پاکستان کی جمہوریت خطرات کے منڈلاتے بادل

 فوجی حکومت کے بڑھتے امکانات

کرکٹ کے میدان سے سیاسی دنیا میں قدم رکھنے والے عمران خان ہمارے ملک کے ابھرتے ہوئے سیاست داں اروند کجروال سے کم نہیں ہیں۔ جن کی سیاست کی سارا دارومدار احتجاج ۔دھرنا اور الزام تراشی پر ہے ۔انہیں وزیر اعلی بننے کا موقع ملا تو بھی انہوں ترقیاتی امور کو انجام دینے اور عوام کی امیدوں پر اترنے کے بجائے احتجاج ،دھرنا ،روڈشو بھوک ہڑتال اور الزام تراشی کا سلسلہ ہی جاری رکھا۔ پانی بجلی اور دیگر عوامی ضروریات کو پورکرنے میں وہ مکمل طو پر ناکام ثابت ہوئے ۔انچاس دنوں کی حکومت کے دوران انہوں الزام تراشی، احتجاج، دھرنا اور روڈشو کے علاوہ کوئی بھی تعمیری کام نہیں کیا۔ شاید انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ ان دنوں کہ ہم دہلی کے وزیر اعلی ہیں ان کے ذہن میں یہی تھاکہ ہم اپنے گرو انا ہزارے کے تحریک میں شامل ہیں۔ جن کا مقصد کانگریس کے کاموں کی مخالفت او راس کے راہ میں روڑے اٹکانا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جس تیزی ہندوستانی سیاست کے ہیروبن کر آئی تھے اس سے زیادہ جلدی وہ گمنام ہوگئے ۔دہلی کی سڑکوں پر ان کی گمنامی کے پوسٹر بھی لگادیے گئے ۔ سوشل میڈیا پر ان کے نام سے گمشدگی کا اعلان بھی لگادیا گیا۔کچھ یہی حال تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا ہے جنہوں نے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد احتجاج دھرنا الزام تراشی اور حکومت کو پریشان کرنے کا م کیا ہے۔حالیہ دنوں میں وہ پھر سڑک کی سیاست پراترے آئے ہوئے ہیں ۔نوازشریف کی موجودہ حکومت کے راستے میں روڑے اٹکارہے ہیں ۔مختلف بہانوں سے انہیں مسلسل پریشان کررہے ہیں۔طرح طرح کے الزامات لگاکر نواز شریف کی نیند کو حرام کئے ہوئے ہیں حالاں کہ پاکستان میں نواز حکومت بہتر کام کررہی ہے ۔عوامی توقعات پر وہ پورے اتررہے ہیں۔لیکن یہ جناب عمران خان ہیں جو انہیں مسلسل پریشان کررہے ہیں ۔

جبکہ نواز شریف نے عمران خان کے راستے میں کبھی بھی روڑے اٹکانے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے 11مئی 2013 کے انتخابات کے بعد چاروں صوبوں میں عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کو اچھی طرح تسلیم بھی اوراس کا احترام بھی ۔ خیبر پختونخواہ میں مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن نواز شریف نے تحریک انصاف کو واحد اکثریتی جماعت نہ ہونے کے باوجود حکومت سازی کا موقع دیا۔ انہوں نے تحریک انصاف میں بغاوت کا بھی فائدہ نہیں اُٹھایا ۔

