کیا پاک فوج کے نمائندے ہی رہ گئے ہیں جو
پاکستان کے خلاف کسی پروپیگنڈے کا جواب دیں گے۔ امریکی صحافی نے اس بار
ہمارے ایٹمی اثاثوں کے لئے حد کر دی ہے۔ ہم پر طنز تنقید اور توہین کے
امریکی کوڑے برسائے جاتے رہتے ہیں۔ اس بار صاف صاف سیمور ہرش نے لکھ دیا ہے
کہ ہمارے ایٹمی اثاثے اب امریکی حفاظت میں ہیں۔ حفاظت کا لفظ اس نے تحویل
کی طرح استعمال کیا ہے۔ بے چارے پاکستانی ایٹم بم بنا سکتے ہیں اس کی حفاظت
نہیں کر سکتے…؟ امریکیوں کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا بڑا خیال ہے۔ یہ
ایٹمی اثاثے خطرے میں ہیں یعنی ان سے دنیا کو خطرہ ہے۔ یہ خطرہ ایران سے
بھی ہے۔ عراق اور لیبیا سے بھی تھا۔ اسرائیل کے پاس سینکڑوں ایٹم بم ہیں۔
اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ بھارت سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان
کو بھی خطرہ نہیں۔ اس کی تائید صدر زرداری نے کر دی ہے۔ پاکستان کو خطرہ
نام نہاد طالبان سے ہے اور وہ امریکہ اور بھارت کے تیار کردہ ہیں۔ ہمیں
خطرہ امریکہ اور بھارت سے ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کو امریکہ نے اپنا
نمائندہ بنا لیا ہے جیسے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل عربوں پر بھاری ہو گیا ہے۔
آخرکار ہمارے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت بھارت کرے گا۔ ایٹمی اثاثے خدانخواستہ
ہوں گے نہیں تو حفاظت کس کی ہوگی۔ کسی حکومتی اہلکار نے کوئی ردعمل ظاہر
نہیں کیا۔ یہ امریکہ کی تصدیق ہے یا تائید؟ قومی اسمبلی میں فرینڈلی
اپوزیشن کے تھوڑے بہت شور شرابے پر پیپلز پارٹی کے لوگ سر جھکائے خاموش
بیٹھے رہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے پہلے صدر زرداری کو پرویز مشرف کی گالم
گلوچ کا بھی جواب نہیں دیا تھا۔ لاہور میں مظاہرے کے دوران مشرف کا پتلا
جلاتے ہوئے خود کو بھی جلا لیا۔ یہ خودسوزی ہے یا خودکش حملہ۔ ایٹمی اثاثوں
کے لئے کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ ابھی تک پرویز مشرف یا صدر زرداری کی طرف سے
کوئی تردید نہیں آئی۔ دونوں بڑے سازشی انداز میں خاموش ہیں۔ ابھی تو
سیمورہرش کو پرویز مشرف نے صدر زرداری کے خلاف اصل باتیں بیان کرنے سے منع
کر دیا اور وہ منع ہو گیا۔ سی مور ہرش کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بہت
سینئر اور قابل اعتماد صحافی ہے۔ صحافت کی باریکیوں اور وقار کو جانتا ہے۔
جنرل حمید گل نے بتایا کہ ایک بار وہ افغانستان کے لئے کوئی رپورٹ شائع
کرنا چاہتا تھا میں نے منع کیا تو وہ منع ہوگیا۔ سابقہ سیکرٹری خارجہ اور
بہت رازدار سیاستدان اکرم ذکی نے بھی سیمور ہرش کی تعریف کی ہے کہ وہ کوئی
بات یونہی نہیں لکھتا۔ اندر کی بات پوری یکسوئی اور یقین کے ساتھ لاتا ہے۔
یہ بات صرف یہودی لابی اور امریکی میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ نہیں۔ کوئی بات
درمیان میں ہے۔ کیا ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اب واقعی خطرہ ہے؟ اس کے مطابق
امریکی لوگ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد یا قرب و جوار میں موجود
ہیں۔ وہ کسی ایٹمی ایمرجنسی میں پاکستان کی مدد کریں گے۔ کوئی پوچھے کہ
ایمرجنسی پلس کے بعد یہ ایمرجنسی مائنس ہو گی۔ اس کا مائنس ون مائنس ٹو اور
مائنس آل سے کیا تعلق ہے یا محض ڈراوا ہے کہ پاکستانی سویلین حکمران امریکہ
کی باتیں پوری کرتے جائیں۔ امریکیوں کی اسلام آباد میں موجودگی تو ثابت ہے۔
وہ بغیر کسی اجازت کے دندناتے پھرتے ہیں۔ دو چار بار پکڑے گئے۔ اسلحہ اور
طالبانی لباس کے ساتھ وہ کیا کر رہے تھے اور کدھر جا رہے تھے۔ انہیں رحمٰن
ملک کی ہدایت پر آئی جی اسلام آباد کے حکم پر چھوڑ دیا گیا۔ تفتیش بھی نہیں
کی گئی۔ آئی جی اسلام آباد کہتا ہے کہ میں نے اپنے صوابدیدی اختیارات سے
انہیں رہائی دی ہے۔ میرا واسطہ وزیر داخلہ سے ہے جس میں وزیراعظم مداخلت
