اس سے کیا ہو جائے گا ،یہ سوال ایک صاحب نے اس وقت کیا جب ہم ایک مسجد کے
باہر بعد نماز جمعہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے خلاف مظاہرہ
کررہے تھے ۔میں ایک بینر کے ساتھ کھڑا تھا انھوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا
کہ اس مظاہرے سے کیا ہو جائے گا کیا اسرائیل بمباری بند کردے گا کیا
فلسطینی محفوظ ہو جائیں گے ۔میں نے ان سے سوال کیا پھر آپ بتایے کہ ہمیں
کیا کرنا چاہیے ،انھوں نے کہا وہاں جا کر لڑیں ہم نے کہا جب وہاں جانے کا
موقعہ آئے گا تووہاں بھی چلے جائیں گے ۔وہ صاحب زیر لب کچھ کہتے ہوئے وہاں
سے چلے گئے لیکن میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ بیعت رضوان کے موقع پر جب نبی
اکرم ﷺ لوگوں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت لے رہے تھے تو ایک روایت کے
مطابق چودہ سو لوگوں میں سے سوائے ایک کے سب نے اپنے پیارے نبی کے ہاتھ پر
بیعت لیا لیکن کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ کیا اس سے کفار کی ریشہ دوانیاں
ختم ہو جائیں گی اور کیاحضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زندہ ہو جائیں گے اس
لیے کہ یہ بیعت اس خبر کے آجانے کے بعد لی جارہی تھی حضرت عثمان کو مکہ میں
شہید کردیا گیا ہے ۔جب 6ہجری میں آپ ﷺ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے
ساتھ عمرہ کررہے ہیں تو چونکہ نبی کے خواب وحی کے مانند ہوتے ہیں اس لیے آپ
ﷺ نے عمرے کا قصد کیا اور اپنے چودہ سو ساتھیوں سمیت عمرے کے لیے روانہ
ہوئے مکہ کے قریب پڑاؤ ڈالا اور وہاں سے آ پ نے پہلے حضرت عمر سے کہا کہ اپ
مکہ جاکر سرداروں سے بات کریں کہ ہم صرف عمرہ کرنے آئیں ہیں حضرت عمر نے
کہا یا رسول اﷲ میرے قبیلے بنو عدی بن کعب کا کوئی فرد مکہ میں نہیں ہے
قریش کی دشمنی بھی میرے لیے بہت سخت ہے وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے آپ
حضرت عثمان کو بھیج دیں چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت عثمان کو قریش کے سرداروں سے
بات چیت کرنے کے لیے بھیجا حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ ابان بن سعید بن
عاص کی امان میں مکہ میں داخل ہوئے قریش کے سرداروں نے انھیں پیشکش کی کہ
آپ چاہیں تو طواف کر سکتے ہیں لیکن آپ نے انکار کردیا کہ نبی اکرم ﷺ کے
بغیر وہ طواف نہیں کریں گے اسی اثنا میں یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان کو
مکہ میں شہید کردیا گیا ہے ۔اس خبر کے بعد یہ بیعت لی گئی کہ حضرت عثمان کی
شہادت کا بدلہ لیا جائے گا،کچھ کی رائے یہ ہے کہ بیعت علی الموت تھی اور
کچھ کی رائے یہ ہے کہ اس بات پر تھی کبھی پیٹھ نہ موڑیں گے ،اس وقت غزہ کی
صورتحال یہ ہے کہ وہاں پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے شہداء کی
تدفین نہیں ہو پا رہی ہے گڑھوں میں اجتماعی تدفین کی جارہی ہے بہت ساری
جگہوں پر تو پورے خاندان کے خاندان شہید ہوگئے جن کی تدفین کرنے والا کوئی
نہیں ہے ۔آج کسی اسلامی ملک میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو یہ وارننگ
دے سکے کہ وہ فلسطین میں مسلمانوں کا خون بہانا بند کرے ورنہ ہم بھی اسلامی
دفاع کا حق رکھتے ہیں ۔جب 57سلامی ممالک کے سربراہان بے حسی کے بستر پر بے
حمیتی کی چادر تانے سو رہے ہوں تو مسلم امہ جو کچھ بھی کرسکتی ہے وہ کرے گی
جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ا ن مظاہروں سے کیا ہو جائے گا وہ یہ بتائیں
کہ ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب میں سے کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو وہ
اس کے یہاں تعزیت کرنے کے لیے کیوں جاتے ہیں کیا ان کی تعزیت سے مرحوم زندہ
ہو کر واپس آسکتا ہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غم کے موقع پر تعزیت کو دو
بول بھی لواحقین کے بوجھ کو ہلکا کر دیتے ہیں ۔ہم منصورہ میں ایک تربیتی
نشست میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے اس دوران سوڈان کے صدر کے حوالے سے یہ
خبر نیوز بریک کے طور پر آئی کہ ان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ
قائم کیا جائے گا ۔اسی وقت امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد نے
تربیتی نشست کے شرکاء اور جماعت اسلامی لاہور کے کارکنان کے ساتھ بر وقت
ایک زبر دست مظاہرہ کیا جس کی کوریج ملکی میڈیا کے علاوہ انٹرنیسنل میڈیا
میں بھی بھرپور انداز میں آئی ۔ اس واقع کے کچھ عرصے بعد قاضی حسین احمد
اور عبدالغفار عزیز صاحب کا کسی پر وگرام میں شرکت کے سلسلے میں سوڈان جانا
ہوا خرطوم ائیر پورٹ سے وہ اپنے ہوٹل جانے کے لیے ٹیکسی پر سوار ہوئے راستے
میں ٹیکسی ڈرائیور سے بات چیت کے دوران جب اسے یہ پتا چلا کہ یہ جماعت
اسلامی پاکستان کے امیر ہیں تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے بتایا کہ سوڈان کے
صدر کے بین الاقوامی عدالت میں مقدمے کے حوالے سے پاکستان میں جو بڑا
مظاہرہ ہوا تھا اس سے سوڈان کے باشندے بہت خوش ہوئے تھے۔اس لیے ان جلوسوں
مظاہروں ریلیوں کے اثرات تو ہوتے ہیں 17 اگست کو غزہ ملین مارچ ہو رہا ہے
اس کے بین الاقوامی سطح پر ہمہ گیر اثرات اس وقت زیادہ موثر ہو سکتے ہیں جب
اس میں حاضری ملین کی ہو ۔غزہ کے زخموں سے چور چور لوگ جب اس آزمائش کے بعد
پر سکون اور نامل زندگی کی طرف لوٹیں گے تو پھر انھیں سوشل میڈیا پر جب یہ
تمام چیزیں دیکھنے کا موقع ملے گا تو ان کا دل پاکستانیوں سے کتنا خوش ہو
گا ۔بیعت رضوان میں شریک صحابہ کرام کے حوالے سے حضرت جابر سے مروی ایک
روایت ہے کہ آج زمین پر جتنے ہیں ان سب میں افضل تم لوگ ہو ۔گو کہ یہ جنگ
نہیں ہوئی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا جس کو قران مجید میں فتح مبین کہا
گیا ہے ۔اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر ہم یہ سوچیں کہ آج کے مسلمانوں
میں سب سے بہتر وہ مسلمان ہیں جو غزہ کے غمزدہ بابشندوں کے لیے اپنے وقت
اور مال کی قربانی دے رہے ہیں ۔ہاں آج اگر حکومت پاکستان سمیت کوئی بھی
حکومت اپنے ملک میں یہ اعلان کردے کہ اسرائیل کے خلاف جہاد میں جانے کے لیے
لوگ اپنے نام لکھائیں تو دیکھیے کیسی لائنیں لگتی ہیں ۔ڈھاکہ فال کے
بعدمجھے ایک مشرقی پاکستان کے ساتھی نے آنکھوں دیکھا یہ واقعہ بتایا کہ جب
1965میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو بھارت کے خلاف جہاد پر جانے کے
لیے ایک اسکول کے باہر ہزاروں بنگالی نوجوانوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں کہ
ہمارا نام بھی پاکستان کی خاطر جنگ کرنے والوں میں لکھ لیا جائے اسی طرح
اگر آج پاکستان کی حکومت یہ اعلان کردے کہ وہ کون کون سے نوجوان ہیں جو غزہ
میں جاکر اسرائیل کے خلاف حماس کے ساتھ جہاد میں حصہ لیں گے ۔دیکھیے اس شہر
کراچی ہی میں نوجوانوں کی کتنی لمبی لائننیں لگتی ہیں ۔17اگست کے غزہ ملین
مارچ سے اسرائیل سہمتا ہے یا نہیں اس کی غزہ کے خلاف ریشہ دوانیاں کم ہوتی
ہیں یا نہیں ،فلسطینیوں کے خون سے اس کی پیاس بجھتی ہے یا نہیں لیکن یہ تو
ہوگا کہ آج غزہ کے باشندے اور فلسطینی اسرائیل اور اس کے مغربی سرپرستوں
بالخصوص امریکا کی نفرت کی جس آگ میں جل رہے ہیں ،17اگست کے غزہ ملین مارچ
میں شرکت کرنے والوں کا نام آخرت میں اس آگ کے بجھانے والوں میں اسی طرح
شامل ہو سکتا ہے جس طرح اس چڑیا نے کہا تھا جو اپنے چونچ میں حضرت ابراہیم
کی آگ میں ڈالنے کے لیے پانی کا قطرہ لے جا رہی تھی اور اپنی ایک ساتھی
اینکر چڑیا کے طنزیہ سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میرے اس پانی سے آگ بجھتی
ہے یا نہیں لیکن کل آخرت میں میرا نام آگ بجھانے والوں میں شامل ہو گا نہ
کہ آگ لگانے والوں میں۔ |