مخالفین کا طبل جنگ....حکومت کی مشکلات میں اضافہ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے خلاف طبل جنگ بجانے کے بعد اب حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ 14اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے ”آزادی مارچ“ اور پاکستان عوامی تحریک کے ”انقلاب مارچ“ کے اعلانات کے بعد سے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں ”انقلابی لیڈر“ حکومت کو تہہ و تیغ کیے بغیر ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خا ن اعلان کر چکے ہیں کہ 14اگست کو بادشاہت ختم کر کے ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کریں گے۔ عوام اپنے بچوں اور ملک کے مستقبل کی خاطر 14اگست کو باہر نکلیں، اب حکومت کی جانب سے ہمیں منانے کا وقت گزر چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہمارے کارکنان جذ بات سے بھرے ہوئے ہیں، ہمارا راستہ نہ روکا جائے۔ اگر حکومت نے ہمارے کارکنوں اور عہدیداروں کو نظر بند کیا تو یہ حکمرانوں کی سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا۔ جبکہ دوسرے ”انقلابی لیڈر“ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ بہت جلد جابر، ظالم اور 18 کروڑ عوام کے معاشی قاتل حکمران انقلاب کے بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوںگے، میں ظلم کے اقتدار اور ظالمانہ فرسودہ نظام کے خاتمے اور حکمرانوں کا احتساب کرنے آیا ہوں۔ انقلاب کے بغیر اس ملک سے جانے والا نہیں ہوں۔ طاہر القادری نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ان کے حامیوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور گرفتاریوں کا عمل نہیں رکتا تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ وہ عوام کو ملکی اور صوبائی دارالحکومتوں کی طرف مارچ کرنے کی حتمی اپیل کر دیں، تاکہ موجودہ حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔ ان دو” انقلابیوں“ کے ”انقلاب“ میں مسلم لےگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسےن اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی پیش پیش ہیں۔ چودھری شجاعت کہہ چکے ہیں کہ انقلاب سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ حکومت جو کام کر رہی ہے، اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔ لانگ ےا آزادی مارچ سے فوج آئے گی تو اسے کوئی نہیں روکے گا، ہم حمایت کا فیصلہ حالات دیکھ کر کریں گے، فوج ملک کی ”چوکےدار“ ہے۔ جبکہ شیخ رشید بھی کچھ روز قبل حکومت کے جانے کی ”خوشخبری“ سنا چکے ہیں، ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت سے نجات کے لیے عمران خان اور طاہر القادری کو متحد ہونا ہوگا۔ آزادی اور انقلاب مارچ کے خلاف قومی سلامتی کانفرنس بلانا انتہائی غیر ذمے دارانہ بات ہے۔ ان حالات میں اب ایک طرف تو ڈاکٹر طاہر القادری ”انقلاب“ لائے بغیر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، جبکہ دوسری جانب عمران خان بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکمران جماعت ن لیگ کی طرف سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے موقف میں لچک لانے کے لیے تمام کوششیں بے سود رہی ہیں۔ اس بارے میں سیاسی حلقوں کاکہنا ہے کہ دراصل حکومت نے اپنی ناقص حکمت عملی اور فیصلوں میں تاخیر کے باعث عمران خان کو اس مقام پر پہنچا دیا، جہاں سے ان کے لیے لانگ مارچ کا فیصلہ واپس لینا ممکن نہیں رہا، کیونکہ اس وقت عمران خان پوائنٹ آف نو ریٹرن پر آ پہنچے ہیں۔ اب اگر تحریک انصاف کے سربراہ لانگ مارچ کا فیصلہ واپس لیتے ہیں تو اس کی انہیں بڑی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

موجودہ حالات میں حکومت انتہائی بوکھلاہٹ کی شکار نظر آرہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ بعض سنیئر تجزیہ کاروں کے مطابق طاہرالقادری اور عمران خان کا جو کردار اس وقت ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح فوج اس معاملے میں ملوث ہو جائے۔ براہ راست نہیں، بلکہ وہ پس پردہ طنابیں کھینچتے رہیں۔ غالباً وہ لوگ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت جارہی ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی لمبا سا نگران دور آئے، جس میں ٹیکنوکریٹ انتخابی نظام کو ٹھیک کریں اور پھر انتخابات ہوں، لیکن اس نظام کی اپنی پیچیدگی ہے۔ عمران خان 14 اگست کو جن قوتوں کو کھولنے جارہے ہیں وہ ضروری نہیں ان کے قابو میں رہیں۔ 1977 میں پی این اے کی تحریک میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ تحریک تو بھٹو صاحب کو ہٹانے کے لیے تھی، لیکن پھر ضیا الحق آگئے، جو 11 سال حکمران رہے۔ جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے بھی اسی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ تیسرا فریق آکر سب کو گھر بھیج دے، بہتر ہے کہ ہم اپنی ضد اور انا کو چھوڑ کر ملک و ملت کے مفاد میں مثبت فیصلے کریں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ (ن) لیگ نے پہلے تو عمران خان کے مطالبات اور احتجاج کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، لیکن معاملات بہت آگے جا چکے ہیں اور حکومت واضح طور پر دباؤ کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ لہٰذا اب حکومت کی جانب سے آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔

ایک طرف حکومت نے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے طویل سیاسی رابطے شروع کیے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پشتونخوا میپ کے محمود خان اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاﺅ، جماعت اسلامی کے سراج الحق، مسلم لیگ (ضیائ) کے محمد اعجاز الحق، جمعیت اہل حدیث کے سینیٹر ساجد میر، فاٹا کے ایم این اے غازی گلاب جمال سے ملاقاتیں کرچکے ہیں اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سمیت کئی رہنماﺅں سے بھی ٹیلیفون پر اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کا وفد بھی وزیراعظم سے ملاقات کرچکا ہے۔ آصف علی زرداری نے بھی ملکی سیاسی حالات کو نارمل کرنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلیفون پر بات چیت کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے رابطے کیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی ٹمپریچر کے نقطہ ابال پر پہنچنے سے پہلے پانی چھڑکنے کے لیے اہم سیاسی جماعتوں اور رہنماﺅں کی کوششیں امید افزا اور قابل قدر ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بہت سی مثبت باتیں سامنے آئی ہیں۔ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے وفود نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد ا ±نھیں اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں سے باز رہنے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا مشورہ دیا ہے۔ جبکہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کسی نے جمہوریت کے خلاف قدم اٹھایا تو اس کا نام بھی آمروں کی فہرست میں تصور کیا جائے گا، حکومت کو سیاسی لڑائی بھی لڑنا نہیں آتی، 14 اگست آئی نہیں اور پکڑدکھڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سراج الحق کا کہنا تھا کہ 14 اگست کے بعد کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے، ماضی میں بھی ہم نے ایسا ہی دیکھا ہے۔ تمام جمہوری قوتیں تماشائی بننے کی بجائے آگے بڑھ کر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس لمحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ ثالثی کے لیے پھر سعودی سفارت خانے کی طرف دیکھیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس بھی طلب کر لی ہے، وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہونے والی قومی سلامتی کانفرنس میں چاروں وزرائے اعلیٰ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وفاقی کابینہ کے اہم وزراءاور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام شریک ہوں گے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو بھی دعوت دی گئی ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق وجودہ حالات کے پیش نظر قومی سلامتی کانفرنس سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستانِ تحریکِ انصاف کے ”آزادی مارچ“ کے پیشِ نظر اسلام آباد پولیس کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ اسلام آباد میں دفعہ 144 کے نفاذ میں دو ماہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے، ریڈ زون سمیت شہر بھر ہر قسم کے جلسے جلوس کرنے، ہر قسم کے اسلحے کی نمائش اور پانچ یا پانچ سے زاید افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہوگی۔ جبکہ اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد داخل ہونے کی صورت میں عوامی تحریک کے قائدین اور کارکنوں کی گرفتاری سمیت تمام وسائل استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ عوامی تحریک کے قائد اپنی تقریروں میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ عوامی تحریک نے پاکستان کے آئین اور جمہوریت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، پولیس ذرائع کے مطابق آئین کو نہ ماننے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ 10 اگست کوریڈ زون سیل کر دیا جائے گا۔ 900 کنٹینرز اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچا دیے گئے، جبکہ 13 اور 14 اگست کو ریڈ زون کی سیکورٹی فوج کے حوالے ہو گی۔ جبکہ جمعہ کے روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد نے 14 اگست کو پاکستان تحریکِ انصاف کے اعلان کردہ آزادی مارچ کو روکنے کے لیے دی گئی درخواست کی سماعت کے لیے تین رکنی فل بینچ تشکیل دے دیا۔ امکان ہے کہ یہ بینچ اگلے ہفتے کے آغاز میں اس کیس کی سماعت کرے گا۔ چند روز قبل لاہور کے ایک شہری کامران نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ 14 اگست کوتحریک انصاف کے اسلام آباد کی جانب روانہ ہونے والے مارچ کو روکا جائے، کیونکہ یوم آزادی پر اس طرح کے مارچ سے نقضِ امن کا خطرہ ہے۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ ایسا مارچ ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات ملک کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں ہیں، ملک پہلے ہی بہت سے بحرانوں میں بری طرح سے پھنسا ہوا ہے، اس کو مزید بحرانوں کی جانب دھکیلنا ملک کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوگا، اگر فریقین نے بالغ نظری کا مظاہرہ نہ کیا تو کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہ کرے، کیونکہ اس صورت میں مزید انتشار پھیل سکتا ہے اور حکومت مخالف مارچ کرنے والوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے جمہوریت ہی ڈی ریل نہ ہوجائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 644127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.