نہیں کر سکتا۔ سہالہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر بھی امریکی بری طرح قابض ہیں اور
وہاں سے کہوٹہ لیبارٹریز چند کلومیٹر ہے۔ اس معاملے سے آئی جی پنجاب کو
باخبر کر دیا گیا ہے۔
جنرل طارق مجید کا بیان بہت حوصلہ افزا اور مؤثر ہے۔ عوام نے سکھ کا سانس
لیا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکی ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اتنا
کچھ ہی جانتے ہیں جتنا وہ اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان کے اندازے بعض اوقات بلکہ
اکثر اوقات خطرناک حد تک درست ہوتے ہیں۔ اب تو اندازوں اور اندیشوں میں فرق
مٹ گیا ہے۔ حکام اور عوام اس حوالے سے کس حال میں ہیں
تو اور آرائش خم و کاکل .................... میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
ہمارے سویلین حکمران اور صدر زرداری کس ارادے میں ہیں اس کا اندازہ تو جنرل
صاحب کو ہوگا کہ صدر زرداری کو بڑی تشویشناک امریکی تائید حاصل ہے۔ یہ وقت
نظام اور حکومت بچانے کا نہیں وطن بچانے کا ہے اور اس کے لئے ایٹمی اثاثوں
کو بہت اہمیت حاصل ہے کہ اس کے بغیر ہم بچ گئے تو یہ بچت کس کے کام آئے گی۔
جن سیاستدانوں کو اقتدار کا انتظار ہے وہ کس قطار میں لگے ہوئے ہیں۔
جی ایچ کیو پر حملے کے بعد ہمارے حکومتی٬سیاسی حلقے اور امریکی اور بھارتی
حلقے کہہ رہے ہیں کہ اب ایٹمی اثاثے کس طرح محفوظ ہیں؟ اس میں ہیلری کا
بیان بہت مضحکہ خیز اور معنی خیز ہے جی ایچ کیو پر حملے کے باوجود پاکستان
کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب امریکی اس حفاظت کے
لئے پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے سوڈان‘ کینیا‘ عراق اور لیبیا میں کامیاب
کارروائیاں کی ہوئی ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے جنرل طارق مجید کے لئے
تعریفی کلمات کہے مگر میری گزارش بھی سنیں کہ اسلام آباد میں بریگیڈیر
صاحبان کے لئے ٹارگٹ کلنگ کیا ہے؟ کیری لوگر بل کے لئے فوج کے تحفظات کا
کیا ہوا؟ سیمور ہرش کہتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں تمام
بنیادی معلومات امریکہ کو دیدی گئی ہیں۔ یہ بات پہلے نہیں کی گئی تھی۔ سب
کیا دھرا تو مشرف کا ہے۔ صدر زرداری اس کے ارادوں اور پالیسیوں کے تسلسل کے
ساتھ چل رہا ہے۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ صدر مشرف سے آگے نکل گیا ہے۔ آخر
مشرف کو صدر زرداری کے خلاف یہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسے گھٹیا٬
معمولی اور دھوکے باز کہنا مگر اسے غیر محب وطن کیوں کہا۔ زرداری اور مشرف
دونوں ایک دوسرے کے محسن ہیں۔ صدر زرداری نے کسی ’’مصلحت یا مفاہمت‘‘ کے
تحت بھی مشرف کے خلاف کوئی بات کبھی نہیں کی۔ کسی عام آدمی کو بھی یہ بات
کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ کسی سربراہ مملکت کے لئے یہ معمولی بات نہیں۔ کسی عام
سے سیاستدان کو بھی غیر محب وطن کہہ دیا جائے تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو
جاتا ہے۔ صدر زرداری غیر محب وطن ہے اور وہ بھی مشرف کے بقول… خدا کرے ایسا
نہ ہو کہ پاکستان کے اندر بھی یہ باتیں ہونے لگیں۔ وہ اپنے بارے میں ایسا
نہ ہونے دیں جو انہیں تاریخ میں ایک اچھے آدمی کے طور پر یاد نہ رکھے۔
پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کو کچھ نہیں ہوگا مگر صدر زرداری کے پاس
کچھ نہیں رہے گا۔ پوری دنیا میں انہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ اسے شاہ
ایران مرحوم کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ دفاعی ماہر ماریہ سلطان نے
ایک معاصر روزنامہ کو انٹرویو کے دوران کہا کہ پاکستانی حکمران یعنی صدر
زرداری سے کوئی کہے کہ امریکہ سے روابط میں احتیاط کی جائے۔ کیری لوگر بل
کے تحت امریکہ ہماری ایٹمی صلاحیت کے خلاف جال بنا رہا ہے۔ |