باشعور قومیں اپنے آزادی کے دن کو قومی جوش وخروش ،جذبے اور آزادی کی اقدار
کے مطابق مناتی ہیں ،آزادی کا دن عزم نو،عزم صمیم اور نحیف ارادوں کو پختہ
کرنے کے لیے آتا ہے لیکن افسوس پاکستان میں کچھ طبقات جن کو آزادی جیسی
نعمت کی قدر کا شاہد اندازہ ہی نہیں کہ آزادی کیسے حا صل کی جاتی ہے
،کیونکہ کر حاصل کی گئی ،کس طرح حاصل ہوئی،ملک میں افراتفری ،ہنگامہ آرائی
،تعصب اور عنادکو پروان چڑھار ہے ہیں۔سیاسی درجہ حرات گرم ، کہیں اقتدار کی
ہوس اور سیاست کی آڑ میں چھپا ہوا آزادی مارچ ،کہیں موسمی انقلاب ،کہیں
تبدیلی کے کھوکھے نعرے ،کہیں سیاستدانوں کی مضحکہ خیز خاموشی ،کہیں سیاسی
نجومیوں کی عید قرباں سے پہلے قربانی کی باتیں ، کہیں صوفی محمد کا اسلامی
انقلاب،کہیں مولانا عبدالعزیزکی خود کش بمبار خواتین فوج توکہیں موسمی
انقلاب کی ڈنڈا بردار فورس ،کہیں کوئی اقتدار لینے کی ناکام کوشش میں مصروف
تو کہیں کوئی اقتدار کو بچانے میں مصروف عمل ،کہیں قوم کی تقسیم در تقسیم
،کہیں سیاسی مفاد کی بو، کہیں اے آرڈی اور ایم آر ڈی کی بازگشت ،کہیں جشن
کی بجائے خوف کے سائے واہ پاکستان میں68ویں جشن آزادی کا کیاخوب استقبال
کیاجارہا ہے۔بقول حبیب جالب ــــ’’کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری،کہاں بدلی
ہی تقدیریں ہماری،گھروں کو چھوڑ کرجب ہم چلے تھے،ہمارے دل میں کیا کیا
ولولے تھے‘‘اک طرف ملک خانہ جنگی کا شکار ہے ،پاکستا ن کی معیشت میں ریڑھ
کی حیثیت رکھنے والے شہرقائدکراچی میں لاشوں کا کاروبار عروج پر ،افواج
پاکستان بیک وقت بارڈز پر ہندوستان اور وزیرستان میں ملک دشمن عناصرکے ساتھ
برسر پیکار،نقل مکانی کرنے والے باغیرت اور امن کے خواں پختونوں کا کوئی
پرسان حال نہیں ،دنیا کی نظریں آپریشن ضرب عضب کی کامیابی پر ،لیکن یہ کیسا
انقلاب ،کیونکہ کر انقلاب جس سے شخصیات تو اپنی جگہ خود پاکستان کا وجود
خطرے سے دوچار 14اگست 1947ء کو نہ صرف پاکستان معروض وجود میں آیا بلکہ
برصغیر سے سلطنت برطانیہ کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوا۔14اگست کو پاکستا ن
کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے دور بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ختم ہوئی
،یہ وہ عظیم دن ہے جو ہمیں ہمارے اکابرین کی جدوجہد یاد دلاتا ہے ، آج کے
دن ہم کامل آزادی کی دولت سے مالا مال ہوئے تھے۔اگر ہندوستان کے مسلمانوں
کو قائد جیسا معجز نما اور بلند کردارشخصیت کی قیادت نہ ہوتی تو شاہد ہم
اپنا یہ علیحدہ وطن حاصل نہ کرسکتے ۔ 1947میں انگریزوں اور ہندوں نے
پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی لا شیں اور نہایت ابتر معاشی حالت چھوڑی
تھی لیکن پاکستان کو قائد اعظم جیسی شخصیت کی رہنمائی حاصل تھی چنانچہ آج
ملک میں بدترین سماجی اور معاشی حالت ہے ،امن وامان کی گتھی ایسی کہ سلجھی
ہی نہیں جا رہی،بے روزگاری ،لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا عذاب روکنے کانام ہی
نہیں لے رہا ۔
وطن عزیز کی 68ویں سالگرہ میں ہم اپنی نسلوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں ،کیا
انہی باتوں کے لیے ہمارے اکابرین نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں
،انقلاب تو قائد نے لایا تھا۔انقلاب،تبدیلی اپنی جگہ مگر آزادی کے دن ہی
کیوں۔ حکمرانوں کی عیاشوں ،شراتوں سے قائد کی روح تڑپ تڑپ کر کہہ رہی ہو گی
کہ اسی مقصد کے لیے پاکستان قائم ہوا تھا۔دینا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں
ہوا کہ اپنی آزادی کے دن ہی افراتفری ،ہنگامی آرائی ،سیاسی خلفشار اور
انتشار کو پھیلایا جارہا ہو،جشن آزادی کو دنیا کے سامنے تماشا بنایا جا رہا
ہو۔ہونا تو یہ چاہیے کہ تما م سیاسی ،مذہبی جماعتوں کے قائدین،کارکن ایک
سبز ہلالی پرچم کے نیچے جمع ہو کر دنیا کو پیغام دین کہ ہم ایک امن والی
قوم ہیں ۔قائد اعظم اور برصغیر کے مسلمانوں نے اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی
لیکن ہم نے اس کو مذاق بنا دیا ہے۔اقتدار کی رسہ کشی میں ملک تباہی کے
دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس اہم اور قومی نوعیت کے حامل
دن میں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔14اگست کادن ہم
سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے کس طرح اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر
کے آزادی دلوائی اور ہمیں اتحاد اور یگانگت کا مظاہر ہ کرنا چاہیے،ڈیڑھ انچ
کی مسجد کی بجائے اس دن کو قومی اورملی طور پر منایا جائے ،یہ دن ہم سے
مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے۱ ذاتی اختلافات کو بھلا کر قومی دھارے میں پرویا
جائے ،ایک ملت کی دیوار کو ا ستوار کیا جائے ،یہ دن ہم سے مطالبہ کرتا ہے
کہ اپنے اپنے مفادات،ترجیحات کو ختم کر کے اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
ہم ایک ہیں کی طرح ہونا چاہیے ،خلوص ،اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دنیا
چاہے پاکستان کی سلامتی ،استحکام اور سربلندی کے لیے دعائیں مانگی جائیں ۔ |