مجلس تاثیر (حصہ دوم)

صائمہ صبح سے شام تک پھر صبح سے شام تک اپنے امی ابو کی نہ ختم ہونے والی بحث سنتی رہتی یہ بحث تب ہی کچھ دیر کے لیے رکتی جب ابے کو کھانسی شروع ہو جاتی ،وہ اکثر سوچتی ہم تین ہی تو افراد ہیں اور ہماری رات بھر کی باتیں صبح گلی محلے کے بچے ایک دوسرے کو یوُں سناتے ہیں جیسے دیومالا کی کہانی سنائی جاتی ہے ،محلے میں سرشام ہی سناٹا چھا جاتا ہے کسی کی آواز نہیں آتی آے بھی تو صرف بابو خالد کی اتنی ساری آواز آتی ہے جو اپنے بچوں کو صرف اتنا ہی کہتا ہے او چُپ! اچھا شریف شخص ہے جو نہ خود بولتا ہے نہ بچوں کو بولنے دیتا ہے ، کتنی شانتی ہے لوگوں کے گھروں میں ہمارا تو اپنا گھر ہی نہیں پھر بھی شور سب سے زیادہ ہمارا ہی ہوتا ہے ، کبھی ابا اماں کچھ دیر کے لیے چُپ ہو جاتے ہیں تو نہ جانے گدھے کو کیا سوجتی ہے کہ پُھر پُھر شروع کر دیتا ہے ،صائمہ یوُں ہی سوچتے سوچتے نیند کی آغوش میں چلی جاتی اور نیند تبھی ٹوٹتی جب ابے کو کھانسی شروع ہو جاتی-

انسان پیٹ کی خاطر کیا کیا جتن نہیں کرتا سردی گرمی دھوپ چھاؤں کی پروا کیے بغیر پاؤں سر پر رکھ کر بھاگ رہا ہے ،ہوس اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ صبح کی کھا کر دوپہر اور پھر شام کی سوچنا شروع کر دیتا ہے دیکھا جائے تو یہ ہوس تقویٰ کی کمزوری سے ہے ، اگر پروندں کو دیکھا جائے تو اپنا تقویٰ کچھ بھی نہیں لگتا ،پرندے کبھی بھی اپنا رزق ذخیرہ نہیں کرتے اور کبھی بھوکھے نہیں مرتے ،انسان ذخیرہ کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی ذخیرہ نہیں کر پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تقوٰٰی پرندوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ،کاش جس طرح ہم اشرف تھے اس طرح ہمارا تقویٰ بھی افضل ہوتا۔

