بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر آج کے
موضوع ِسخن کی بنیاد ہے۔
ظفرآدمی اس کو نہ جانئیے گاہو وہ کیسا ہی صاحب فہم و ذکاء
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہے،جسے طیش میں خوف خدا نہ رہے
آج پاکستان جن پریشان کن حالات سے دوچار ہے ۔ماضی میں قومی اتحاد کی
کامیابی سے پہلے اتنی پریشانی اور بے یقینی کبھی نہ تھی ۔صاحب ِ عقل و خرد
ایسے کہ جو خبر اخبار پر دھیان دیتے ہیں اور اپنے اس خطۂ پاک کے تمام سیاسی
عمائدین کے نعروں ،بیانات اور پھر کا میاب ہو کر برسر اقتدار یا اپوزیشن
لیڈر ز قرار پاتے ہیں ان تمام کی ذاتی زندگیوں ،ذاتی کارناموں اور فرائض
منصبی کی ادائیگیوں کے سلسلہ میں تمام معلومات کو یکجا کیا جائے تو پتہ
چلتا ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست منافقت یا عنانیت کی بنیادپر قائم ہو چکی ہے
۔کامیاب ہو کر وہ عہدے داران جنھوں نے قانون اور انصاف قائم کر کے عوام کی
خدمت کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ہر قسم کی لاقانونیت اور امتیازی سلوک ختم
کر کے خود کو بہترین خادم ثابت کرنا تھا ۔اسی کی کامیابی کی خوشی میں
فائرنگ اور ہر طرح کے اللّے تلّلے اس لیڈر کے مستقبل کے عزائم کی خبر دیتے
ہیں ۔اور سمجھدار جان جاتے ہیں کہ اگر ابتدا یہ ہے تو انتہا کیا ہوگی ۔اور
اس لیڈر کی اگلی تگ و دو کسی بھی شکل میں اقتدار کے ایوانوں کے سہارے دلکش
اور نفع بخش عہدے داریاں حاصل کرنا اور اپنے مقام کو مضبوط کرنے میں صرف ہو
جاتی ہے۔یہ وہ تصویر ہے جو تقریبا ًمہم جوئی کر کے کامیاب ہونے والے ہر
امیدوار کی ہے ۔تھوڑے ردوبدل کے ساتھ اس حمام میں سبھی ننگے ہوتے ہیں ۔حالیہ
انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن کی نمایاں کامیابی سامنے آئی جبکہ اپنے
اپنے حلقۂ انتخاب میں ہر امیدوار اپنی اپنی شخصیت ،طاقت اور اثرورسوخ کے
ذریعے ہر ممکن اقدام کر کے کامیابی کی کاوش کرتا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت
ہے کہ اس سے انکار ایسا ہی ہے کہ جیسے روز روشن کو اندھیری رات کہہ دیا
جائے ۔اور یہ اس کے مصداق ہے۔ وہ بڑا فنکار ٹھہرا ،جس کو موقع مل گیا ۔۔۔۔۔ورنہ
دنیا میں کوئی بے ہنر آتا نہیں ۔
قصۂ مختصر یہ تو تصویر ہے انتخابات کے انعقاد اور نتائج کے حصول تک کی مگر
مابعد اس کے جب پھر ایسا ہوا کہ مسلم لیگ ن اقتدار میں آگئی تو اس کے بانی
اور مرکزی لیڈر میاں نواز شریف نے کچھ یوں کیا کہ پورے ملک میں ان کو ووٹ
دیکر وزیراعظم بنانے والے ممبران قومی اسمبلی ان کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے
اور انھوں نے منصوبہ بندی کچھ ایسی کی کہ کلیدی عہدے اپنے ہی ہم پیالہ و
نوالہ بھائی بندوں اور اہل خانہ میں بانٹ لئے ۔اور پنجاب میں ویسے ہی صدارت
اعلیٰ ان کے بھائی کے پاس رہی ۔جبکہ رہی سہی کسر یوں نکال لی گئی کہ پنجاب
