بے لگام عمرانیات سے فحش کلام اخلاقیات تک
(ABDUL SAMI KHAN SAMI, SWABI)
سلطنت عثمانیہ کے تاجدار جب تک
اسلامی اقدار کے پاسبان رہے اپنی حریف مغربی طاقتوں کو کراری شکستوں سے
دوچار کرتے رہے۔ مغرب پسندی میں عیاش اور رنگیلے بنکر دین سے دور ہوئے تو
نہ ان کا سامنا کرنے کے اہل رہے، نہ برابری کی سطح پر ان سے معاملات طے
کرنے اور نہ ہی اپنے ریاستی و ملی مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل ٹھہرے۔ پھر
وہی ہوا جو ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاتمی مراعات دینے والے
رنگیلے شاہوں کے ساتھ ہوا تھا۔ جن یورپی باشندوں کو عثمانیوں نے خصوصی
مراعات اور قانون کی پابندیوں سے مستشنٰی قرار دے کر اپنی ریست میں رہنے
اور تجارت کی کھلی اجازت دی تھی، وہی گورے مہمان ان کے اقتدار کا بیڑا
ڈبونے imran11کیلئے، غدارانِ مسلم کے ساتھ ملکر مبینہ سازشوں میں مصروف ہو
کر سر اٹھانے لگے۔ ان مغربی مہمانوں کیلئے ان احمق مسلمان حکمرانوں کی
“مہمان نوازی” کا یہ عالم تھا کہ ان کے سنگین جرائم پر مقدمات مسلم ریاست
کے قوانین کےمطابق نہیں بلکہ ان بدیسی باشندوں کے مغربی قوانین کے مطابق
انہی کی عدالتوں میں چلائے جاتے تھے اور عدالتوں میں وکلا بھی انہی کے
ممالک کے پیش ہوتے تھے۔ پھر انجامِ بد بھی وہی ہوا جو مسلم تاریخ کے سب
رنگیلوں عیاشوں اور مغربی غلاموں کا ہوتا آیا ہے۔ اور یوں خلافت عثمانیہ
اور مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت کا سنہری دور اپنے سیاہ ختتام کو پہنچا۔
آج جیکب آباد اور تربیلا میں امریکہ کو ملنے والے اڈے اور ریمنڈ ڈیوس جیسے
بلیک واٹرز کردار بتا رہے ہین کہ پاکستان میں بھی گورے مہمانوں کیلیے
حکومتی پذیرائیوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ دین و دھرتی کے سودے کرنے والوں
کے حواری بھول گیے ہیں کہ جب تک دین و ملت کے وفادار رہے خاک سے اٹھ کر
آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے والے مسلمان مشرق و مغرب تک سیاسی افق پر
چھائے، میدان کارزار میں اور فلاح بنی نوع انسان کیلئے عظیم کارنامے
سرانجام دیتے رہے۔ جب ننگ دین و ملت اور غداران قوم بنے، تاریخ میں جلال
الدین اکبر، محمد شاہ رنگیلہ، میر جعفر و میر صادق، ذوالفقار علی بھٹو،
پرویز مشرف، صدام حسین، حسنی مبارک، عاصمہ جہانگیر اور زرداری کہلوائے ۔
دینی اور قومی غیرت زندہ رہے تو قومیں اور کردار زندہ رہتے ہیں ۔ بیت
المقدس فتح کرنے والے صلاح الدین ایوبی کا نام تا قیامت زندہ رہے گا لیکن
اسی فلسطین کے چھن جانے کے بعد صلیبی غلاموں کی کرتوتوں کے صدقے مغربی
طاقتوں کے ہاتھوں اسلامی دنیا کی بارہا تذلیل کے باوجود ضمیرِ مسلم لاکھوں
فلسطینیوں کی مستقل بے وطنی اور یہود کے ہاتھوں خون آشام قتل عام پر بھی
ملامت کرتا دکھائی ہی نہیں دیتا۔ مگر مرتے ہوئے فسلطینیوں کو زندگی بچانے
والی ادویات تک روک دینے والے حسنی مبارک جیسے ننگِ انسانیت کتھ پتلی کردار
اور مصلحت کے تحت خاموش رہنے والے عیاش عرب حکمران مسندوں پر قابض ضرور نظر
آتے ہیں۔ طلعت حسین جیسے جرات مند حق گو صحافی کم مگر حسن نثار جیسے
سینکڑوں مغربی اور یہودی نواز گماشتین زر جا بہ جا نظر آتے ہیں۔
احباب امت مسلمہ میں روشن خیالی کی یہ ایمان لیوا بیماری نئی نہیں، تاریخ
بتاتی ہے کہ اٹھارویں صدی سے ہی کچھ مسلمان مغرب سےوالہانہ محبت کے مرض میں