اماں یہ تقویٰ کیا ہوتا ہے ؟( صائمہ جو کافی دیر سے امام مسجد کا درس سُن رہی تھی جو وہ صبح کی نماز کے بعد سپیکر آن کر کے نمازیوں اور بے نمازیوں کو سُنا رہے تھے اپنی ماں سے تقویٰ کا مطلب جاننے لگی )پیو سے پُوچھ لے ،میرے سے کس لیے پُوچھ لے یہ مولبیوں (مولویوں) کی باتیں ۔ ابا پھر میں کس سے پُوچھوں ، مر جانی تیرے ابے نوں تیرے دادے نے اک کھوت دیا تھا کہ جُونے اس پر پھانڈے رکھ کر پھیری لگا لیا کر ، میرے کو کتاواں نہیں دی تھی ، ابا اماں کو وی پتہ نہیں ، ہاں ۔۔۔۔اس کو کیا کیا پتا ہوؤے وہ تو بلکل میرے کھوت کی نکی بہن ہے ، اب یوُں نہ کہیں ،وہ کیوں ؟پھر آپ کی لڑائی شروع ہو جاے گی ، ناں ناں تُو چنتا نہ کر میری لڑائی نہیں ہو گی ،میرے کو تیرے دادا نے پہلے دن ہی بتا دیا تھا کہ کھوت تو تنگ نہیں کرے گا پر اس کے ویڈے بھرا (بڑے بھائی)کو بولن کا جیادہ ہی چاء ہے اس لئی جرا صبر کرنا ہوؤے گا۔ اے بدتمیج (بدتمیز) میرے کو کھوت کا بھرا کہہ دیا ، کیا کروں شریعت کا کھیال ہے سیدے مونہہ تو کھوت کہہ دینا مناسب نہیں ، پریں مر ویڈیاں شریعتاں والیے۔ آپ لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے خدا لئی ایسا نہ کیا کریں ، سارے محلے والے میری مجاق بناتے رہتے ہیں ۔ اے تیرے کو محلے والے کہان سے مل جاتے ہیں ۔ ابا میں شکولے جاتی ہوں پانی لینے جوہرا(زہرہ)کے گھر دال سبجیی خریدن کو بجار جاتی ہوں ،تبھی تو سارے پُوچھتے ہیں کھوت دا بھرا کون اے، مر جانی لگدا اے تیرا شکول چھڑانا ہی پوؤے گا، وہ کیوں ابا ! ہاں نہ تو شکول جاؤے گی نہ تیرا مجاق بنے گا،سن لیا ہے ابے دا فیچلہ (فیصلہ) اپنی اواج گھٹ نہیں کرے گا تیرا شکول چھڑا لوؤ گا، نیں نیں میں شکول نہیں چھوڑوں گی ، کیوں تیرے ڈاکٹرانی یا ماسٹرانی ہونا ہے ۔ کچھ بھی ہوں گی پر شکول نہیں چھوڑوں گی ،پھر کھیال رکھنا ہمیں لوگوں کے مجاق سے نہیں ڈرانا۔

انسان غریب ہو یا امیر خیالوں کی آڑان ہمشہ اونچی ہی رہتی ہے ۔صائمہ بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہے جو گھاس پھوس کی جونپڑی میں رہ کر بھی اونچے محلوں کے خواب دیکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں نیت اگر صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے انسان پر ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے کیونکہ برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کے وڈیرے نسل در نسل وڈیرے اور مزارے نسل در نسل مزارے چلے آ رہے ہیں پڑھی لکھی فیملی میں علم چلتا ہے اور شیدے گامے کے بچے نتھو خیرا ہی بنتے ہیں ،لیکن یہ رائے بھی حتمی نہیں ہو سکتی کیونکہ ارسطو افلاطون اور بہت سارے غریب گھرانوں کے لوگ بہت کچھ کر گے ہیں ۔

صائمہ کے ماں باپ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے آ رہے ہیں اور یہ خانہ بدوشی نسل در نسل ہی چلتی آرہی ہے ،جن لوگوں کا کوئی پکا ٹھکانہ نہیں ہو تا وہ سکول بھی نہیں جا سکتے کیوں کہ سکول کے لیے بھی کسی ایک جگہ ٹھرنا پڑتا ہے ۔ صائمہ ابھی بچی ہے ابھی اُس پر خانہ بدوشی کا رنگ مکمل طور پر نہیں چڑھا اور جس محلے میں یہ لوگ رہ رہے ہیں وہاں سکولوں کی کمی نہیں ، محلے کے بچے صبح سویرے مسجد جاتے واپس آکر سکول جاتے ،صائمہ کا جو گھر ہے وہ برلب سڑک ہے اس وجہ سے سکول آتے جاتے بچوں کو صائمہ باآسانی دیکھتی ہے ۔ بچوں کے اُجلے اُجلے یونیفارم پالش کیے جوتے ،گلے میں پڑھے بستے صائمہ کی دلچسبی کا سبب بنتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی دو تین دوست بھی ہیں جو اُسے سکول جانے کا کہتی رہتی ہیں یہ دوستی کا اثر ہی ہوتا ہے کے صائمہ ایک دن اپنے والدین سے سکول جانے کا اظہار کر دیتی ہے ، صائمہ کے دوستوں میں ثناء بشریٰ مریم اور زھرا ہیں ، اب بشریٰ کے علاوہ ساری چوتھی کلاس میں ہیں ، ثناء کی ماما صائمہ کا بہت خیال رکھتی ہے ،ثناء کے یونیفارم سکول بیگ کاپیاں کتاباں لیتے ہوے صائمہ کے لیے بھی ساری چیزیں لے لیتی ہے ۔ صائمہ کو اپنے گھر سے جیب خرچ دو تین روپے ملتے ہیں لیکن ثناء اپنی ماما کی طرح اِس پر بڑی مہربان ہے اس کو کھانے کی چیزیں اپنے پاس سے لے دیتی ہے اور اس کو دو دو روپے جمع کرنے کا مشورہ دیتی ہے ۔