میں بھی تمام اعلیٰ عہدے اور وزارتیں ایسی ہی منصوبہ بندی سے وجود آئیں کہ
دوتین خاندان ہی نوازے جا سکے ۔پھر ان خاندانوں نے ہر ڈویژن ،ضلع ،شہر اور
ٹاؤن کمیٹیوں میں ہر طرح کا میرٹ توڑتے ہوئے اپنے اپنے آدمی محکموں پر مقرر
کر لئے ۔
اور آج حالات یہ ہیں کہ ایک زمیندار کسی پٹواری کے پاس جائے تو وہ دیکھے گا
کہ اول تو پٹواری اپنے دفتر میں ہی موجود نہیں ہے ،اس نے اپنے دفتر کے قریب
ہی کوئی گھر یا دیگر جگہ وقتی طور پر لیکر اسے جائے پناہ بنا رکھا ہے ۔اور
ہر پٹوار خانہ میں اس پٹواری کے تین چار تائیبین سرکاری کاغذات اور
زمینداروں کی زمینوں کے اہم ریکارڈ سے کھیل رہے ہیں ۔اصلی یا جعلی فردیں
دینا،گردواری کے لیے خانے خالی چھوڑے رکھنا کہ جو مال و متاع دے گا گردواری
کروا لے گا اور اسی طرح تمام امور دلالوں ،ٹاؤٹوں اور رابطہ کاروں کے
اشاروں پر ہوتے ہیں اور جو کوئی اس طرح کا اہلکار رشوت لے لیتا ہے تو وہ
کچھ ایسا فرض شناس اور ایماندار لگتا ہے کہ دل خوش ہو جاتا ہے ۔اور جو کہتا
ہے کہ رشوت نہیں لیتا مگر وہ کام جو چند ہزاروں میں ہوتا ہے وہ چکر لگا لگا
کر یوں ذاتی کاروباری یا دیگر مصروفیات چھوڑ کر ہوتا ہے کہ وہ کئی ہزاروں
تک پہنچ جاتا ہے ۔اور جو بد سلوکی یہ رشوت نہ لینے والا کرتا ہے اس کے بیان
کے لیے اس وقت ذہن میں ساغر صدیقی کا یہ مصرعہ آجاتا ہے کہ ’’جانے کس جرم
کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘‘ ۔
یہ تو ایسے حالات ہیں کہ جو عنانیت ،مفادات اور لوٹ مار پر مبنی ذاتی پسند
کے اہلکاران اور افسران لگانے کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں ۔مگر اس دور
میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہر اس کو انتقامی
نشانہ بنانے کی کوشش کی کہ جس سے ان کو ااتفاق نہ ہوا ۔وہ لیڈران جو اپنے
اپنے علاقے میں بڑے شریف جانے جاتے ہیں انھوں نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس
کو استعمال کر تے ہوئے عدالتوں کے حکم امتناعی تک کے عوامی تحفظ کی بھی
دھجیاں اڑا دیں ۔اور مقامی عدالتوں پر اثر انداز ہو کر محکمہ اوقاف جیسے
محکموں میں من مانیاں کیں ۔انکے حقداروں اور جائز کرایہ داران کو ایسے ہی
طریقوں سے بے دخل کیا اور اپنی خواہش کے مطابق اوقاف کے جانبداروں کے
استعمال کا راستہ اختیار کیا ۔اسی طرح بے شمار ایسے واقعات ہیں کہ ناگفتہ
بہ ہیں ۔مختصر یہ کہ عنانیت کے انداز میں اپنی خواہشات کی تکمیل میں لگے
رہے ۔حتی کہ غیر ملکی ایجنسیوں کے جال میں ایسے پھنسے کہ وہ کرنا پڑا کہ جس
کی شاید ضرورت نہ پڑتی ۔غیر ملکی ایجنسیوں نے دھاندلی اور وارداتوں کے لیے
بے ضمیر اور لالچی لوگوں کو خریدا اور اپنے مذموم مقاصد میں استعمال کیا
اور پھر خود ہر وہ ذمہ داریاں بھی قبول کرتے رہے ایسے اقدام دہشت گردی کو
