاد ت کو ریاستی اورمرکزی حکومتوں
پریہ بھی واضح کردیناچاہئے کہ اگرمسلمانوں کے تحفظ کویقینی بنانے کیلئے قدم
نہ اٹھائے گئے ،ناجائزگرفتاریوں،مسلم نسل کشی اورفسادات کاسلسلہ روکنے
کیلئے انتہاء پسند افسران کوقابومیں نہ کیاگیا تویہ انصاف کاقتل بھی
ہوگااورجمہوریت کیلئے خطرناک بھی،اورجب تک تعصب کے عفریت انصاف کاخون پیتے
رہیں گے،’’سب کاساتھ سب کاوکاس ‘‘نہیں ہوپائے گا۔ |