سید امتینان علی شاہ بخاری۔شخصی مطالعہ
(Dr Rais Samdani, Karachi)
جو باد ہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے
جاتے ہی
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
بخاری صاحب جن کا پورا نام سید امتینان علی شاہ بخاری تھا اﷲ کو پیارے ہوئے
۔ پاکستان لائبریرین شپ کی دنیا میں بخاری صاحب مرحوم کو ایک منفرد مقام
حاصل تھا۔ اپنے منفرد اور اثر پذیر انداز میں گفتگو اور جاذب نظر شخصیت کے
باعث وہ ہر محفل میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جایا کرتے۔برٹش کونسل بخاری
صاحب کی پہچان تھی کیو نکہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ برٹش کونسل حیدر آباد
اور لاہور میں گزرا تھا ۔ حیدر آباد ، اندرون سندھ اور کراچی کے تعلیم
یافتہ لوگ بخاری صاحب کی لائبریری خدمات سے مستفیض ہوچکے تھے اور وہ مرحوم
کی بہت عزت کیا کرتے ، اس کی وجہ بخاری صاحب کا وہ برتاؤ اور خدمات تھیں جو
انہوں نے ایک لائبریرین کی حیثیت سے فراہم کی تھیں۔سندھ کے کئی لکھنے والوں
نے اپنی تصانیف میں بخاری صاحب کی لائبریری خدمات کا ذکر اچھے الفاظ میں
کیا ہے۔
بخاری صاحب۶ نومبر ۱۹۳۲ ء کو لاہور میں پیداہوئے ، ۱۹۴۶ء میں میٹرک پاس کیا
، ۱۹۵۴ء میں بی اے ، بعد ازاں جامعہ پنجاب سے انگریزی اور فارسی میں ایم اے
کی ڈگریاں حاصل کیں، اسی جامعہ سے ۱۹۵۶ء میں لائبریری سائنس میں ڈپلومہ بھی
حاصل کیا ، برطانیہ سے لائبریرین شپ کا مختصر کورس بھی کیا۔آپ نے پیشہ
ورانہ زندگی کا آغاز پی سی ایس آئی آر کے لائبریرین کی حیثیت سے کیا اور
تین سال اس ادارے سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں برٹش کونسل سے منسلک ہوئے اور
حیدر آباد اور لاہور میں مختلف حیثیتوں میں ۱۵ سال خدمات سر انجام دینے کے
بعد لیاقت میموریل لائبریری کے پرنسپل لائبریرین (ڈپٹی ڈائریکٹر ) ہوئے اور
چار سال خدمات انجام دیں۔ اسی دوران آپ بیرون ممالک بھی گئے اور پیرس کی
French Proficiencyاور جرمنی میں German Proficiencey (Bonn)سے بھی وابستہ
رہے۔
بحیثیت استاد بھی بخاری صاحب کی خدمات قابل قدر ہیں۔ جامعہ سندھ، حیدر آباد
میں لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کلاس کا آغاز ڈاکٹر محمد علی
قاضی کی عملی جدجہد کے نتیجہ میں ۷۰ء۔۱۹۷۱ء میں ہوا۔ ابتدائی کلاس (جس میں
۳۸ طلبہ تھے) کو پڑھانے کے لیے جن اساتذہ کا تقرر عمل میں آیا ان میں ڈاکٹر
محمد علی قاضی کے علاوہ جناب معین الدین خان اور بخاری صاحب شامل تھے۔بخاری
صاحب پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے بھی
وابستہ رہے۔راقم نے ۱۹۹۲ء میں بخاری صاحب سے ہائر سرٹیفیکیٹ کورس کی کلاس
کو پڑھانے کی استدعا کی جو آپ نے قبو ل کرلی ا ور دوسال ریفرنس کا کورس
محنت کے ساتھ پڑھاتے رہے۔ وقت کی پابندی، احساس ذمہ داری اور اپنے پیشہ سے
دلی وابستگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دوران جب کہ
سیشن جاری تھا آپ کی ہمشیرہ اچانک رحلت کر گئیں اور آپ کو فوری پنجاب جانا
پڑا، آپ نے پنجاب سے راقم کو خط تحریر کیا جس میں اس افسوس ناک خبر کی
اطلاع کے علاوہ اپنے اچانک چلے جانے اور ان کی غیر موجودگی میں کلاس لینے
کی درخواست کی تاکہ طلبہ کا نقصان نہ ہو۔
بخاری صاحب کی شخصیت تصنع و بناوٹ سے پاک تھی، سادہ طبیعت کے مالک تھے۔
گفتگو بہت ہی سوچ سمجھ کر کیا کرتے ، ادب و آداب ، لحا ظ و مروت کا ہمیشہ
پاس رکھتے۔ کبھی اخلاق سے گری ہوئی بات نہ کرتے ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا
کہ ایک ایسا پڑھا لکھا شخص بات کر رہا ہے جس کے اندر علم کی گہرائی موجود
ہے۔مر دانہ وجاہت ، خو بصورت، کھڑے نقوش، گورا رنگ، دبلے اور لانبا قد اور
اس کے ساتھ خوش لباسی مرحوم کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ملنسار ، خوش طبع و خوش
گفتار تھے، گفتگو میں اکثر شعر سنایا کرتے، ادبی رنگ ان کی شخصیت میں بدرجہ
اتم موجود تھا۔ بخاری صاحب کی شخصیت کا ظاہری lookانگریز سے مشابہت رکھتا
تھا۔ انگریزی میں ایم اے کی سند نے انہیں مزید گوروں سے مشابہ بنا دیا تھا