دیکھ کرپھر مذہبی جنون رکھنے والے بنیاد پرست لوگوں کو ایسی شہہ ملی کہ وہ
بھی اس میں ہاتھ رنگنے لگے اور بالآخر پاک افواج کو سارے کام چھوڑ کر فوجی
آپریشن کرنا پڑا ۔اس فوجی آپریشن کی ابتدا ،تکمیل اور بے گھر افراد کی
بحالی اور روزگار کی فراہمی سمیت یہ سب ایسے گھمبیر معاملات ہیں کہ اس کا
نقشہ اگر دیکھنا ہو تو 1947 کے بے گھر اور بے روزگار لوگوں کی زند گیوں کا
مطالعہ کریں ۔جن میں ابھی تک کچھ خاندان ایسے ہیں جو بے گھر اور بے روزگار
ہیں اور وہ کہ جن میں اکثر و بیشتر انتہائی خوش حال اور صاحب جائیداد تھے
وہ آج انتہائی بد حال اور بے جائیداد ہیں جبکہ اس وقت بھی ہوشیار لوگوں نے
جھوٹ موٹ سے جھوٹے بیان حلفی اور گواہیاں ڈال کر خود کو بڑے فیکٹری مالک
،بڑے بڑے زمیندار اور بڑے بڑے ۔۔۔۔بنا لیا ۔مگر اس وقت بھی سادہ لوح اور
سیدے سادھے لوگ جب پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تو کچھ ایسے کہ ان کے
گھرانے کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ۔جبکہ کچھ ایسے کہ جن کا نصف خاندان کاٹ
دیا گیا اور کچھ ایسے کہ راستہ میں آتے ہوئے لوٹ مار کا شکار ہوئے اور پھر
یہاں آکر سر اٹھا کر کبھی نہ جی سکے ۔ان کی نسلیں آج بھی اس ملک میں آکر
بھی قانون کے نفاذ اور انصاف کو ترس رہی ہیں ۔آج عدالتوں کے اہلکاران ،ریڈر
اور اہل زر پیسے لیے بغیر سیدھے منہ بات نہیں کرتے ۔فریقین مقدمہ کو آئندہ
پیشی نہیں بتاتے ۔یہ سب حالات ایسے ہیں جن کو پڑھ کر جان کر ایک دانشور
کانپ جاتا ہے ۔کہ ان شمالی وزیرستان کے بے گھر اور بے روزگار ہو جانے والے
پاکستانیوں کا کیا حشر ہوگا ؟کیونکہ حکومتیں تو آنی جاتی رہتی ہیں ہر حکومت
کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔انکی منصوبہ بندیاں ایسی بھی تو ہوتی ہیں کہ
بہتر وزارت پر وزراء ہی مقرر نہ ہوں ہر محکمہ پر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ہوں
نہ نہ بنائے جائیں اور اس طرح جب ہر متعلقہ محکمہ کے لیے کوئی دیگر اپنے
ہاتھ کا بندہ نواز دیا گیا ہو تو اسے عوامی مینڈیٹ اور عوامی فلاح کی فکر
کیا ہوگی کیونکہ وہ تو اقربا پروری کرے گا یا من مفادات کے حصول کے لیے
مقرر کیا گیا اس کے اہداف ہی پورے کرے گا ۔بہر حال ہمارا ملک پاکستان جو کہ
اﷲ تعالیٰ کی تمام نعمتوں سے اور قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے اور آج اس
ملک میں قومی خزانے کی آمدن بھی ماضی کی نسبت بے حد زیادہ ہے ۔مگر اس
اختیارات کے حصول اور عیش کے زمانہ میں برسر اقتدار قائدین کو خدا بھی یاد
نہ رہا ہے ۔
اپنی ذات پر کتنا زیادہ خرچ کیا جارہا ہے ۔من مانیوں میں قومی خزانہ لوٹایا
جا رہا ہے ۔اپنے سیاسی وجود کی بقا کے لیے میڈیا یا شہری مہموں پر عوام کے
خون پسینے کی کمائی لگائی جا رہی ہے ۔اپنے کارکنوں اور گلوبٹ جیسے کرداروں
پر بے دریغ سرمایہ کاری کی جارہی ہے ۔اور مظلوموں کو سر عام نشانہ بنایا جا
