حکومت کا کائونٹ ڈائون شروع
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
مغرب میں حکمرانوں کو اس بات کی
کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان کے دشمن ملک یا ان کے رہنے والے ان کے غیر انسانی
سیاسی چالوں کو جان لیں گے بلکہ ان کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ان کے اپنے
عوام ان کے غیر جمہوری فیصلوں کو نہ جان لیں کیونکہ مغرب کے باشعور عوام
ایسے حکمران کو کرسئی اقتدار پر ٹھہرنے نہیں دیتے جو جمہوریت کے اصولوں کے
خلاف چلتے ہیں۔
ہمارے ہاں عوام کی رائے کی اہمیت صرف الیکشن تک ہوتی ہے اور بعض اوقات اس
رائے کے برعکس منظم طریقے سے الیکشن کو ہی اغواء کر لیا جاتا ہے مگر آزاد
میڈیا کی موجودگی میں پرانی سیاسی چالیں موجودہ سیاسی میدان میں ناکام
ہوچکی ہیں کیونکہ میڈیا نے عوام کو نہ صرف باشعور کیا ہے بلکہ ان کو اس
قابل بنا دیا ہے کہ عوام ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی آواز
پہنچا سکتے ہیں اور سیاسی کھلاڑیوں کی غیر جمہوری چالوں کو دیکھ سکتے ہیں
لہذا اب ہمارے سیاسی حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عوام اب دنیا بھر
کی خبروں سے آگاہ ہوتے ہیں اس لیے ان کو بدلتے وقت کے ساتھ اپنے رویے عوام
کے حوالے سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے-
جس طرح سڑکوں پر عوامی آمد و رفت کو روکنے کے لیے جا بجا کنٹینر کھڑے کر
کے عوام کی روزمرہ زندگی کو معطل کر رکھا ہے اورپٹرول اسٹیشنوں کوپٹرول
فراہم کرنے سے روک رکھا ہے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ ایک جمہوریت کے
دعویدار حکمران کے حکم کا نتیجہ ہے جس نے خود کچھ ہی برس پہلے انھی سڑکوں
پر انھی کنٹینروں کو راستے سے ہٹاتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کے نام پر چیف
جسٹس کی بحالی کے لیے بھر پور کوششیں کی تھیں۔
ہماری جدید سیاست میں اب جو لوگ بھی جہاں سے آتے ہیں ان کی اصل وجہ ہمارے
حکمران ہیں جنہوں نے کمزور سیاسی حکومت قائم کر کے ان لوگوں کو موقع دیا
ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران علاوہ ایک کمزور حکومت اور انتظامیہ کے بھارت کے
ساتھ ان کی خصوصی رغبت انھیں لے ڈوبے گی۔ ان حکمرانوں کی جراتوں کا یہ حال
ہے کہ پاکستان کے بھارت جیسے دشمن کے ساتھ تعلقات بنانا چاہتے ہیں جب کہ
بھارت کی موجودہ حکومت تو پاکستان ہی نہیں مسلمانوں کے خلاف ہے۔
وہ بھارت میں مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں کر رہی اور زبردستی ان کے روزے
کھلوا دیتی ہے۔ اگر ہمارا کوئی حکمران بھارت سے تعلقات استوار کرنا چاہے تو
اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے اور وہ یوں کہ اس وقت امریکا کی بذریعہ
بھارت یہ پوری کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو اس ایٹمی صلاحیت سے محروم کر
دیا جائے۔ امریکا اور بھارت دونوں کا مفاد ایک ہے اور وہ ہے پاکستان دشمنی۔
ہمارے حکمرانوں کے پاس معلومات کے ذریعے ہم سے زیادہ ہیں اور ان کو امریکا
اور بھارت کے عوام کا خوب علم ہے۔
بات آج کی سیاست کی ہو رہی تھی۔ اگر میرے ایک ساتھی نے راستے روکنے والے
کنٹینروں سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں ان کے نیچے
سے گزرنے والے پاکستانیوں کی کھلی توہین پر بین کرتا۔ بوڑھے بچے عورتیں اور
مریض ان کنٹینروں کے نیچے سے ذرا سے راستے سے گزر کر نہ جانے کس طرح سمٹ
سمٹا کر دوسری طرف آ جاتے ہیں۔ قدرت یہ سب دیکھ رہی ہے۔ ہم کمزور انسان تو
