’’اگر پاکستان نہ بنتا؟‘‘ - حصہ چہارم

پھر آپ اس معجزے سے کس طرح انکار کر سکتے ہیں کہ نزولِ قرآن اور لیلتہ القدر کی بابرکت ساعتوں میں ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ بمطابق ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا عالمِ وجود میں آنا اﷲ تبارک و تعالیٰ کا مسلمانانِ برِعظیم کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے۔یوں یہ مملکتِ خدادا کہلائی۔ ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسری اسلامی نظریاتی مملکت معرضِ وجود میں آئی۔قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شر انگیزی کیوں کی جا رہی ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیوں ہو رہا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت پر مبنی نہیں ہو گا۔پاکستان میں اسلامی اصول اس طرح نافذالعمل ہیں جیسے ۱۳۰۰ سال قبل نافذ ہوئے تھے ۔‘‘بانی پاکستان کا اشارہ واضح طور پر ریاستِ مدینہ کی طرف ہے۔

قیامِ پاکستان کا پس منظر ہندو کانگریس اور برطانوی سامراج کی مسلم دشمنی کا برِعظیم میں ایک ناپاک گٹھ جوڑ اور بھیانک و سیاہ باب پر مبنی ہے۔۱۹۴۶ء میں لندن کانفرنس کے دوران ہی ایک بڑی سازش کے تحت جواہر لال نہرو کے دیرینہ دوست لارڈ مونٹ بیٹن کا گورنر جنرل مقرر ہونا‘اس سازش میں شریک کرشنا مینن ایک شدت پسند کیمونسٹ لیڈر جس نے بسترِ مرگ سے اس سازش کا انکشاف کیا۔اس نے ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘(Freedom At Midnight)کے ایک مصنفکے سامنے یہ راز بھی افشاء کیاکہ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل مقرر کرانے کی جو کامیاب کاوش ہوئی ‘اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ یہ رازمسلمانانِ برِعظیم کو معلوم نہ ہونے پائے ‘ورنہ ماؤنٹ بیٹن کی افادیت ختم ہو جائے گی۔واقعی راز فاش نہ ہوا‘ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کانفرنس کے سلسلے میں وہاں موجود تھے‘انہیں بھی اس ناپاک سازش کی بھنک تک نہ پڑی۔
ماؤنٹ بیٹن نے ایٹلی وزیر اعظم کی ہدائت کے مطابق پہلے سرتوڑ کوشش کی کہ برِعظیم تقسیم نہ ہونے پائے ۔مسلم لیگ کا سربراہ اورمسلمانانِ برِعظیم کا قائد اعظمؒ محمد علی جناح متحدہ برِ عظیم کے فلسفے کے خلاف ہمت‘شجاعت‘حوصلہ اور عزم کی چٹان بن گیا اور دونوں مسلم دشمن سامراجیوں کو جھکنا پڑا۔تقسیم کا فیصلہ ہوا لیکن اس کے پردے میں وہ سب کچھ کیا جو بقول قائد اعظمؒ محمد علی جناح ’’دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان بنتے ہی گائب(غائب) ہو جائے‘‘۔قائد اعظمؒ محمد علی جناح کے اس وجدان کا ثبوت راقم نے لندن میں دارلعوام کی ڈیبٹ رجسٹر میں دیکھا جس میں وزیر اعظم برطانیہ ایٹلی نے ’’انڈیا انڈیپینڈنٹ بل‘‘(INdia Independent Bill)پر تقریر میں یوں کہا کہ’’برعظیم کو دو ممالک میں تقسیم کرناایک عارضی عمل ہے ‘بہت جلد دونوں ’’دو نیشن ‘‘ایک بڑی ڈومینئن(Dominion) میں متحد ہو کر ’’کامن ویلتھ‘‘ میں شریک ہو جائیں گی۔‘‘(کالم ۱۲۴۶)۔ اس وقت کے حزبِ اختلاف کے رہنما میکڈونلڈ (Macdonald)نے بھی غیر معمولی طور پر وزیراعظم سے متفق ہو کر کہا کہ ’’انڈیا انڈیپینڈنٹ بل‘‘(INdia Independent Bill)میں ایسے جراثیمپائے جاتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک زیادہ دیر تک علیحدہ نہ رہیں گے‘‘(کالم ۱۲۴۲)

برِ عظیم کی آزادی کیلئے دارلعوام میں ۳۰ جون ۱۹۴۸ء تک کی مدت طے پائی تھی‘ماؤنٹ بیٹن نے اس مدت کو مختصر کرکے جلد از جلد آزادی دینے کا فیصلہ کیا ۔برِعظیم کی تقسیم کی خفت کی وجہ سے جلد بازی اس لئے کی کہ پاکستان سنبھل نہ پائے۔قائد اعظمؒ نے اس جلد بازی کی سخت ترین مخالفت کی اور دارلعوام کے فیصلے کی مدت پر قائم رہنے کیلئے زور دیا ۔کسے کیا معلوم کہ اﷲ تعالیٰ برِ عظیم کے مسلمانوں کیلئے کیا عظیم تحفہ دینا چاہتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذاتی خوشی کیلئے برطانوی اور برعظیم کے لیڈروں سے بغیرصلاح و مشورہ کے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کی تاریخ کا اعلان کر دیا ۔ یہ تاریخ وائسرے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی زندگی میں بڑی خوشی کا دن تھا جب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جنگِ عظیم دوم کے دوران برما محاذ کا کمانڈر تھا‘اسی تاریخ کو جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے۔