اور پھر رہی سہی کسر برٹش کونسل کی ملازمت نے پوری کردی تھی اور وہ مکمل
انگریز بن گئے لیکن کبھی اپنی انگریزنما شخصیت سے کسی کو مرعوب کرنے کوشش
نہیں کی حتیٰ کہ عام گفتگو میں بھی انگریزی بولنے سے اجتناب کرتے۔راقم
الحروف کے نام اپنے ایک خط جو اردو زبان میں ہے مرحوم نے انگریزی زبان میں
اپنے جذبات اور احساسات کو واضح انداز سے اظہار نہ کرنے کی جانب اشارہ کیا،
آپ نے لکھا ’’صمدانی صاحب ! بعض اوقات ہم انگریزی زبان میں اپنے جذبات اور
احساسات کو جس انداز سے ہم بیان کرنا چاہتے ہیں شاید نہیں کر پاتے‘‘۔
بخاری صاحب کی انگریز نما شخصیت میں پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر پروڈیوسر
سید حید ر امام رضوی کو جنہوں نے معروف ڈرامہ ’’جناح سے قائد‘‘ پیش کیا بر
طانوی سامراج کی ایک معروف شخصیت ’’لارڈ ماؤنٹ بیٹن‘‘ سے مشابہ نظر آئی
چنانچہ اس ڈرامہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا مختصر سا کردار سید امتینان علی
شاہ بخاری نے کامیابی سے ادا کیا۔
لائبریرین شپ کی محفلوں ، مجالس و مذاکرہ اور کانفرنسوں میں بخاری صاحب بھر
پور طریقے سے شریک ہوا کرتے ان کی عادت یہ تھی کہ خود کو پیچھے رکھتے
دوسروں کو آگے بڑھانے کی سعی کرتے رہتے۔شعلہ بیان مقرر تو نہ تھے البتہ کسی
بھی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے جو ہر اعتبار سے مدلل اور
impresiveہوا کرتی۔مجھے متعدد بار لائبریرین شب پر منعقد ہونے والے
پروگراموں میں بخاری صاحب کے ساتھ بولنے کا اتفاق ہوا۔ ۱۹۹۶ء میں امریکن
لائبریری سینٹر نے چوتھے لا ئبریری ویک کے سلسلے میں مئی میں ایک مذاکرہ کا
اہتمام کیا ۔ شریک گفتگوبخاری صاحب ، ڈاکٹر نسیم فاطمہ، معین الدین خان
صاحب اور راقم الحروف شامل تھا ۔ مذاکرہ کا موضوع ’’مستقبل کے کتب خانے ‘‘
تھا ۔ تمام مقررین کے علاوہ بخاری صاحب نے موضوع پر بھر پور انداز سے گفتگو
کی اور شرکاء کو متاثر کیا ۔
پیشہ ورانہ سر گرمیوں کے علاوہ بخاری صاحب اپنے پیشہ کے فروغ ، ترقی ا ور
سر بلندی کے لیے انفرادی طور پر بھی جو کچھ ممکن ہوتا کیا کرتے۔لیاقت
میموریل لائبریری کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے محترمہ مہتاب اکبر راشدی صاحبہ
نے جب چارج سنبھالا ، اس وقت بخاری صاحب ڈاپٹی ڈائریکٹر تھے ، آپ نے کراچی
کے سینئر لائبریرینز کی ایک میٹنگ ڈائریکٹر صاحبہ کے ساتھ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء
کو منعقد کی ۔ بخاری صاحب نے اس تعارفی تقریب میں اپنے پیشے اور لائبریرینز
کا بھر پور تعارف محتر مہ سے کرایا۔ ۱۹۹۶ء میں بخاری صاحب سندھ آرکائیوز
میں بیٹھے لگے، آپ نے راقم کو ۲۰ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو ایک خط تحریر کیا جس میں
لائبریری قانون کے مسودات کی کاپی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ، وہ اپنے
شعبہ کے تحت اس کوشش میں بھی رہے کہ کسی طرھ سندھ میں لائبریری قانون کا
نفاذ عمل میں آجائے۔ راقم نے انہیں لائبریری قانون کے مسودات کی کاپی فراہم
کر دیں ۔
بخاری صاحب مجلسی آدمی تھے لوگوں کے درمیان رہنا، گفتگو کرنا پسند کیا کرتے
تھے ۔ گفتگو میں شائستگی، ادب و آداب اور لحاظ ان کی طبیعت کا ایک اہم جزو
تھا۔ بیہودہ گفتگو کرتے نہ ہی کسی دوسرے کی ایسی بات برداشت کیا کرتے۔
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے تا حیات رکن تھے، پاکستان ببو گرافیکل
ورکنگ گروپ کے رکن اور اسکول کے ایک قابل استاد تھے۔ پاکستان لائبریری
بلیٹن کے مستقل پرھنے والوں میں سے تھے،جب بھی ملاقات ہوتی رسالہ کے بارے
میں ضرور پوچھتے ، تعریف کے ساتھ ساتھ غلطیوں کی بھی نشاندھی کیا کرتے۔
لائبریرین شپ کے گرتے ہوئے معیار پرفکر مندی کا اظہار کیا کرتے ، اکثر کہا
کرتے تھے کہ اس پیشہ میں ذہین لوگوں کو آنا چاہیے۔بخاری صاحب اب ہم میں
نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤ گا
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔ جلد ۳۱، شمارہ ۳ ۔۴، ستمبر أ دسمبر ۲۰۰۰ء) |
|