مبتلا تھے۔ ان میں مغربی زر خرید ایرانی دانشوروں ملکوم خان اور آقاخان
کرمانی نے ایرانیوں کو تاکید کہ قرآن و شریعت کی جگہ جدید سیکولر قانونی
نظام اپنائیں کیونکہ ترقی کا واحد راستہ یہی ہے۔ ایرنی قوم کو اس فتن کا
نتیجہ شاہ ایران جیسے عیاش شہنشاہ اورشراب خانہ کلچرکی صورت میں بگھتنا پڑا۔
مصر کے ایک سیکولر ادیب رفاح التحتوی بھی اسی روشن خیال نظریئے کے حامی تھے
اور نتیجہ بعین ویسا، مصری قوم پر مسلط انوار السادات اور حسنی مبارک جیسے
سامراجی غلام اور عوام دشمن حکمرانی تھی۔ آج پاکستان میں بھی روشن خیالی
اور فتنہء دہر سے محبت کا دجالی درس دینے والے لبرل اور فاشسٹ دانشور حسن
نثار ایاز امیر اور نجم سیٹھی جیسے مسخرے اور ہندوآتہ اور کفر قادینیت کی
حواری عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد جیسی بال ٹھاکری داسیاں موجود ہیں۔
یہاں بھی پرویز مشرف اور زرداری جیسے نیویارکی غلاموں کی قوم فروش۔ مفلس
شکن حکومتیں، سونامی خان جیسے دو رنگی فرنگی گماشتے، الطاف حسین جیسے دہریے
اور گستاخین قرآن و رسالت کو پروموٹ کرنے والے ایسے سیاسی بہروپیے موجود
ہیں جو قوم کو کسی نیلے انقلاب کا سبز باغ دکھا کر پاکستان کو سرخ سیکولر
ریاست بنانے کی نارنجی صلیبی سازش میں درپردہ فتنہء مغرب کے حواری ہیں۔ یاد
دلانا چاہتا ہوں کہ سونامی خان انقلاب کی آڑ میں لبرل ازم اور حسینیت کے
جعلی علمبرداروں کے بھیس میں چھپے ہوئے یزیدوں کی مغرب پرست روشن خیالی
جیسا ایک ڈرامہ جدید مصر کے نام نہاد بانی محمد علی پاشا کا متنازعہ دور
بھی تھا۔ جس نے مصر کو ترکوں سے آزاد کروا کر اسے کسی حد تک جدید دنیا میں
شامل تو کیا لیکن اس کے طریق کی سفاکی اور اسلام پسند سیاسی مخالفوں کا قتل
عام، ہٹلر کی خونخواری اور پرویز مشرف جیسے بھیڑیے سے کچھ زیادہ مختلف نہ
تھا۔ اس روشن خیال دور میں بھی ملک کو سیکولر بنانے کے لئے مزہبی طور پر
وقف شدہ جائیدادوں کو ضبط کرلیا گیا تھا۔ ایک منظم طریقے سے علماء حق کو
مساجد تک محدود کر کے تمام انتظامی و آئینی اختیارات واپس لےلئے گئے تھے۔
اور پھر بالآخر مصر کو ایک جدید آزاد خیال اور سیکولر ریاست بنانے والوں کی
ضروت سے زیادہ روشن خیالی کا سیاہ انجام یہ نکلا کہ مصر مغربی آقاؤں کی
غلامی کے اندھیروں میں غرق ہو کر ایک برطانوی نوآبادی بن کر رہ گیا۔
پاکستان میں امریکہ، برطانیہ اور بھارت کا پسندیدہ اسلام نافذ کرنے کیلے
سرتوڑ کوششوں میں مصروف روشن خیال، جدیدیت پسند اوراسلام کو اولڈ فیشن مذہب
قرار دینے والے، معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ کی کتاب ” اسلام کی مختصر
تاریخ” ضرور پڑھیں۔ وہ اسلام کو جدید مذہب قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں۔ ”
درحقیقت اسلام تو تمام اعترافی مذاہب میں سب سے زیادہ عقلی اور ترقی یافتہ
مذہب ہے۔ اس کی کڑی وحدت پرستی نے انسانیت کو اساطیر کی خرافات سے نجات
دلائی اور قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ فطرت کا قریبی مشاہدہ اور
غور و فکر کریں نیز اپنے اعمال کا مستقبل تجزیہ کرتے رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ عقلیت پسندانہ روح جس نے جدیدیت کو جنم دیا ہے، حقیقت میں اسلام سے ہی
نکلی تھی۔” پاکستان میں روشن خیال سیاست دانوں کے حسین دام فریب میں آئے
لوگوں کو مسلم سلطنتوں کے زوال اور مسلمانوں کی زبوں حالی کے بارے اسلامی