حالیہ دنوں میں عمران خا ن ایک اور بڑے احتجاج کی تیاری کررہے ہیں۔ پاکستان کے یوم آزادی 14 اگست2014ء کو اسلام آباد کی جانب انہوں نے لانگ مارچ نکالنے کا اعلان کیا ہے اس مارچ کو انہوں نے سونامی مارچ کا نام دیا ہے۔ انہوں نے 11 مئی 2013 کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت کو ایک ماہ کی ڈیڈلائن دید ی تھی۔ ان کا الزام ہے کہ قومی اسمبلی کے 90 حلقوں میں فہرستیں تبدیل کی گئیں اور 35 حلقوں میں جیتے ہوئے امیداواروں کو ہرایا گیا۔ انہوں نے جذباتی انداز میں پنجاب لولیس کو بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ملین مارچ کے موقع پر کارکنوں پر لاٹھی یا گولی چلائی تو وہ خود ایسے پولیس افسران کو پھانسی لگائیں گے۔ عمران خان نے چار مطالبات پیش کئے تھے ۔(1 )11مئی 2013ء کو کس نے جلد فتح کی تقریر کروائی؟(2) ،الیکشن میں سابق چیف جسٹس کا کیا کر دار تھا؟ (3)،عام انتخابات میں نگران حکومت کا کیا کردار تھا؟( 4) ،35 پنکچر لگانیوالے کو چیئرمین پی سی بی کیوں لگایا گیا اور انتخابی فہرستوں کو عین وقت پر کیوں تبدیل کیا گیا؟ ۔عمران خان نے دھمکی دی تھی کہ حکومت نے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو 10 لاکھ آدمیو ں کے ساتھ تحریک انصاف کا سونامی 14 اگست کو اسلام آباد کا رُخ کرے گا۔

پاکستانی دانشوروں کا کہنا ہے کہ عمران خان جن مطالبات کو منوانے کیلئے ملین مارچ کا ڈارمہ کرنا چاہتے ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق الیکشن کمیشن اور نگران حکومت سے ہے۔حکومت کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے کہ عمران خان اقتدار میں آنے کیلئے مُضطرب اور بے چین ہو گئے ہیں او ر باربار دوبارہ الیکشن کرانے کامطالبہ کررہے ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ انقلاب کے علمبرداروں میں گجرات کے چوہدری برادران اور فرزند لال حویلی شیخ رشید احمد پیش پیش ہیں-

مولانا طاہر القادری کے انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ کے دن اب بالکل قریب آچکے ہیں۔ اطلاع کے مطابق حکومت مخالف دیگر جماعتیں بھی اب حکومت کے خلاف جلسے جلوس اور دھرنوں کی تیاریوں میں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جماعتیں مل کر اتحاد قائم کرہی ہیں۔ یا پھر اپنا وزن عمران خان یا طاہرالقادری کے پلڑے میں ڈال رہی ہیں لیکن بظاہرکسی بڑی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ تاہم اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عوامی رد عمل اور سڑک کی سیاست کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ ایسی صورت میں پاکستان میں زیادہ امکان مارشل لاء کا ہی ہوتا ہے۔ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ فوج آتے ہیں انتخابات کروا کر واپس چلی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی قیادت سیاست کی کشتی میں قدم رکھ لے تو پھر وہ سیاسی جماعتوں کی پابند نہیں رہتی۔ماضی کی فوجی حکومت اس پر شاہد ہے ۔

پاکستان میں رود شو کی سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی دھرنے، جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی رہیں ہیں۔ بعض اوقات ایسے دھرنے یا جلسے کسی ایک جماعت کی جانب سے ہوتے ہیں تو کبھی مختلف جماعتیں مل کر اتحاد قائم کرتی ہیں اور پھر اس اتحاد کے تحت سب مل کر بڑا احتحاجی روڈشو کرتی ہیں۔
پاکستان میں سڑکوں کی سیاست اور افردی قوت کے مظاہروں کی بنیاد 1956ء سے 1958ء میں میجر جنرل سکندر مرزا کے پاکستان کا پہلا صدر بنتے ہی رکھ دی گئی تھی۔ سکندر مرزا نے عملی طور پر پارلیمنٹ کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی۔ اس کے دوسالہ دور میں ہی تین وزراء اعظم اپنے عہدوں سے مستعفی ہوئے جن میں چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی اور ابراہیم اسمعیٰل چند دیگر شامل ہیں۔ فیروز خان نون 1958ء میں وزیراعظم بنے تو اپوزشن سڑکوں پر آچکی تھی اور خان عبدالقیوم خان سمیت نامور سیاسی لیڈر سکندر مرزا کے خلاف احتجاجی ریلیوں کی قیادت کررہے تھے۔ سکندر مرزا نے ان احتجاجی تحریکوں کے بدلے میں اختیارات استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ تحلیل کردی اور فوج کو مارشل لاء کی دعوت دے دی۔ جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوگئے۔ دو ہفتے بعد جب سکندر مرزا نے اپنے اختیارات کے تحت ایوب خان کو واپس بھیجنا چاہا تو ایوب خان نے انہیں ہی عہدے سے الگ کردیا۔سکندر مرزا کے خلاف جو احتجاجی تحریک چلی اور اس کے نتیجے میں جو اقدامات اٹھائے گئے اس کی وجہ سے ملک کو اگلے وزیراعظم کیلئے 13سال تک انتظار کرنا پڑا۔