رہا ہے جبکہ جس نے ایک جان ختم کیا وہ روز محشر کیسے حساب دے گا ۔اس کی
کوئی فکر نہیں حالات یہ ہیں کہ نہ اس عیش و عشرت میں خدا یاد رہا نہ اپنے
طیش میں خوف خدا رہا ۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں صرف اور صرف حصول اقتدار کے لیے اور برسر اقتدار
لوگوں کے لیے عنانیت پر مبنی ڈائیلاگ اور کاروائیوں کی بنیاد پر ایسی
منافقت سے کام لے رکھے ہیں کہ ایک سادہ انسان کانپ جاتا ہے ۔کچھ تو بالکل
ننگے ہو کر سر عام کھلے بازاروں میں عمران خان کی طرح آوازہ بلندکر چکے ہیں
۔مولانا قادری کی طرح یقینی طور پر حسب حال حالات کے انتظار میں ہیں اور
کچھ ایسے ہیں کہ جو یا تو ساتھ لگے رہے یا ساتھ لگے ہوئے ہیں مگر ان فصلی
بٹیروں اور کاریگر سیاستدانوں کا کچھ پتہ نہیں کہ کسی بھی طرف سے کوئی بہتر
آفر کی وجہ سے ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ہمارے ملک کوایسے ہی منافق اور
عیار سیاستدانوں کی منافقت نے چاٹ لیا ہے اور اس کی وجہ سے ملک امن عامہ
،قانون کی بالا دستی اور انصاف کی جلداور حقیقی فراہمی سے محروم ہے ۔جس کی
وجہ سے ہر سطح اور ہر معاملہ میں امتیاز ی سلوک اور حوصلہ شکن حالات عام
ہیں ۔
آج پاکستان کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرح
کھل کر میدان میں ہیں اور صاف نظر آرہا ہے کہ تختۂ اقتدار بچانے اور یا پھر
اسے اٹھانے کے لیے بہر حال چال ،اقدام اور قربانی دینے کا پختہ عزم نظر
آرہا ہے ۔اگر دیگر چھوٹی یا بڑی سیاسی جماعتیں بھی منافقت کی سیاست چھوڑ کر
موقع شناس اور بد نیت منصوبہ سازوں کی فہرست سے نکل کر سامنے آجائیں تو اس
سے پاکستان کی پولیس ،انتظامیہ اور افواج کا امتحان یکسو ختم ہو جائے گا
۔اگر یہ کہاجائے کہ ان تمام برے حالات کی وجہ سیاستدانوں کی منافقت اور
برسر اقتدار لوگوں کی عنانیت ہے تو غلط نہ ہوگا ۔بر سر اقتدار افراد میں
حوصلہ ،برداشت اور درگزر کا رویہ نہ ہو تو ان کا دور اقتدار بہت طویل نہیں
ہوتا ۔اگر کسی نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا تو سلاطین کی تاریخ کا مطالعہ کرے
یاوہ خود کو اپنے لائق کسی سلطان سے ملا کردیکھ لے اور پھر اس کا انجام پڑھ
لے ۔آج بھی اگر اس سیاسی افراتفری کا حل ہے تو صرف افہام و تفہیم میں ہے
بلکہ پیارے ملک کے تمام حالات ایسے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل افہام و تفہیم
میں ہونا چاہیئے ،طرزِ شہنشایت ترک کر کے اپنے ساتھیوں اور ہم پلہ
سیاستدانوں کے ساتھ قربت ،رواداری اور صلاح مشورہ کا انداز ہی خادم کہلانے
لائق ہوتا ہے ۔
اس ملک میں سعودی فرمانروا جیسی زندگی اپنانے والے ہر لیڈر کو بالآخر شدید
بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔وگرنہ تو حالات یہی ہیں کہ
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا |