"پاکستانی سیاست "ہلہ بول

دو لفظوں کے مجموعے ”ہلہ بول “عام فہم زبان میں حملہ کرنے کے معنوں استعمال کیا جاتا اور اسکے معنی "طوفان" کے بھی ہوتے ہیں۔ "ہلہ بول" کو عام طور پر خبروں میں بھی استمال کیا جاتا ہے، جیسے "لاہور میں شادی کی تقریب پر پولیس نے ہلہ بول دیا" یا "دہشت گردوں نےکراچی ایئر پورٹ پر ہلہ بول دیا"۔ بھارت میں ایک فلم ”ہلہ بول“ بنائی گئی، جسکے ڈاریکٹر کا کہنا تھا کہ اُسکا فلم "ہلہ بول" بنانے کا مقصد عوام کواُن واقعات سے روشناس کرانا ہےجو اُنکے اطراف میں رونما ہوتے ہیں۔فلم میں ایسی ڈرامائی کہانی ہے جس میں آج کے دور میں عوام کے اُن مسائل کی عکاسی کی گئی جن کی فکر دوسرے افراد کو نہیں ہوتی ۔

پاکستان میں آجکل "ہلہ بول" کی سیاست عروج پر ہے، پاکستان تحریک انصاف کے مطابق مئی 2013ء کے انتخابات میں بڑئے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ، لہذا شروع میں صرف چار حلقوں کو چیک کرنےکی بات ہوئی لیکن جب یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا تورمضان سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک عوامی جلسہ میں حکومت پر ہلہ بولا اور14 اگست کو اسلام آباد میں 10 لاکھ لوگوں کے ہمرا سونامی مارچ کا اعلان کیا، بعد میں اسکا نام آزادی مارچ ہوگیا۔ پہلے عمران خان صرف چار حلقوں کی بات کررہے تھے، اب وہ نئے الیکشن اور وزیراعظم کے استعفی تک چلے گئے ہیں۔ بظاہرعمران خان ساری سیاسی حدیں پار کرگئے ہیں، اگر وہ اپنےآزادی مارچ میں کامیاب نہ ہوئے تو اسکا سیدھا سیدھانتیجہ اُنکی سیاست سے بیدخلی کی صورت میں آئے گا۔عمران خان جوشدت سے طالبان کی حمایت کرنے کی وجہ سے طالبان خان تک کہلائے ہمیشہ طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے رہے ہیں لیکن اس بات پر حیرت ہے کہ وہ نواز شریف حکومت سے مذاکرات کرنے کو قطعی تیار نہیں ہیں، حالانکہ نواز شریف بھی طالبان کے کبھی مخالف نہیں رہے ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے بقول پاکستان کے آئین پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا ہے جسکی وجہ سے عوام اپنے حقوق سے محروم ہیں لہذا ایک عوامی انقلاب لایا جائے۔ وہ دس نکاتی ایجنڈئے کے ساتھ انقلاب کا نعرہ لگاکرہلہ بول چکے ہیں، اب انکا دعوی ہے نواز اور شہباز دونوں کی حکومتیں یکم ستمبر سے پہلے ختم ہوجائے گی، جبکہ خیبر پختون خوا، بلوچستان اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کےلیے کچھ نہیں فرمایا۔ علامہ طاہرالقادری کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے مئی 2013ء کے انتخابات میں یہ کہکر حصہ لینے سے انکار کردیا کہ اُنہیں الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اعتراض ہے۔ اس سے پہلے علامہ طاہر القادری نے 23دسمبر 2012ءکو مینار پاکستان میں منعقد ہونے والا سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا جلسہ اور اس کے بعد13 جنوری 2013ء کو لاہورسے شروع ہونے والا لانگ مارچ اور4 دن کا اسلام آباد میں دھرناکے شرکاء کے نظم وضبط کی مثال ملکی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، اس بحث سے قطع نظر کہ سیاسی حوالے سے علامہ طاہرالقادری اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن نے کیا کھویا کیا پایا ایک نتیجہ جو سامنے آیا وہ انتہائی قابل تعریف ہے ان ہردومواقع پر شرکاء میں انتہائی نظم وضبط پایا گیا لاہور کے جلسے میں جس میں ہزاروں خواتین و حضرات کی بچوں سمیت شرکت کے دوران کوئی بھی قابل مذمت واقع سامنے نہ آیا اور نہ ہی لاہور سے تین سو کلومیٹر کا طویل سفر طے کرکے اسلام آباد پہنچنے والے قافلے کا راستہ میں کسی بھی قسم کی قانون شکنی کا کوئی ثبوت ملا۔ ایک وقت کے کھانے پر لڑنے والے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے برعکس جو صبر وتحمل اسلام آباد میں دھرناکے شرکاء میں دیکھنے میں آیا اس نے بیرونی دنیا کو ایک واضع پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ایک مہذب اور صبرو برداشت کی حامل ہے۔