اپنی اس مصیبت بلکہ عذاب کا مداوا نہیں کر سکتے صرف اسے سہہ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی بنیاد اگر الیکشن میں ہونے والی دھاندلی ہے تو
اس پر الیکشن کے فوری بعد فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت تھی مگرلگتا ہے
کہ ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے عمران خان چار و ناچار حکومت کا
حصہ بن گئے تھے لیکن ان کا لانگ مارچ کا فیصلہ اب بھی جمہوریت کے خلاف قدم
نہیں ہے بلکہ جمہوری عمل ہے کیونکہ پی ٹی آئی کا مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ
جمہوری اصولوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو بالکل درست ہے۔
دوسری طرف علامہ طاہر القادری کے انقلاب کی صدا بھی جو انتہائی ابہام لیے
ہوئے تھی جس کوعوامی تحریک کے بیگناہ کارکنان کے بہائے جانے والے خون اور
حکومت کی غلط حکمت عملی نے خود ایک جواز بخش دیا ہے۔ یہ دونوں سیاسی
مخالفین جموریت کی رو سے اختلافِ رائے کا حق رکھتے ہیں اس لیے ان کے اظہار
کی راہ میں حکومتِ وقت کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اسی جمہوری اقدامات
سے کام لینا چاہیے تھا جس جمہوریت کا دم بھرتے آئے ہیں مگر پاکستان میں اس
وقت جو صورتحال ہے اسے دیکھ کر ہر گز نہیں لگتا کہ پاکستان میں اس وقت کوئی
جمہوری حکومت قائم ہے۔
نتائج آگئے تو کپتان نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ الیکشن
ٹربیونل میں بھی گئے مگر کیس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ حکومت نے وعدے بھی کیے
مگر عملی اقدام کی طرف آنے سے گریزاں رہی۔ حکومت کو شاید یہ احساس دلا دیا
گیا کہ اگر ان چار حلقوں میں کوئی گڑ بڑ پکڑی گئی تو کہیں سارا الیکشن ہی
مشکوک نہ ہو جائے۔
حکومت نے پاکستان عوامی تحریک کے یوم شہدا کے احتجاج کو طاقت سے روکنے کی
کوشش کر کے دیکھ لیا۔ سب انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہزاروں لوگ طاہر
القادری کی اپیل پر جمع ہو گئے۔ پرسوں14 اگست ہے۔ آزادی مارچ کے ساتھ
انقلاب مارچ بھی ہو گا
افسوس میاں صاحب نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ دو بار ان کا اقتدار ختم ہوا۔
انھیں معاہدے کے تحت جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت ملک میں اپوزیشن کی سیاست جس عروج پر ہے اس میں سو فی صد حکومت
کیبری حکومت کا ہاتھ ہے کسی قادری اور عمران کی یہ مجال نہیں تھی کہ ایک
قبول عام حکومت کے خلاف بول بھی سکے لیکن اب تو ہر ایرا غیرا اپوزیشن بنا
رہا ہے کیونکہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے جو اس کا راستہ روک سکے۔ یہ
عوام ہی ہوتے ہیں جو حکومتوں کی طاقت بنتے ہیں اور حکومت کی کمزوری بھی
عوام کی ناراضگی سے ہوتی ہے مگر اب وقت گزر گیا ہے اور دیکھتے ہیں کہ کیا
ہوتا ہے۔ بس دو چار دنوں کی بات ہے۔
حکومت بند گلی میں جا چکی ہے۔ واپسی کا راستہ نظر نہیں آ رہا۔ مذاکرات کا
وقت مدت پہلے ختم ہو چکا۔ طاہر القادری چھوٹے بھائی کا استعفیٰ مانگتے ہیں
اور عمران خان بڑے بھائی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ وفاقی اور
صوبائی وزیروں کے بیانات میں اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ حالات پر قابو پا
لیا جائے گا۔ میاں صاحب کی باڈی لینگوئج مختلف ہے۔ کائونٹ ڈائون شروع ہو
چکا۔ حکومت صبح گئی یا شام گئی والی کیفیت میں ہے۔ ہماری دعا ہے جو بھی ہو‘
اس ملک کے حق میں بہتر ہو۔ |
|