برعظیم کی آزادی اس سرنڈر کی دوسری سالگرہ کے موقع پر دینا ایک اور تاریخی کامیابی قرار دے کرتاریخ میں خوش قسمتوں میں اپنا نام لکھوانا مقصود تھا۔ اسے کیا معلوم کہ قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی مخالفت کی تو پرواہ نہ کی لیکن ہندو راشٹرکے اصل حکمراں جوتشی اور ستارہ شناسوں کی مخالفت کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔جوتشیوں نے ۱۵ اگست کو’’منحوس‘‘قرار دیدیا۔ہندو رہنما تو خاموش رہے لیکن اس طاقتور طبقہ نے طوفان برپا کر دیا اور بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس مخالف مہم سے بوکھلا گیا۔اس کی بوکھلاہٹ تب کم ہوئی جب جوتشیوں نے ۱۴ اگست کو’’مبارک‘‘قرار دیا۔ بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس سیلاب کو روکنے کیلئے اپنی خواہش کو برقرار رکھتے ہوئے اور جوتشیوں کو بھی تسلی بخش طریقہ بتا کر بڑی چالاکی سے نئی تاریخ یوں پیش کی کہ آزادی کی تاریخ ’’منحوس‘‘کو ’’مبارک‘‘دن کے قریب ترین آدھی رات ۱۴ اور ۱۵ کی درمیانی شب بارہ بجے متعین کر دیا۔ہندو جوتشیوں نے ٹھیک بارہ بجے پوجا پاٹ کے دوران بجانے والا’’سنکھ‘‘بجا کر آزادی کے حصول کا مضحکہ طریقہ اپنایا‘حالانکہ قانون ساز اسمبلی کواقتدار ۱۵ اگست کو ہی منتقل کیا گیااور دوسری طرف پاکستان کو پہلے ہی ۱۴ اگست کو اقتدار اسمبلی کو منتقل کر دیا گیا تھا۔

یہی انسانی مشقیں ہوئیں اور مسلم دشمن ‘بزدل اور مکار بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود ہی اس ساعت کی طرف کھنچ کر آگیاجو اﷲ تعالیٰ کو منظور تھا۔یوں ۱۴ اور ۱۵اگست کی درمیانی رات ۲۷ رمضان المبارک کا آغاز ۱۴ اگست کو مغرب غروبِ آفتاب سے شروع ہوا۔اسی رات نزولِ قرآن اورلیلتہ القدر کی مبارک ساعتیں آن پہنچیں‘اور وہی ہوا جو منظورِ خدا تھا۔ انہی بابرکت ساعتوں میں پاکستان عالمِ وجود میں آگیااور مملکتِ خداداد کہلایا۔۱۴ اگست ۱۹۴۷ء قیامِ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ اسی کے مطابق ہے جو ہجری سال ۱۳۶۶میں ۲۷ رمضان المبارک کو ظہور پذیر ہوا۔اس کی دینی فضیلت تو عالمِ اسلام میں نمایاں ہے اور اس کی ملی اہمیت بھی بہت اہم ہے۔ ۲۷ رمضان المبارک کے حوالے سے قیامِ پاکستان کی اہمیت کو نئی نسل تک روشناس کرانے اور اس پر عمل کرنے کیلئے قومی سطح پر جنگی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی جو اشد ضرورت تھی ‘ قائد اعظمؒ محمد علی جناح کے جلد انتقال کے بعد ہمارے بے عمل اور لالچی حکمرانوں نے اس پر بھرپور توجہ نہیں دی لیکن میرا وجدان اب بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب بھی اگر قدرت کی طرف سے عنائت کردہ اس معجزہ نما ریاست کیلئے ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس کا ہم نے اپنے پروردگار سے وعدہ کیا تھا تو ہم یقینا اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں ۔

بقول قائد اعظمؒ محمد علی جناح ’’پاکستان منزل نہیں بلکہ منزلِ مقصود کا وسیلہ ہے۔‘‘’’پاکستان اسلام کا قلعہ ہے‘‘اور یہ قلعہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کی گولہ باری کی شدید زد میں ہے۔ اسے محفوظ کرنے کیلئے عوام جو طاقت کا سرچشمہ ہیں انہیں واپس انہی اصولوں کی طرف لوٹنا پڑے گا جس کا ربِ کریم نے حکم دے رکھا ہے۔بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اﷲ کی غلامی میں دینا ہو گا اور اس کیلئے قرآن و سنت کے سر چشمے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔جس دن ہم اس مغربی جمہوریت کے فریب سے نکل کرصرف قرآن کواپناآئین مان کر واقعی قرآن و سنت کو اپنی زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کر لیا اور محمد عربیﷺ کو اپنا رہبر مان لیا تو یہ قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار کی طرح کامیابی و کامرانی کے تمام مدارج طے کرلے گی۔اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو!ثم آمین

اب بھی وقت ہے‘دوست دشمن کی تمیز میں فرق کرنا ہو گا۔کچھ نہیں بچے گا،صرف میرے رب کا نام جو حیی القیوم ہے اور جس نے اس دنیا کے نقشے پر پاکستان جیسی مملکت کو معجزاتی طور پر ظہور پذیر کیا ہے۔
اک سوال کے اندر ہم نے کاٹی نصف صدی
باندھے لاکھوں حساب
غلط ہی نکلاہر اک حل کا لیکن انت جواب
ضرب جمع تفریق کے سارے کلئے برت لئے
ازروئے تحقیق
ہر کوشش میں ہو جاتا ہے کچھ نہ کچھ تفریق
دیکھ تو کتنا اونچا ہے یہ ردی کا انبار
تو ہی اب کچھ رحمت کر اے ربِّ غفار
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.