پاکستان کی دوسری بڑی احتجاجی تحریک ایوب خان کے خلاف چلائی گئی جس میں عوام ایک بار پھر سڑکوں پر آگئے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد بیروزگاری اور کساد بازاری میں اضافہ ہوا تو اس کی ذمہ داری ایوب خان پر ڈالی گئی اور ان کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ اس احتجاج میں طلباء سب سے آگے نظر آئے۔ جب ایوب خان نے صدی کی سب سے بڑی کامیابی کا دن منانے کا فیصلہ کیا تو نیشنل ا سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بڑے شہروں میں احتجاج کی دھمکی دے دی۔ ایوب خان نے اس احتجاج کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔ 7نومبر 1968ء کو پولیس نے طلباء کی ریلی پر راولپنڈی میں فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں تین طالب علم جاں بحق ہوگئے اور احتجاج مزید شدت اختیار کرگیا۔ ملکی سطح کے سیاست دان بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو 1967ء میں اپنی الگ سیاسی جماعت بنا چکے تھے۔ وہ بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ سول سوسائٹی، مزدور اور بیروزگاری طبقہ بھی سڑکوں پر نکل آیا۔ صحافی او ادیب تک اس میں شامل ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں ایوب خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کھو بیٹھے اور انہوں نے مارچ 1969ء میں استعفیٰ دیکر اختیارات یحیٰی خان کے حوالے کردئیے جس نے انتخابات کے اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دئیے۔
پاکستان کی ایک بڑی اور اہم احتجاجی تحریک 1977ء میں پاکستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی۔ یہ تحریک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھی۔ یہ تحریک لگ بھگ اسی ایشو پر چلائی گئی جس پر موجودہ صورتحال میں آزادی مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ بھٹو اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی 1977ء کے انتخابات میں واضح اکثریت سے جیت گئی تھی جس پر اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابات کو مسترد کردیا۔ بھٹو کے خلاف نو سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے انتخابی نتائج مسترد کیے اور اسمبلی سیشن کا بھی بائیکاٹ کردیا۔ اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگ گیا اور ضیاالحق نے حکومت پر قبضہ کر کے بھٹو کو جیل بھیج دیا جس کا اختتام بھٹو کی پھانسی پر ہوا۔

بھٹو کے بعد اگلی احتجاجی تحریک 1981ء میں ضیاالحق کے خلاف شروع ہوئی جسے ایم آڈی کا نام دیا گیا۔ یہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا جو مرحوم ضیاالحق کی آمریت کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایم آرڈی کی قیادت پیپلز پارٹی کے پاس آگئی جو سندھ میں خاصی فعال تھی۔ اس نے 1985ء کے انتخابات کی تیاریاں شروع کردیں اور مختلف چھوٹے بڑے احتجاجی جلسے شروع کردئیے، آگے چل کر ایم آر ڈی میں بھی پھوٹ پڑ گئی اور یہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ کچھ جماعتوں کا خیال تھا کہ ضیاالحق کی جانب سے کروائے گئے انتخابت میں حصہ نہ لیا جائے جبکہ کچھ جماعتیں الیکشن لڑنا چاہتی تھیں۔

