اگست کا مہینہ آزادی ،اور قیام پاکستان کا مہینہ ہے لیکن اس سال سیاسی
جماعتوں نے اس ماہ کو بھلا دیا اور سب انقلاب انقلاب کے نعرے لگا کر اپنے
اپنے مفادات کے لئے نکل چکے ہیں،پاکستان میں اسوقت ضرب عضب جاری ہے،افواج
پاکستان کے بہادر جوان ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کر رہے ہیں ایسے وقت میں
تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ضرب عضب کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے تھا لیکن
تحریک انصاف کو ایک سال بعد دھاندلی یاد آئی اور طاہرالقادری بھی انقلاب کے
چکر میں ہیں،گیارہ اگست کو انقلابی مارچ کا اعلان کیا تھا مگر حکومت نے
جناب قادری کو ماڈل ٹاؤن میں ہی کینٹینر ز لگا کر محصور کر دیا ویسے بھی
انہیں کینینٹرز انقلاب کا شوق تھا جو حکومت نے بخوشی پورا کر دیا،پنجاب بھر
میں راستے بند ہونے سے عوامی تحریک کے کارکنان ایسا انقلاب لائے کہ کراچی
کی یادیں تازہ ہو گئیں،لندن میں بیٹھے بابا اور کینڈا سے آئے علامہ میں
کافی چیزیں مشترک نظر آرہی ہیں جو کراچی میں ہوتا ہے کل وہ پنجاب میں
ہوا۔اطلاعات کے مطابق عوامی تحریک کے کارکنوں کے تشدد سے بھیرہ میں ایک
اہلکار جاں بحق ہو گیا جبکہ لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنوں سے تصادم کے
دوران بیہمانہ تشدد سے شدید زخمی ہونے والا پولیس کانسٹیبل دم توڑ گیا۔
متوفی چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور اس کی 4 ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔
کوٹ لکھپت پولیس سٹیشن میں تعینات کانسٹیبل اشرف نارووال کا رہائشی تھا اور
دوران ڈیوٹی جمعہ کی رات عوامی تحریک کے کارکنوں کے پتھراؤ سے شدید زخمی ہو
گیا تھا۔ اسے جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا اور گذشتہ روز کانسٹیبل اشرف زخموں
کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ اہلکار اشرف کا والد درخواست لیکر تھانے
پہنچ گیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ میرے بیٹے کو طاہر القادری کے ساتھیوں نے تشدد
سے قتل کیا ہے اس لئے طاہر القادری پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ اس کی
درخواست پر طاہر القادری اور انکے ساتھیوں پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔
شیخوپورہ میں عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا۔ عوامی تحریک
کے کارکنوں نے مسافر گاڑیوں کے شیشے توڑ دئیے، پولیس نے 10خواتین سمیت 40
افراد کو حراست میں لے لیا۔ لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنوں نے 6 جبکہ
اٹک، جہلم، چکوال میں 19 پولیس اہلکار یرغمال بنائے گئے۔ بھیرہ میں عوامی
تحریک کے تشدد سے زخمی ہونے والے 2 اے ایس آئیز کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد
منتقل کر دیا گیا۔وزیر اعظم میاں نواز شریف نے تحریک انصاف کو مذاکرات کی
دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں انقلاب کے نام پر فساد قابل قبول نہیں،
قانون کی بالادستی اور جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ عمران خان
اپنے مطالبات کے ساتھ ہم سے بات کریں، اسوقت ملک کسی بھی لانگ مارچ کا
متحمل نہیں ہوسکتا ، 10 حلقوں میں دوبارہ گنتی کیلئے کوئی بھی فارمولا تلاش
کرنے کیلئے تیار ہیں، پی ٹی آئی کے مطالبات پر بغیر ہچکچاہٹ بات چیت کرنا
چاہتے ہیں۔ کسی کی بھی جائز شکایت سننے کو تیار ہیں، جو کہتے ہیں ہم انقلاب
لائیں گے پہلے بتائیں کہ انقلاب کیا ہے، سیاست بہت ہو چکی اب ملک کو مسائل
سے نکالنا ہوگا،کوئی مسئلہ عدالتوں کا ہے تو عدالتوں سے رجوع کیا
جائے،حکومت توانائی بحران کیخلاف جہاد کر رہی ہے، وزیراعظم ہاوس میں قومی
سلامتی کانفرنس سے خطاب میں نواز شریف نے کہاکہ آئین اور قانون کی بالادستی
پرکوئی آنچ نہیں آنے دینگے۔ قومی سلامتی کانفرنس میں سندھ، بلوچستان کے