جون 2014ءمیں دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے پروگرام کا اعلان کیا، پاکستان تحریک انصاف نے 14 اگست کو آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا، جبکہ علامہ طاہر القادری نے ابھی تک انقلاب کی تاریخ تو نہیں دی، لیکن ماڈل ٹاون ، لاہور کے سانحے میں شہید ہونے والوں کےلیے 10 اگست کو قران خوانی کا اعلان کیا۔ دونوں جماعتوں کے پروگرام سے آپ اور میں سیاسی اختلاف ضرور کرسکتے ہیں لیکن ہم میں سے کوئی بھی دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ یا کارکنوں پریہ الزام نہیں لگا سکتے کہ وہ غیر قانونی حرکات ، توڑ پھوڑ یا عوام کو تنگ کرنے میں ملوث ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سارئے الزامات حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نےاپنے ذمہ لےلیے ہیں۔ علامہ طاہر القادری کی کنیڈا سے پاکستان آمد سے قبل ہی سترہ جون کو لاہور میں منہاج القرآن کے کارکنوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہ صرف باعث افسوس ہے بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا۔منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر پولیس حملہ اور ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں لاہور میں جو 14 افراد جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں زندگی کی بازی ہار گئےاُن کی موت کی زمیداری کسی عام پولیس والے یا کسی ایس ایچ او پرنہیں ڈالی جاسکتی ہے، سیدھی سی بات ہے کہ ان اموات اور 90 زخمی افراد کے علاوہ املاک کی بربادی کےذمیدارانقلابی شاعر حبیب جالب کے اشعار پڑھنے والےصوبہ کے سربراہ نام نہاد انقلابی شہباز شریف ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عمران خان کے 14 اگست کے پروگرام اور علامہ طاہر القادری کے انقلاب کے پروگرام کو سنجیدگی سے لیتی کسی بھی حکومتی سطع پر اسکا نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہر اہم موقعہ سے غائب ہوجانے والے وزیر داخلہ چوہدری نثار اس اہم موقعہ پر بھی وزیر اعظم سے کسی اور معاملے پرروٹھ کر گھر بیٹھ گے، ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان کے وزیر داخلہ نہیں بلکہ اتفاق فاونڈری کا سیکورٹی گارڈ ہیں۔ وزیراعظم کی غیر ذمیداری کا یہ حال ہے کہ ایک طرف ملک سیاسی ہلچل سے دوچار ہے، جبکہ دوسری طرف ہماری فوجیں عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں اور لاکھوں لوگ شمالی وزیرستان میں اپنے گھروں سے بےگھر ہیں اور انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، وزیراعظم پندرہ روز تک اسلام آباد میں موجود ہی نہیں تھے۔نواز شریف نے دس روز سعودی عرب میں اور باقی لاہور اور مری میں گذاردیے۔ وزیراعظم کی 30 رکنی کابینہ میں اُنکے ساتھ کافی خوشامدی بھی موجود ہیں، پرویز رشید، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، عابدشیر علی اور پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود اپنی اپنی وزارت میں تو کچھ کرنہیں پائے، البتہ روز صبح سے رات تک عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خلاف بیان دیتے رہتے ہیں۔ ان خوشامدیوں نے شاید نواز شریف کو یہ باور کرادیا تھا کہ آپکو تو عوام نے پانچ سال کےلیے منتخب کیا ہے ، اس لیے آپ کسی آزادی مارچ یا کسی انقلاب کی پرواہ نہ کریں۔

وزیراعظم نواز شریف کو اب یہ احساس ہوا کہ پانی سر سے اوپر چلا گیا ہے، لہذااب وہ سیاسی ملاقاتیں بھی کررہے ہیں اور ساتھ ہی سیاسی فریادیں بھی کر رہے ہیں، لیکن شاید نااہلی کی اس سے بڑی مثال نہ ہوگی جو کچھ وہ اور پنجاب حکومت لاہور اور اسلام آباد میں کررہے ہیں۔ پورئے پنجاب میں پیٹرول کا حصول ناممکن بنادیا گیا ہے، عام لوگوں کو انکی ذاتی موٹر سایکل سے محروم کردیا، ہزاروں موٹر سایکلیں تھانوں میں بند کردی گی ہیں جو بعد میں پولیس کو رشوت دیئے بغیر نہیں ملینگی۔ عام لوگوں کی نقل و حرکت ناممکن بنادی گئی ہے، مختلف شہروں سے لاہور یا اسلام آباد کی طرف سفر کرنے والوں پر تشدد کیا جارہا جسکی وجہ سے آج منہاج القران کے ایک ورکر کی موت ہوئی ہے۔اس وجہ سے ہی علامہ طاہر القادری نے نواز شریف اور شہباز شریف کو داخلی دہشت گرد کا خطاب دیا ہے۔ پاکستان کا دارلخلافہ اسلام آباد، تقریبا پندرہ لاکھ کی آبادی کا شہر پاکستان کی یوم آزادی پر قید ہوگا، 14 اگست کواس شہر میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، بجلی کا بحران تو پہلے سے ہی موجود ہے، موبائل سروس بند کرکے رابطے کا بحران بھی پیدا کیا جائے گا۔

بہت ہی ذمیدار وزیراعظم صاحب پندرہ روز آپ اسلام آباد سے غائب رہے، آپنے پرواہ ہی نہیں کی کہ ملک کس طرف جارہا ہے۔ عمران خان اورعلامہ طاہر القادری جو کچھ کررہے ہیں ہوسکتا ہے وہ غلط ہو، لیکن اگر آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ عوام نے آپکو پانچ سال کےلیے حکمراں بنایا ہےتو عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمیداری بھی آپکی ہے۔ آج آپ لاہور کے ماڈل ٹاون اور اسلام آباد میں کنٹینر سے راستے بند کرکے مسلئہ کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، افسوس یہ مسلئے کا حل نہیں، ہاں اسلام آباد اور لاہور کے عوام کو پریشان کرنے اور اُن میں خوف کو بڑھانے کا زریعہ ضرور ہے، جناب وزیراعظم صاحب اُس وقت سے آپ بھی ڈریں جب عام لوگ آپکی حکومت پر ہلہ بولیں، بہتر ہوگا مسلئہ کا حل تلاش کریں۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 468909 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More