آزادی مارچ، انقلاب مارچ اور یوم آزادیِ پاکستان؟

اتنی قلیل مدت میں کسی بھی منتخب حکومت کے خلاف لوگوں کا متنفر ہونا ایک منفرد واقعہ ہے۔ یہ بھی منفرد واقعہ ہے کہ عین انتخاب کے آخری لمحے پر کوئی سیاسی لیڈر یہ بیان آن ائیر کر دے کہ مجھے پارلیمنٹ میں اکثریت چاہیے۔ اگر راز کو راز رکھنا کا گر جانتے ہوتے تویہ بھی بیان دیا جا سکتا تھا کہ ہم اکثریت سے کامیاب ہونگے تو بات بن جاتی۔ اُدھر نمبر بنانے کے چکر میں۳۵ پنکنچرز لگانے کے کوڈ ورڈ ز بھی اپنا کام کر گئے اور راز فاش ہو گیا۔ کراچی میں تو دھاندلی اور ظلم کی انتہا کر دی گئی اور جماعت اسلامی کو انتخابات کا بائی کاٹ کرنا پڑا۔۴ حلقے نہ کھول کر بھی غلطی کر دی گئی۔ عمران خان کے خیالات سے محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب کو جس نادیدہ قوت سے پارلیمنٹ میں اکثریت مانگ رہے تھے اُ س نے اُنہیں پارلیمنٹ میں اکثریت دلائی تھی ۔ بدقسمتی کہیے یا نواز شریف صاحب کی بے تدبیری کہ وہ ملک کے حساس ادارے سے بھی اُلجھ پڑے۔ایک قوم پرست صحافی کے برخوردارجو کالمسٹ اور ٹی وی اینکر بھی ہیں کے واقعے کو مس ہینڈلنگ کرتے ہوئے گرداب میں پھنس گئے۔ایک ٹی وی چینل نے جس طرح ملک کے قابل قدر ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ پر بغیر ثبوت کے گھنٹوں الزام تراشی جاری رکھی تھی تو اِس الزام ترشی کی مخالفت کو کنٹرول کرنا حکومت کام تھا کیونکہ ملک کے ادارے حکومت کے ادارے ہوتے ہیں مگر حکومت ایسا نہ کر سکی بلکہ غیر محسوس طور پر ٹی وی چینل کی حمایت کو بھی عوام نے صحیح قدم نہ سمجھا۔ آئی ایس آئی کے حق میں عوام نے ملک بھر میں احتجاج شروع کر دیا ۔حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ملک کے کیبل آپریٹروں نے جب جیو ٹی وی کے ملک دشمن اور مذہب دشمن پروگرام کے خلاف ہو گئے تھے اور جیو کو آن ایئر کرنے سے انکار کیا توآزادی اظہار کے نام پر ان کی گرفت کی گئی جو نادانی تھی۔ کیاآزادی کے نام پر ملک دشمنوں کے سامنے اپنے قابل قدر ادارے آئی ایس آئی کو بدنام کرنا آزدی اظہار ہے؟ ملک میں بیرروزگاری پہلے سے زیادہ ہو گئی۔ لوگ مہنگاہی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس کا ادراک کرنے کے بجائے حکومت چین سے گوادر سے کوری ڈور بنانے کے منصوبے بنا تی رہی ۔یہ ایسا ہی ہے کہ بھوکوں کو روٹی نہیں مل رہی اور انہیں بسکٹ کھانے کا کہا جا رہا ہے۔چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ نہ ختم کی تو میرا نام بدل دیں کے نعرے لگا کر اقتدار تو حاصل کر لیا مگر سوا سال گزر گیا لوڈ شیڈینگ میں ذرا برابر فرق نہیں آیا۔ ملک کی انڈسٹری پہلے سے زیادہ بد حال ہو گئی۔ ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کئے گئے مگر بودے طریقے سے ڈیل کر کے وقت ضائع کیا گیا اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ کراچی ایئر پورٹ حملے میں بیرونی عناصر ملوث تھے۔ حملے کے فوراً بعد فوج نے شمالی وزیرستان آپریشن شروع کر دیا۔ اس سے ایک مخصوص لابی تو خوش ہو گئی مگر تاریخ سے واقف لوگ کہتے رہے ہیں کہ کیا گوریلا جنگ جو دشمنوں نے ہمارے ملک پر مسلط کر دی ہے اور ہماری فوج کو اُلجھا دیا اس سے نکلنے کا طریقہ مذاکرات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کیا امریکہ ویت نام کے گوریلوں سے جیت سکا تھا؟ کیا امریکااب بھی افغانستان میں بھاگنے کے راستے تلاش نہیں کر رہا؟ امریکا اِس آپریشن کے لیے سالوں سے کوشش کرتا رہا ہے جس کااظہار فوج کے شعبہ اطلاعات کے سابق سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے پریس میں انکشاف کیا تھا۔ مگر فوج ایسا کرنے سے رُوکی رہی۔امریکا کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ اپنی گریٹ گیم کے تحت پاکستانی فوج کو اپنے ہی ملک میں اپنوں سے ہی اُلجھا دیا جائے۔ حکومت کا یہ حال ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے دو دن بعد اُس نے اِسے اُون کیااورپا رلیمنٹ میں وزیر اعظم صاحب نے خطاب کیا۔ دہشت گردی کو جڑ سے اُکھڑنے کی بات کی جو اپنی سیاسی برتری ثابت کرنے کے لیے اس سے پہلے بھی کی جا سکتی تھی۔ طاہرالقادری صاحب کی جنگ جویانا انقلابی مہم کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ گلو بٹ جیسے کردار نے حکومت کو بدنام کیا۔حکومت اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت کی ذمہ دارہوتی ہے نہ کہ اختلافات کی بنا پر انہیں جان سے مار دے۔ پہلے طاہرالقادری صاحب کے ۱۲ کارکن ہلاک ہوئے اب یوم دعاء پر بقول طاہر القادری صاحب کے چار مذید کارکن ہلاک کر دیئے گئے۔ اس سے طاہرالقادری صاحب کے جنگ جویانا انقلامی مہم کو مہمیز ملی۔ عمران خان صاحب کے آزدای تحریک کو بھی مذاکرات سے حل کیا جا سکتا تھا مگر حکومت کی سرد مہری نے حالات خراب سے خراب تر کر دیئے۔ اب ایک طرف عمران خان صاحب آزادی مارچ، طاہرالقاری صاحب انقلاب مارچ کو اسلام آباد کی طرف کال کا حکم دے چکے ہیں اور یک جان ہو گئے ہیں۔ ان کی حمایت میں چوہدری برادران جو ۱۰ مرتبہ فوجی وردی میں صدر چننے کا ریکارڈ بیا ن دے چکے ہیں ۔ اس تحریک میں دل و جان سے شریک ہو چکے ہیں۔ شیخ رشیدصاحب اپنی جماعت کے اکلوتے لیڈرتو ہر برات کے براتی بننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں اب پھر افراتفری پیدا کرنے میں اتحادی بن چکے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل ،مجلس وحدت امسلمین بھی قادری صاحب کے ساتھ ہیں۔

قارئیں! جماعت اسلامی ،پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اپوزیشن کی سب پارٹیوں نے کہا ہے کہ پرامن مارچ کرنا سب کا جمہوری حق ہے۔ حکومت کو اس روایات برقرار رکھنا ضروری ہے ۔اس لیے حکومت کو احتجاج کے لیے کھلا راستہ دینا چاہیے اور رکاوٹیں ہٹا دینی چاہیں۔ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ معزز عدلیہ نے احتجاج روکنے کی درخواست پر بھی حکم جاری کیا ہے کہ حکومت سیاسی پارٹیوں سے امن و امان کے لیے رابطہ کرے۔ مگر حکومت نے بھی لاہور میں مظاہرہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو اس وقت مناسب نہیں۔ پہلے ہی حکومت کی غلط سیاسی غلطی کی وجہ سے طاہرالقادری صاحب اور عمران آپس میں مل گئے ایم کیو ایم نے بھی کھاناپہنچانے کے معاملے پر دھمکی دی تھی ۔ صاحب عمران خان صاحب اور طاہرالقادری صاحب کو اپنے کارکنوں کو بھی پرامن رہنے کا کہنا چاہیے۔ مگر عوام نے محسوس کیا ہے کہ عمران خاں صاحب اور طاہرالقادری صاحب کے بیانا ت کارکنوں کواُکسانے کا موجب بن رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ طاہر القادری صاحب کی جماعت کے ساتھ حکومت نے زیادتی کی ہے۔ لیکن یہ ملک سب کا ہے اس وقت سمجھداری اور صبرکا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔مگر بدقسمتی ہے کہ طاہرالقادری صاحب نے تو آگ بھڑ کا دی ہے۔ اگر سیاست دانوں نے پرامن رہ کر سیاسی معاملات نہ چلائے تو فوج جو دہشت گردوں کے خلاف ضربِ عضب میں مصروف ہے کو حسب روایات مداخلت کرنی پڑے گی جو یقیناً ایک ناپسندیدہ اقدام ہو گا ۔ عوام بصد مجبوری اس کا خیرمقدم کریں گے۔ اور حالات سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں اور دشمن یہی چاہتے ہیں۔ ہماری فوج کو بھی چاہیے کی وہ غیر جانبدار رہے۔ اسی میں اس کی عزت اور ووقار ہے۔ احتجاج کرنے والوں دونوں صاحبان سے درخواست ہے اپنی انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کر کے یوم آزادی کے دن اسلام آباد کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں اور دنیا میں بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ اپنے احتجاج کو یوم آزادی ۱۴؍ اگست سے کسی آگے کی تاریخ تک لے جائیں تاکہ ساری قوم یک سو ہو کر یوم آزادسی کی خوشیاں منائیں۔اﷲ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094146 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More