کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟
(عابد محمود عزام, karachi)
مسلم ممالک کے معاملات میں وقتاً
فوقتاً ٹانگ اڑانے والی اقوام متحدہ کی اپنی حیثیت کا اندازہ لگایے کہ صرف
دس روز میں اسرائیلی افواج بے لگام و خبطی گھوڑے کی مانند تین بار غزہ میں
یو این کے زیرِ اہتمام ایک ایسے اسکول پر چڑھ دوڑیں، جہاں اسرائیلی درندگی
سے بچنے کے لیے لگ بھگ تین ہزار فلسطینی پناہ گزیں ہیں۔ اسرائیلی ”سورماﺅں“
نے ان نہتے پناہ گزینوں پر عین اس وقت میزائل داغ کر دس افراد کو شہید اور
دو سو سے زاید کو زخمی کیا، جب وہ خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
اگرچہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی فضائیہ کی جانب
سے اس وحشیانہ اور غیر انسانی حملے کو ”اخلاقی زیادتی اور مجرمانہ فعل“
قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ”بین الاقوامی قوانین کی فاش خلاف ورزی ہے“،
جبکہ امریکی دفتر خارجہ نے بھی اسرائیل کی جانب سے یو این کے زیر انتظام
اسکول کو نشانہ بنائے جانے کو ”شرمناک“ قرار دیا، لیکن اس دکھلاوے کی
مذمتوں سے مغرب کے سرکش اور مغرور لونڈے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
پچھلی بار یو این کے تحت چلنے والے اسی اسکول پر اسرائیلی بمباری کے بعد
بھی اقوام متحدہ نے یہ بیان دیا تھا کہ اسرائیل جان بوجھ کر بین الاقوامی
اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اسرائیل کو اسکولوں، ہسپتالوں، گھروں اور
اقوامِ متحدہ کی عمارات پر حملے کرنے پر ممکنہ طور پر جنگی جرائم کا مرتکب
قراد دیا جانا چاہیے، لیکن اس بیان کا اسرائیل پر یہ اثر ہوا کہ اس نے
اقوام متحدہ کے تمام قوانین کو اپنے پاﺅں تلے روندتے ہوئے ایک بار پھر اسی
پناہ گاہ اسکول پر میزائل داغ دیے۔ اگر اسرائیل پر اقوام متحدہ کے بیانات
کا رتی برابر بھی اثر ہوتا تو وہ انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی یوں
دھجیاں اڑاتے ہوئے بے آسرا فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش کر کے انہیں
لاشوں کے ”تحفے“ نہ دیتا۔ امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر رقصاں اقوام
متحدہ نامی مجلس کی اگر اسرائیل کے نزدیک کوئی وقعت ہوتی تو مغرب کا یہ
سرپھرا بغل بچہ کم از کم غزہ میں اپنی سرپرست اقوام متحدہ کے زیر اہتمام
چلنے والے اسکول پر حملہ کر کے خون کی ہولی نہ کھیلتا، حالانکہ پچھلی بار
فلسطینیوں کی اسی پناہ گاہ پر اسرائیلی حملے کے وقت غزہ میں اسرائیلی
بربریت سے متاثرہ خاندانوں کی مختلف اسکولوں اور خیمہ بستیوں میں دیکھ بھال
پر متعین یو این آر ڈبلیو کے ترجمان ”کرس گنیز“ نے براہ راست انٹرویو کے
دوران پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تھا کہ صہیونی فوج کی جانب سے پناہ
گزینوں کے کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ میں انسانی حقوق کی
کھلے عام خلاف ورزی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بار بار تنبیہ کے
باوجود بھی اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ میں یو این کے اسکول پر حملہ کر کے
یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے قوانین کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا
ہے۔
اسرائیل کو اقوام متحدہ کے قوانین کی فکر دامن گیر ہوبھی کیونکر، جب سارا
مغرب اسرائیل کی پشت پر ہو اور اسے ہر قسم کا تعاون فراہم کر رہا ہو۔
امریکا اور اقوام متحدہ خود کئی بار اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھنے کی
بجائے اسرائیلی بربریت کی صرف مزاحمت کرنے والی تنظیم حماس کو قصور وار
ٹھہرا چکے ہیں، بلکہ کچھ روز قبل ہی امریکا نے نہتے و بے گناہ فلسطینیوں پر
مظالم کی نئی داستانیں رقم کرنے والی بغل بچہ صہیونی ریاست اسرائیل کی کھلی
حمایت کرتے ہوئے اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کا اعلان کیا تھا اور اقوام
متحدہ نے جنگ بندی کے خاتمے کی ذمے داری حماس کے سر ڈالی تھی۔ حالانکہ جنگ
