پاکستان بننے کے 66 سال بعد پہلی مرتبہ 2008-2013
کی خالصتا“ غیر فوجی اسمبلی نے اپنی مقررہ معیاد پوری کی اور اسکے مثبت
نتائج بھی فورا“ ہی مل گئے۔ وہ اس طرح کہ اپنے 5 سالہ دورِ حکومت میں پیپلز
پارٹی اور اسکی اتحادی جماعتیں عام آدمی کو کوئی ریلیف نہ دے سکنے اور غیر
اطمینان بخش کارکردگی کے باعث عوام کے ہاتھوں بُری طرح مسترد کردی گئیں (صرف
ایک اتحادی پارٹی اپنے مخصوص حلقوں سے کامیاب ہوئی، لیکن اس پارٹی کے اپنے
اندرونی حلقے اندرونِ خانہ یہ تسلیم کرتے ہیں کے اگر خفیہ ہاتھ کا تعاون نہ
ہوتا تو وہ بھی دو چار سیٹیں چھوڑ کر شکست کھا چکے تھے)۔
ماضی کے برعکس کسی بالاتر ادارے کی معاونت سے اُس حکومت کو قبل از وقت
برطرف نہیں کیا گیا تھا اس لئے انکو ماضی کی طرح مظلوم بننے کا موقع بھی نہ
مل سکا۔ لیکن افسوس ہے کہ کچھ عاقبت نا اندیش جماعتیں ایک بار پھر موجودہ
حکمراں جماعت کو اسکی مقرر شدہ معیاد سے قبل ہٹاکر مظلوم بنانا چاہ رہی
ہیں۔ اور اپنی راہ خود کھوٹی کر رہی ہیں۔
مجھے اور بین الاقوامی سیاسی نظام کا مطالعہ کرنے والے طالبعلموں کو یہ
کہنے میں کوئی تامّل نہیں کہ اگراپنے مقررہ وقت پر بدعنوانیوں سے پاک عام
انتخابات مسلسل اور بلا تعطّل ہوتے رہیں تو پاکستان کی کھوٹی تقدیر بہت جلد
بدل سکتی ہے۔ ماضی میں بالاتر قوتوں کی سیاسی نظام میں بار بار کی بالواسطہ
یا بلا واسطہ مداخلتوں نے پاکستان کے سیاسی و معاشی نظام کو شدید نقصان
پہنچایا، جس سے پاکستانی عوام کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
لہٰذا دھرنے اور مارچ کرنے والی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے میری درخواست ہے
کہ وہ حکومت کو اس حد تک مجبور کردیں کہ تمام بڑی اور اہم جماعتوں کی
تجاویز کی روشنی میں وہ آئین میں فوری ترمیم کرے جسکے مطابق (1) اب “ہر چار
سال بعد“ قومی اور صوبائی عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات ایک مخصوص
مقررہ تاریخ پر کرائے جانے چاہیئں اور (2) یہ انتخابات شفاف اور دھاندلی کی
ہر قسم سے پاک ہوں، جسکے لئے انتظامی اور تکنیکی طور پر انتہائی فول پروف
نظام بنایا جائے جسکو آئینی تحفظ بھی حاصل ہو۔ نہ ہی اس میں کسی بالاتر
نادیدہ طاقت کی “فنکاریاں“ ہوں۔ |