آزادی و انقلاب مارچ ....انجام گلستاں کیا ہوگا؟
(عابد محمود عزام, karachi)
14 اگست کے روز لاہور سے چلنے
والے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے شرکا حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے پر
عزم ہیں۔ حکومت کے مطابق لاہور سے نکلتے وقت انقلاب مارچ میں شریک افراد کی
تعداد 7 ہزار اور آزادی مارچ میں 10 ہزار تھی، جبکہ پی ٹی آئی کے مطابق 50
ہزار اور پی اے ٹی کا دعویٰ ایک لاکھ افراد کا تھا۔ جوں جوں دونوں مارچ
اسلام آباد کی جانب بڑھتے رہے توں توں ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔
آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین و سابق صدر پرویز مشرف نے بھی ڈاکٹر طاہر
القادری کے انقلاب مارچ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کارکنوں کو ہدایت کی
کہ کارکن انقلاب مارچ میں بھرپور شرکت کریں۔ راستے میں کچھ ناخوشگوار
واقعات بھی پیش آئے۔ گوجرانوالہ شہر میں پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ
کے شرکاءاور مسلم لیگی کارکنوں میں مختلف مقامات پر تصادم ہوا، جس میں کئی
افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید
کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ پر حملے سے ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا ہے،
اب فوج کو مداخلت کرنی ہی پڑے گی۔ پہلے تو مجھے شک تھا کہ کہیں یہ قربانی
کا بکرا بھاگ نہ جائے، لیکن اب یقین ہو چکا ہے کہ یہ قربانی ہر حال میں ہو
کر رہے گی۔ خیال رہے کہ یوم آزادی کے موقع پر بلوچستان میں قائداعظم محمد
علی جناح کی ریزیڈینسی کی بحال شدہ عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستان کے
وزیراعظم محمد نواز شریف کا کہنا تھا کہ اصل آزادی مارچ بلوچستان میں فوجی
اور سیاسی قیادت نے مل کر منایا ہے۔ زیارت کے دورے کے دوران پاکستانی فوج
کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف
نے تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کو تنقید کا
نشانہ بناتے ہوئے انھیں منفی اقدام قرار دیا۔ واضح رہے کہ حکومت کسی حال
میں بھی دونوں مارچوں کو اجازت دینے پر رضا مند نہیں تھی۔لیکن تجزیہ کاروں
کے مطابق اجازت دیتے وقت حکومت کافی حد تک مطمئن نظر آرہی تھی۔ دونوں
جماعتوں اور حکومت کے درمیان کسی طرح کے معاہدے کی تصدیق تو نہیں ہوئی،
لیکن غور کرنے سے حکومت کے مطمئن ہونے کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں، جن کی
وجہ سے حکومت کو کھویا ہوا اعتماد واپس ملا۔ اول، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ،
جس کی وجہ سے واضح طور پر وزیراعظم کے استعفے، موجودہ الیکشن کمیشن کے
ممبران کو ہٹانے، قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے
قیام کے مطالبات کو مسترد کردیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے مطابق ان مطالبات
کے حصول کے لیے کیے جانے والے لانگ مارچ غیر آئینی ہیں اور ان کی اجازت
نہیں دی جا سکتی۔ جبکہ جمعہ کے روز عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ کوئی ریاستی
ادارہ ماورائے آئین اقدام کرے تو یہ آئین سے غداری ہوگی۔ عدالت مین دائر کی
گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملکی حالات خراب اور بنیادی
حقوق معطل ہیں۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ مظاہرین منتخب حکومت کے
خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ تمام ریاستی ادارے اور
عہدیدار آئین اور قانون کے علاوہ اکتیس جولائی دو ہزار نو کے عدالتی فیصلے
کے بھی پابند ہیں، اس فیصلے میں عدالت پہلے ہی ماورائے آئین اقدامات کے
خلاف حکم امتناعی دے چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مارچوں کو اجازت ملنے کی دوسری وجہ مارچوں سے قبل 24
گھنٹوں کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کی تین سرکاری
تقریبات میں ہونے والی ملاقاتوں کی وجہ سے پر اعتماد ہونا ہے۔ ان تقریبات
میں وزیراعظم نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے موضوعات پر بھی بات کی۔
تقریب میں موجود فوجی افسران اور جرنیلوں نے وزیراعظم کے خطاب کی تعریف کی۔
وزیراعظم نواز شریف اور نواز لیگ کے چند سینئر رہنما بھی جنرل راحیل کی
پیشہ واریت پر مکمل بھروسے کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر
داخلہ کی جانب سے بدھ کو جنرل راحیل سے کی جانے والی ملاقات اور اس کے بعد
وزیراعظم اور آرمی چیف کی یکے بعد دیگرے تین سرکاری تقریبات میں ایک ساتھ
شرکت بھی ایسے لوگوں کے لیے ایک پیغام سمجھا جا رہا ہے، جو ناراض عناصر ہیں
اور فوجی اور سویلین قیادت میں کشیدگی چاہتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اب عمران
خان اور طاہر القادری کے لیے سب سے بڑا چیلنج کیے گئے وعدوں کو سچ کر
دکھانا ہے۔ حالانکہ وہ جس راستے کا انتخاب کر چکے ہیں ،لاہور ہائی کورٹ کے
مطابق وہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے
باوجود، عمران خان مسلسل وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور
چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبران کو ہٹایا جائے۔ عمران خان
اور طاہر القادری نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے، جب
تک حکومت کا تختہ نہیں الٹ جاتا۔ قادری نے تو اپنے مقلدین سے یہ تک کہہ دیا
تھا کہ اگر لانگ مارچ میں عمران خان اور طاہر القادری میں سے کوئی بھی خالی
ہاتھ واپس لوٹے تو اسے قتل کردیا جائے، لیکن ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک
انصاف اورن لیگ کے درمیان معاہدے کے بعد تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو اسلام
آباد میں داخلے کی اجازت عمران خان کے مائنس نواز شریف فارمولا چھوڑنے پر
رضامند کی وجہ سے ملی ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ اپوزیشن جماعت وفاقی
دارالحکومت میںایک یا دو روز دھرنا دے گی۔ کامیاب مذاکرات کے بعد
شرکاءپرامن طورپر منتشر ہو جائیں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں اعلیٰ سطح کے
حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت اور پاکستان تحریک انصاف وفاقی دارالحکومت میں
کسی قسم کی گڑبڑ نہ ہونے اور کسی مائنس فارمولے کے بغیر پرامن دھرنے سے
متعلق سمجھوتے تک پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ”دونوں فریق حکومت کے
لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرنے اور کچھ مطالبات تسلیم ہونے کے بعد پرامن طور
پر منتشر ہونے پر متفق ہوگئے ہیں۔ حکومت نے بیک چینل مذاکرت کے ذریعے تحریک
انصاف کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ مطالبات پر پوری طرح
عمل کیاجائے گا، جبکہ نوازشریف کے استعفے کے ان کے مطالبے پر کبھی عمل نہیں
ہوگا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ
وزیراعظم کے استعفیٰ دینے یا مڈ ٹرم انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ذرائع کاکہنا تھا ”موجودہ سیاسی انتشار ن لیگ یا تحریک انصاف کا مسئلہ
نہیں، بلکہ ہردوسرے اداروں اور صوبوں کے لیے بڑا مسئلہ پیدا کر رہاہے۔ یہ
تمام قوتیں اس ایشو کو مزید بڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتیں، کیونکہ بالآخر
نقصان ملک کو ہوگا اور عمران خان کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا“ اگر محاذ
آرائی یا انتشار کے کوئی امکانات موجود ہوتے تو کم از کم جاوید ہاشمی جو
چھوڑ کر جا چکے تھے، اس کے بعد کبھی لانگ مارچ میں واپس نہ آتے۔ جاوید
ہاشمی کے ایک قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے عمران خان کی اس یقین دہانی کے
بعد مارچ میں جانے پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ سسٹم پٹری سے نہیں اتاریں گے
اور ان کا لانگ مارچ اور دھرنا پر امن رہے گا۔
دوسری جانب دنیا کا معتبر برطانوی جریدہ اکنامسٹ ”خان کے غضب“ نامی مضمون
میں لکھتا ہے کہ سابق کرکٹر اور ایک ”عالم“ ملک (پاکستان) کی نازک جمہوریت
کو لپیٹنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ایک سابق پلے بوائے کرکٹر عمران خان ایسے
سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جو اچھے نظریات رکھنے کی بجائے لوگوں
کے جذبات کو ابھار کر حمایت حاصل کرتا ہے۔ وہ فوج کی حمایت سے اسلام آباد
پر قبضہ کرنے کے پر تول رہا ہے۔ 2011 میں قاہرہ کے تحریر چوک کی طرح عمران
خان کے ساتھی شاطرانہ انداز میں احتجاج کو طوالت دیں گے۔ عمران خان کے مارچ
کی طرح ماضی کے لانگ مارچز کی حقیقت یہ رہی کہ انہوں نے حکومتوں کو عدم
استحکام کا شکار کرکے آخر کار حکومتوں کوختم کردیا۔ اس مارچ کی جو بات
ناقابل یقین ہے وہ طاہر القادری کا اس میں کودنا ہے۔ جریدے کے مطابق اگر
حالات پر تشدد ہو گئے تو فوج کے آنے کے امکان ہیں۔ گزشتہ دورکے طرز عمل سے
فوج اقتدار لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوگی، کیوں کہ وہ شمالی وزیرستان میں
طالبان کے ساتھ آپریشن میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ امکان ہے کہ فوجی
بغاوت سے اربوں ڈالرکی واپسی ہو جائے گی، جو اس وقت فوج کی امداد کے لیے
ضروری ہے۔ اس کے باجود فوج کے پاس مصیبت میں گھرے وزیراعظم کو مزید کمزور
کرنے کا موقع ہے۔جریدہ لکھتا ہے کہ جب گزشتہ برس نواز شریف نے بھاری اکثریت
سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو کئیوں نے یہ امید لگالی کہ پاکستان اب
نئے جمہوری دور میں داخل ہوچکا ہے، اب گلیوں میں کوئی افراتفری نہیں ہوگی،
جس سے جرنیلوں کو دخل اندازی کی ضرورت پڑتی تھی۔ یہ انتخابات تاریخ کے ایک
سنگ میل تھے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری قوت کو اقتدار
منتقل کیا۔ قابل افسوس کہ پاکستان کے جمہوری عمل میں بار بار مداخلت سے
سیاسی منظر نامے پر کوئی حکومت اپنا دور مکمل نہیں کر پائی۔
|
|