امی یہ چنگڑ بڑا شُور کرتے ہیں ،اور بات بات پر لڑائی بھی دونوں میاں بیوی کے درمیان ہوجاتی ہے،صفائی تو ان کے پاس سے نہیں گزری۔ بشریٰ بیٹی ایسی باتیں نہیں کرتے وہ پردیسی لوگ ہیں اُن کے رہین سہن کا طریقہ الگ ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ وہ بستی یا شہر سے دُور پڑاؤ ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کا طور طریقہ نہیں اپنا سکتے، اُن کی باتیں ہمیں لڑائی لگتی ہیں جبکہ وہ آپس میں نارمل بات چیت کر رہے ہوتے ہیں، ہماری زبان چونکہ الگ ہے اس لیے ہم اُن کا لب و لہجہ سمجھ نہیں پاتے۔ امی آپ تو اُن سے مکان کا کرایہ بھی نہیں لیتی ، اگر وہ کہیں اور رہتے تب تو وہ کرایہ دیتے۔ بشریٰ تمہارے دماغ میں یہ الٹی سیدھی باتیں کہاں سے آتی رہتی ہیں ، خالی کمرہ پڑا تھا اُن کو دے دیا تو کیا ہوا، پردیسی لوگ ہیں کب اُنہوں نے یہاں کا ہو کر رہنا ہے ، آج نہیں تو کل چلے جاہیں گے ، ہمارا کرائے کے بغیر بھی گزر تو ہو رہا ہے پھر دو تین سو سے کب ہم ساہوکار بن جاہیں گے ۔لیکن امی آپ اُن سے اتنا تو کہہ سکتی ہیں نا کہ گالی نہ دیا کریں، اچھا چلو یہ کہہ دوں گی۔

امی یہ صائمہ ہے بڑی لائق جو سبق ایک بار پڑھ لیتی ہے اُس کو ازبر ہو جاتا ہے ، جبکہ ہم سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ہاں اُس کے گھر میں ٹی وی جو نہیں ہے ہمارے گھر میں وہ جو موجود ہے، امی میں نے سبق کی باتی ہے آپ کا فلسفہ ٹی وی پر جا کر کیوں اٹکا ہے ۔ ہاں یہ فلسفہ ہی تو ہے جو تم لوگوں کو سمجھ نہیں آتا ۔ تم لوگ جتنا وقت ٹی وی پر صرف کرتی ہو اتنا ہی وقت وہ کتابوں پر لگاتی ہے پھر لائق کیوں نہ ہو۔

اماں آج تو ذمعے (جمعہ) کا دن ہے ابا سے کہا کر اس دن پھیری نہ لگایا کرے بلکہ ذمعہ پڑھ لیا کرے سب لوگ اس دن نہا کر صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں اور نماج کے لیے جاتے ہیں اک میرے ابے کو چھوڑ کر ، تُو ہی کہہ دے ، نہیں اماں میں نہیں کہہ سکتی ، وہ کیوں ؟ اگر میں نے کہا تو وہ پھر کہے گا شکول جانا چھوڑ دے ۔ اچھا تو تیرے کو معلوم ہے میرے کو کیا کہے گا ، کیا کہے گا ؟ یہ کہے گا توُ کسی مولبی سے نکاح کر لے اگر نماجی ہی اچھا لگتا ہے تو ۔ نہیں اماں یہ بھی تو ہو سکتا ہے ابا تیری بات مان لے ، اُس کو جوُنا چنگڑ کہتے ہیں نہ مانے تو پیو کی وی نہ مانے میں تو اُس کے سامنے کوئی چیج(چیز) بھی نہیں ہوں۔