بندی کے خاتمے کی ذمہ داری حماس پر ڈالنے والی ”آپا اقوام متحدہ“ کو یہ
معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ بندی کا خاتمہ حماس کی جانب سے نہیں، بلکہ اسرائیل
کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ 4اگست کو صبح کے وقت اسرائیل نے غزہ میں 7 گھنٹوں
کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، لیکن ابھی ایک گھنٹہ بھی پورا نہ گزرا تھا
کہ صہیونی افواج نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اورجنگ بندی کی دھجیاں
بکھیرتے ہوئے صہیونی توپوں نے معصوم فلسطینیوں پر آگ کے گولے برسانے شروع
کر دیے۔ جبکہ اس سے قبل بھی اسرائیل اور حماس کے مابین تین روزہ جنگ بندی
کا عارضی معاہدہ طے پاجانے کے باوجود حسب سابق صہیونی افواج نے صرف 4
گھنٹوں بعد ہی عہد شکنی، وعدہ خلافی، تکبر و ہٹ دھرمی اور انانیت و جارحیت
کی روش اپناتے ہوئے از خود اس معاہدے کی دھجیاں اڑاکر 100 سے زاید
فلسطینیوں کو شہید کر کے اپنی منافقانہ فطرت کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ اس
کھلی حقیقت کے آشکارہ ہوجانے کے بعد بھی اقوام متحدہ کا جنگ بندی کے خاتمے
کی ذمہ داری حماس پر ڈالنا صہیونیت نوازی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا سمیت پورا مغرب اسرائیل کا محافظ
بنا ہوا ہے۔ اہل مغرب قدم قدم پر اسرائیل کو حمایت کی یقین دہانی کرواتے
ہوئے ہر قسم کا تعاون فراہم کرتے ہیں۔ امریکی صدر اسرائیل کے دفاع کے لیے
225 ملین ڈالر کی امریکی امداد کی منظوری دے چکے ہیں، جس کے ذریعے اسرائیل
کے اینٹی میزائل سسٹم آئرن ڈوم کی تقویت کے لیے اضافی 225 ملین ڈالر ادا
کیے جائیں گے۔ جبکہ دوسری جانب برطانیہ کی ایک ڈیلی ویب سائٹ نے یہ انکشاف
کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں استعمال ہونے والا اسلحہ برطانوی رسد پر
مشتمل ہے اور اسرائیل کو ستر ملین ڈالر کی مالیت کے اسلحے اور دیگر جنگی
ساز و سامان کی فروخت کے لیے برطانوی اسلحہ سازوں کو 2010 میں لائسنس دیا
گیا تھا۔ دو برطانوی کمپنیوں کی طرف سے اسرائیل کو جنگی سامان بشمول ڈرون
فروخت کیے گئے ہیں۔ اسرائیل ان ڈرونز کو غزہ میں اپنی جنگ کے لیے ریڑھ کی
ہڈی کی طرح اہم قرار دیتا ہے۔ برطانوی اسلحہ سازوں کی طرف سے اسرائیل کو
فروخت کیا جانے والا دوسرا اہم ترین بی اے ای سسٹم ہے، جو امریکی فراہم
کردہ ایف سولہ طیاروں کی کارروائی کو موثر بناتا ہے۔ مغرب کی اسی مسلمان
دشمن اور کٹر اسرائیل نواز پالیسی پر برطانوی کابینہ کی رکن پاکستانی نژاد
برطانوی شہری سعیدہ وارثی نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے احتجاجاً
استعفیٰ دیا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے مغربی
میڈیا نے جو یاوا گوئی کی ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حقیقت کے
بعد اب یہ بات تو کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عالمی برادری جس سے رات دن
فلسطین پر اسرائیلی درندگی کو رکوانے کی اپیلیں کی جاتی ہیں، وہ سب متحدہ
طور پر اسرائیل کی حمایت میں کمر بستہ ہیں۔ ورنہ کیا وجہ کہ ایک ناجائز
ریاست فلسطینیوں کے علاقوں میں ہی گھس کر مسلسل ایک مہینہ بمباری کر کے دو
ہزار فلسطینیوں کو شہید اور دس ہزار سے زاید کو زخمی کردے اور ان کے گھر،
عمارتیں، سڑکیں، اسکول، مساجد، ہسپتال، ایمبولینسیں، مہاجر کیمپ، ماہی
گیروں کی کشتیاں، کھیل کے میدان، موٹرگاڑیوں اور ہر جگہ پر بمباری کر کے
تباہ و برباد کردے اور بات بات پر مسلم ممالک کے معاملات میں دخل اندازی
کرنے والی اقوام متحدہ گنگ ہوجائے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آپس میں دست و
گریبان ہم لوگ اسرائیل کی پشت پناہ اسی عالمی برادری کو ہی اپنے معاملات
میں اپنا منصف بناتے ہیں اور یہی عالمی برادری ہمارے فیصلے کرتی ہے۔ ان
حالات کے پیش نظر برسوں پہلے فیض احمد فیض کا کہا ہوا اک شعر یاد آتا ہے
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟ |
|