1992ء میں بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف کرپشن اور 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ نومبر 1992ء کے لانگ مارچ میں نوابزادہ نصر اﷲ خان، محمد خان جونیجو اور قاضی حسین احمد سمیت متعدد معروف سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ نواز شریف کی حکومت نے ریاستی طاقت کا استعمال کیا اور متعدد سیاسی رہنما گرفتار کرلئے گئے۔ یہ مارچ بظاہر کامیابی حاصل نہ کرسکا لیکن 1993ء میں بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ اس دوران شریف حکومت بھی اپنے حمایتی کھو بیٹھی اور آرمی چیف عبدالوحید خان کے کردار ادا کرنے پر نواز شریف نے جولائی 1993ء میں استعفیٰ دے دیا۔

پاکستان کی بڑی احتجاجی تحریکوں اور لانگ مارچ میں 2008ء کی وکلاء تحریک کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر چیف جسٹس افتخار چودھری اور دیگرججوں کو ان کے عہدے سے ہٹایا تو سول سوسائٹی اور وکلاء نے احتجاج شروع کردیا لیکن اس احتجاج کو بظاہر کامیابی نہ مل سکی اور چیف جسٹس بحال نہ ہوسکے۔ 2009ء میں دوبارہ اسی مقصد کیلئے لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے۔ نواز شریف نے لاہور سے لانگ مارچ کی قیادت کا فیصلہ کیا۔ اس بار وکلاء اور سیاسی قیادت ایک ساتھ باہر نکلی اور 16مارچ 2009ء کو آغاز میں ہی مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان ہوگیا جس پر لانگ مارچ ختم کردیا گیا۔ سٹریٹ پاور کا بہترین مظاہرہ پاکستان عوام تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی جانب سے 2013ء کے آغاز میں کیا گیا۔ ان کا ایجنڈا انتخابی عمل میں اصلاحات کا تھا۔ انہوں نے حکومت سے گھر جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اس کا اختتام طاہرالقادری اور حکومتی ٹیم کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد ہوگیا اور بظاہر اس لانگ مارچ کے نتیجے میں بھی کوئی تبدیلی نہ آسکی۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بضد ہیں اور یہی کہ رہے ہیں کہ ہم ہر صورت میں لانگ مارچ کریں گے اور اسلام آباد میں تب تک دھرنا دیئے بیٹھے رہیں گے جب تک دھاندلی کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاتا۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے جمہوریت کو درپیش خطرات کو مدّنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں سیکیورٹی کے عذراور آئین کے آرٹیکل 245 کا سہارا لیتے ہوئے یکم اگست سے ہی فوج طلب کر لی گئی ہے۔ جس پر تحریک انصاف کا کہنا ہے کے حکومت نے فوج تحریک انصاف کے جیالوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے تعینات کی ہے۔

یہ کنہے کی ضرورت نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے اس لانگ مارچ کا مقصد پاکستان میں موجود جمہوریت کو نقصان پہنچانا اور فوجی حکومت قائم کرنا ہے کیوں کہپاکستان کی تاریخ میں ہونے والے زیادہ تر لانگ ماچ اور سٹریٹ پاور کے مظاہروں کے نتیجے میں یاتو حکومت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے یا پھر ان کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا ہے۔ اب ایک بار پھر سیاسی جماعتیں لانگ مارچ او دھرنے کے اعلانات کررہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کس کو فائدہ ہو تا ہے۔ حکومت اس مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر یہ قدم فوجی حکومت کی جانب اٹھتا ہے۔ اس کا فیصلہ اگست کو ہی ہوگا ۔تاہم یہ طے ہے کہ عمران خان کو اپنے مقصد میں کامیابی نہیں مل پائے گی اور ری الیکشن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپائے گا ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163667 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More