وزراء اعلٰی ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ،ڈی جی آئی آیس آئی
لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اسلام، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار،
وزیر اطلاعات ونشریات سنیٹر پرویز رشید، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، امیر
جماعت اسلامی سراج الحق، پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان
اچکزئی، اے این پی کے مرکزی رہنما حاجی غلام احمد بلور، سینٹرافراسیاب خٹک
،قائد ایوان راجہ ظفرالحق، سنیٹر رضا ربانی،جمعیت علما اسلام (ف) کے امیر
مولانا فضل الرحمن، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما امین فہیم اور متحدہ قومی
موومنٹ کے وفد نے بھی شرکت کی۔ تحریک انصاف نے قومی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا
اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ آزادی مارچ کیلئے پوری
تیاری کر لی ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات اب 14 اگست کے بعد ہی ہوگی کارکنوں پر
گولی چلی تو ذمہ دار حکومت ہوگی، نہتے افراد پر ظلم کرنے والوں کو نہیں
چھوڑوں گا۔ میں نے کوئی پیغام سراج الحق کے ذریعے حکومت کو نہیں بھیجا۔
ہمیں روکنے والا غیرجمہوری اقدامات کریگا جو نوازشریف کے ساتھ ہوگا وہ انکا
درباری کہلائے گا۔ میرے پاس مذاکرات کیلئے کوئی نہ آئے میں فیصلہ کرچکا ہوں
اگر مجھے کچھ ہوا تو ذمے داری نوازشریف پر ہوگی۔ کارکنوں سے کہتا ہوں کہ
مجھے کچھ ہوا تو نوازشریف سے بدلہ لیں۔ حکومت سے مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا،
شریف بادشاہت کا خاتمہ کریں گے، کسی کا درباری نہیں جو حاضر ہوجاؤں۔ عمران
خان نے وزیراعظم نوازشریف کی دس حلقوں میں دوبارہ گنتی کے حوالے سے مذاکرات
کی دعوت کو یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ سکیورٹی کے حوالے سے بلائی گئی
میٹنگ کو وزیراعظم کو سیاسی طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے
کہا کہ ہم 14 ماہ سے چار حلقوں کی بات کررہے تھے اگر وہ انہیں کھول دیتے تو
ہم تمام تر نتائج قبول کرلیتے۔ انہیں آخر اب تک کیوں خیال نہیں آیا، عدلیہ،
پارلیمنٹ اور دیگر ہر دروازے پر ہم گئے اور اب مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا
ہے۔ حکمران جتنے مرضی کنٹینر لگالیں۔ تھانوں میں لوگوں کو ڈالیں یا دیگر
غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کریں ہمارا مارچ ہوکر رہیگا۔ 14 اگست کو میں خود
قیادت کرونگا۔ ہم انکی مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔ تمام جماعتوں
کو مارچ میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ حکمران جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت
کررہے ہیں، ہمارے ساتھ عوام ہیں اسلئے حکمران ڈر رہے ہیں۔ عوام کو پٹرول
نہیں مل رہا۔ تحریک انصاف کا وفد عوامی تحریک سے ملنے جائیگا۔ حکمرانوں کی
ٹانگیں کانپ رہی ہیں مارچ کامیاب ہو چکا۔ طاہر القادری کو گرفتار کیا گیا
تو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔تحریک انصاف کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر
شیریں مزاری نے وزیراعظم نوازشریف کے قومی سلامتی کانفرنس میں بیان پر شدید
ردعمل کا اظہار کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ تحریک انصاف نے 10 حلقوں
میں نتائج کی دوبارہ جانچ پڑتال سمیت وفاقی حکومت سے مفاہمت کی کوئی تجویز
پیش نہیں کی۔ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے قومی سلامتی جیسے حساس معاملے
کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور تصویر کشی کیلئے استعمال انتہائی غیر ذمہ
دارانہ اقدام ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ تحریک انصاف کا آزادی مارچ
ضرور منعقد ہو گا جس میں مطالبات پیش کئے جائیں گے۔
|