طرز فکر اور طریق ریاست کے حامی ان مغربی دانشوروں کی تحریریں بھی ضرور
پڑھنی چاہئیں۔ جو لکھتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کی حکمرانی اور مغرب کی
نقالی میں تہذیب مغرب کی تقلید کی وجہ سے مسلمان اپنی بنیادی اسلامی اقدار
و دینی تعلیمات سے ہٹ گئے تھے۔ انہوں نے دوسروں کی نقل کی تو وہ مذہبی ،
ثقافتی او سیاسی اعتبار سے دوغلے ہوتے گئے اور جب کوا ہنس کی چال چل کر
اپنی بھولا تو پھر نتائج ہمیشہ کی طرح ہولناک اور تباہ کن ہی نکلے۔ اپنے
جلسوں میں ایک گستاخ قرآن گویے کے میوزک شوز کروانے والے آزاد خیال، گستاخئ
قرآن و رسالت سے بے نیاز سونامی خان کے پرستار، اسلام دشمنی اور مغرب کی
نقالی میں اپنا مونہہ طمانچے مار مارکر سرخ کرنے سے خوشحالی کی طرف نہیں
بلکہ تباہی اور زوال کی طرف گامزن ہیں۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جن اسلام
دشمن سیکولر حکمرانوں نے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم کیے نہ وہ عبرتناک
انجام سے بچ نہ پائے اور نہ مورخ کی آنکھ سے ان کی ننگ آدم خباثت محفوظ رہی۔
اتاترک نے ترکی میں تمام مدارس کو بند کر کے صوفی سلسلوں کو تہس نہس کر کے
رکھ دیا تھا۔ مردوں اور عورتوں کو جدید مغربی طرز زندگی اختیار کرنے اور
مغربی ماڈرن لباس زیب تن کرنے پر مجبور کیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ جبری طور پر
لباس مغربی کروایا گیا بلکہ قوم پرستی کے نام پر عربی اور اسلام سے بھی
شدید نفرت پیدا کی گئی۔ لعنت افلاک ایسی جدت پسندی پر کہ ترکی میں اٹھائیس
برس تک اذان تک نہ ہوسکی۔ فتنہء دہر اتا ترک کے کافرانہ حکم سے نمازوں پر
پابندی عائد کر دی گئی۔ مگر اللہ اکبر کہ پھر زمانے نے وہ ایمان افروز
مناظر بھی دیکھے کہ جب اٹھائیس برس بعد مساجد سے اذانیں گونجیں تو بچے،
بوڑھے اورجوان مساجد کی جانب روتے ہوئے یوں بھاگے جیسے ماؤں سے بچھڑے ہوئے
بچے ماؤں کے مل جانے پر ان کی آغوش میں پناہ لینے دوڑ رہے ہوں۔ صد افسوس کہ
بعد ازاں اذان کی پابندی ختم کرنے والے مسلم حکمران کو بھی سیکولر ترک فوج
نے پھانسی دے دی ۔
آج پاکستان کی سیاست میں سب سے خطرناک بات عدم برداشت کا رویہ ہے۔ سیاسی
جماعتوں کے ورکر، خصوصاً سونامی خان کے مادر پدر انقلاب کے پیامبر انصافیوں
کی سائیبر دہشت گردی اور بدتمیزی قابل مذمت ہے۔ سچ لکھنے کے جرم میں دوسرے
کالم نگاروں کی طرح مجھے بھی طبروں سے نوازا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ناعاقبت
اندیش بدبخت جس قدر چاہیں مجھے بازاری گالیاں دیں، جتنی چاہیں فحش کلامی
کریں، بھلے جتنے بھی قتل و اغوا کے دھمکی آمیز پیغامات بھیجیں۔ انشاللہ میں
فتنہء قادیانیت، سیکولرازم، گستاخین قرآن و رسالت اور مغرب نواز روشن خیالی
کیخلاف کلمات حق لکھتا رہوں گا۔ مجھے اس مشن سے نہ تو مسلم لیگی ڈانوں کی
طرف سے چلائی گئی بدن چیرنے والی گولی روک سکی اور نہ پرویز مشرف کے اذیت
ناک ٹارچر سیلوں میں ہتھوڑوں سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں، مونہہ میں بجھائے ہوئے
جلتے سگاروں کے زخموں اور وحشیانہ جسمانی تشدد کے کرب میری صدائے حق کے
جذبے کو دبا سکے۔ فحش و بازاری گالیاں نکالنے والے عمرانیے صرف ایک بار
اللہ کو روبرو مان کر سوچیں کہ کیا ایک گستاخ قرآن و اسلام گویے سلمان احمد
کو ساتھ لیکر چلنا عذابِ الہی کو دعوت دینا نہیں؟ ملعون سلمان احمد کے