اماں ہماری مس(ٹیچر) کہتی تھی کسی کو اچھا کرنے کے لیے پہلے خود کو اچھا کرنا چاہیے، اچھا تو تیرا مطول(مطلب) ہے کے میں اچھی نہیں ہوں ، اماں یہ بات نہیں توُ تو بہت اچھی اہے اور ابا کو بھی اچھا کر سکتی ہے ۔وہ کیسے ؟ وہ یوُں کہ جب تُو خود صاف ستھری رہے گی تب ابا کو صاف ستھرا رہنے کو کہہ سکتی ہے ، اے چھائمہ کی بچی شکول جانے سے تیرے دماگ(دماغ) میں جیادہ (زیادہ) ہی صفائی کا کیڑا پڑ گیا ہے ، ہاں اماں شکول جانے سے انسان انسان بنتا ہے اور کچھ سیکھتا بھی ہے ۔ اچھا تو تیرے پیو سے کہہ دوں گی اس کو شکول سے اٹھا دے جیادہ تیلم (تعلیم) بھی اچھی نہیں ہوتی حالاں (ابھی) تو چھ جماعتاں ہی پاس کی ہیں تو ہم اسے گندے لگنے لگے ہیں ۔ایک جمات (جماعت) اور پڑھ لی تو پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگے گی۔ تو کیا یہ تیری باتاں (باتیں) ابا مان لے گا ؟ کیوں نہیں ۔ ! تو پھر صاف رہنے والی کیوں نہیں مانے گا ۔ بس چُپ ہو ، ہمارے بڑے ٹھیک ہی کہتے تھے کہ چُھوریوں (لڑکیوں) کو گھر کاکام کاج ہی سکھانا چاہیے شکول جانے سے ان کی کھوپڑی میں فتور آ جاتا ہے ۔ اماں اسی لیے کہتے ہیں کے ہر انسان کو عقل اپنی ہی اچھی لگتی ہے میں نے صاف ستھرا رہنے کا کیا دیا کہ آپ نے زمین و اسماں کے قلابے ہی ملا ڈالے اسی لیے کہا گیا ہے کے ہر مرد و زن کے لیے اتنی تعلیم لازم ہے کے وہ حلال اور احرام اور اچھے بُرے کی تمیز کرسکے۔

ماما اب صائمہ کو دیکھتی ہیں کیسی صاف ستھری رہتی ہے نماز بھی پانچ وقت کی پڑھتی ہے ، گھر کے سارے کام خود کرتی ہے اب اس کے گھر کے برتن باہر بکھرے پڑے نظر نہیں آتے ، بستر بھی صبح سویرے تہ کر کے اندر رکھ دیتی ہے ،کل اپنی ماں سے کہہ رہی تھی کوئی بوری یا ٹاٹ کا پردہ بنا کر صحن میں لگا لولیکن اُس کی ماں نہیں مان رہی تھی ۔ ہاں ثناء اب ماشاءاللہ صائمہ سمجھدار ہو گئی ہے ، وہ بھلے اپ کی کلاس فیلو ہے لیکن عمر میں بڑی ہے عمر کے اس حصے میں شعُور آ جاتا ہے ، ویسے بھی ماشاءاللہ عقل مند بچی ہے دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے ،۔

جی ماما یہی بات ہے ، ویسے میں کبھی سوچتی ہوں اگر اس کے اماں ابا گھر نہ ہوں تو پتہ ہی نا چلے یہ گھر چنگڑوں کا ہے ، ثناء وہ تمہاری دوست ہے پھر اس کے والدین کو چنگڑ کیوں کہتی ہو ، تو ماما پھر میں کیا کہوں سارا محلہ ہی توانہیں چنگڑ کہتا ہے ، ہاں بیٹا یہ بات تو ہے لیکن پھر بھی تم کچھ لحاظ کیا کرو، اچھا ماما۔
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 62167 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.