ہمراہ گانے والے دین دار سنگر جنید جمشید جیسے اسلامی لوگ اس حساس معاملے
پر خاموش رہنے یا آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے سلمان احمد کو اللہ کے
حضور توبہ کیلئے رجوع کرنے کی صلاحِ حق دیں۔ احباب یہ مجھ بنیاد پرست
مسلمان کا نہیں ایک عیسائی مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ کا بھی تجزیہ ہے کہ
ریاستی یا سیاسی سطح پر کیے گئے ظالمانہ و تخریبی اقدامات ہمیشہ عارضی ہوا
کرتے ہیں۔ ترکی میں بھی اس قسم کی اسلام دشمن پابندیوں سے وہاں اسلام ختم
نہیں ہوا بلکہ زیرزمین چلا گیا تھا۔ آج فاروق درویش نہیں پوری اسلامی دنیا
کہہ رہی ہے کہ جس دینی فکر کو اتا ترک نے جبراً ظلم کی خاک تلے دبا دیا تھا
آج ترکی کے شرق و غرب سے اس دینی سوچ کی ٹھنڈی روشنی پوری دنیا کے مسلمانوں
کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی ہے۔ ترکی اور مصر میں روشن خیالی کی اندھیری
وادیوں میں دھکیل دی گئی اسلامی سوچ، پھر سے سرچشمہء نور آفتاب اور شمع
ہدایت کی طرح روشن اور فروزاں ہے۔ بدبخت اتا ترک رہا نہ کمبخت پرویز مشرف
رہے گا۔ لیکن ہاں ترکی کی مساجد اور لال مسجد سے اذانوں کی صدائیں گونجتی
رہیں گی۔ آخر میں عمران خان اور ان کے حواریوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ ایک
گستاخ قرآن گویے کو اپنے ساتھ رکھنے پر توبہ کریں۔ میاں صاحب سے بھی گزارش
ہے کہ اسلامی فکر سے متصادم بیان بازی اور روشن خیال قدم سے پہلے یہ خیال
رہے کہ بدبخت عاصمہ جہانگیر اور ایاز امیر بدترین گستاخین اسلام و رسالت
ہیں۔ نبیء آخرالزمان کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے ملعون مرزا قادیانی کے
گستاخ دین پیروکار مرزائی بدترین کافر و زندیق ہیں۔ عمران خان صاحب اس دنیا
میں اقتدار ملے نہ ملے آخرت میں اس مقتدر اعلی کے عذاب سے بچیں اور یہ سوچ
دقیانوسی، بنیاد پرستی، جہالت اور تاریک خیالی یا ملائیت نہیں بلکہ وہ
سیدھا سادہ اسلام ہے جو ہر کلمہ گو مسلمان کے بنیادی ایمان کا جزوء اول و
آخر ہے۔ کاش میرے دیس کے میڈیا کا ہر جرنلسٹ اوریا مقبول جان اورانصار
عباسی جیسا محبِ دین محب وطن بن جائے۔۔ تو واللہ کوئی سیاست دان زرداری
مداری، الطاف مسخرہ اور راجہ رینٹل نہ بن پائے ۔۔ فحش کلام سونامی ہجڑے،
دھمکی باز عمرانی مسخرے اور جاہلانہ سوچ رکھنے والے احمق سیکولر یاد رکھیں،
سونامی کا نام ہی خوش حالی او فلاح انسانیت کی نہیں تباہی اور بربادی کی
علامت ہے۔ سیتا وائٹ ہو یا بی بی جمائمہ، ہر داستانِ فتن کا ہر الف لیلوی
کردار اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا۔ ہر منی بدنام اور سونامی بے نام رہے گا
مگر ہاں “تاریک خیالی” اور بنیاد پرستی کی سوچ کا پیام بر فاروق درویش،
دینی شعور اور ملی آگہی کی وہ روشنی پھیلاتا رہے گا جس کی بنیاد صرف اور
صرف اسلام ہے۔ میرا حق الیقین ہےکہ میرا یہ قلمی جہاد، روز محشر میرے لیے
شفاعت محمدی کا ذریعہ بنے گا۔ ہاں کہ میں فتنہء دہر و باطل اور سامراجی
فرعونوں کے خلاف نعرہء حق بلند کرنے والا وہ کفن پوش قلمی جنگجو ہوں جس کی
ازلی و ابدی محبوبہ شہادت ہے اور وہ اک دن ضرور میری دلہن بنےگی۔۔
اس مضمون کیلئے معروف برطانوی مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ کی کتاب ” اسلام کی
مختصر تاریخ” سے مدد لی گئی ہے |
|