آخر میرا قصور کیا
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ہم نے توپہلے ہی لِکھ دیاتھاکہ
کپتان صاحب اورمولاناقادری کی ’’اندرکھاتے‘‘دوملاقاتیں ہوچکی ہیں اور14اگست
کوسونامی مارچ اور انقلابی مارچ اکٹھے ہوجائیں گے۔دونوں اکٹھے توہوگئے لیکن
یہ ابھی تک طے نہیں ہوسکاکہ’’قیادت‘‘کِس کے پاس ہوگی۔اصولاََ تو قیادت کے
حقدارشیخ الاسلام ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ ایک تواُنہوں نے نہ صرف اپنے عقیدت
مندوں سے’’مارویامَرجاؤ‘‘کاباربارحلف لیابلکہ انقلابی مارچ سے بھاگنے والوں
کوشہیدکرنے کابھی حکم دیا۔دوسرے خاں صاحب کے پاس صرف 10لاکھ لوگ ہیں جبکہ
علامہ صاحب کے پاس ایک کروڑجاں نثار۔ہمیں خطرہ ہے توصرف ایک کہ
کہیں’’دوملّاؤں میں مُرغی حرام‘‘نہ ہوجائے کیونکہ خاں صاحب کہہ سکتے
ہیں’’مولانا! ہمارے پاس توخیبرپختونخواکی حکومت بھی ہے اورپنجاب اسمبلی میں
قائدِ حزبِ اختلاف بھی جبکہ آپ کے پاس تو’’کَکھ‘‘ بھی نہیں سوائے منہاج
القرآن کے‘‘۔خاں صاحب شیخ الاسلام کویہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب پرویزمشرف
دونوں کوالگ الگ وزارت ِعظمیٰ کا لالچ دے کرمُکرگیا،تب مولاناصاحب
توکینیڈاکھسک گئے لیکن اُنہوں نے توپاکستان میں رہ کرجدوجہدکی اِس
لیے’’کُرسی‘‘پر اُن کاحق ہے۔اُدھرعلامہ صاحب بھی خاں صاحب کویہ کہہ سکتے
ہیں کہ اُنہیں تومتعددبار’’بشارت‘‘ہوچکی ہے اوراُن کے پاس’’بشارتوں‘‘کامکمل
ریکارڈبھی موجود ہے اسلیے ’’کُرسی‘‘پرآئینی،قانونی،سیاسی،سماجی،معاشی،معاشرتی
اورمذہبی حق اُنہی کاہے۔
میاں نوازشریف صاحب نے وژن2025ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ
لانگ مارچ کرنے اوردھرنے دینے والوں سے پوچھتے ہیں کہ آخرحکومت
کاقصورکیاہے؟۔جانتے میاں نوازشریف صاحب بھی ہیں لیکن اگروہ اپنی زبان سے
نہیں کہناچاہتے توچلیں ہم کہے دیتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت علیؓ کایہ قول
یاد نہیں رکھاکہ’’جِس پراحسان کرو،اُس کے شَرسے ڈرو‘‘۔جس جگہ علامہ کارکنوں
کویہ حکم دے رہے تھے کہ اگروہ قتل کردیئے جائیں توعدالتوں پہ انحصارنہیں
کرنابلکہ میاں نوازشریف،اُنکے خاندان کے تمام مردوں اور’’کچن کابینہ‘‘کوقتل
کردینا،یہ وہی جگہ ہے جو میاں صاحب نے بطورچیف منسٹرپنجاب ایک حکم کے ذریعے
مولانا طاہر القادری کے سپردکی تھی۔اُن کا دوسراقصوریہ ہے کہ اُن کے
میڈیاسیل کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے جس کی بنا پر تقریباََ تمام معروف
نیوزچینلز ہروقت اُن کی حکومت میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں جبکہ
مولاناطاہرالقادری کواگرچھینک بھی آئے تونیوزچینلزاُن کی’’متبرک چھینک‘‘کے
مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہوئے سارادِن گزاردیتے ہیں۔مولانانے فرمایاکہ
8اگست کواُن کے 7کارکن قتل کردیئے گئے۔حکومتی حلقوں کی جانب سے اِس کی
تردیدآئی نہ بال کی کھال اتارنے اور’’اندرکی خبریں‘‘لانے والے الیکٹرانک
میڈیا کوسچ بولنے کی توفیق ہوئی۔اسی الیکٹرانک میڈیا پرایک کارکن کی موت کی
خبرنشرہوئی لیکن جونہی مولاناصاحب نے 7کارکنوں کی موت کاذکرکیا،سارے
میڈیاکوسانپ سونگھ گیا۔مولانانے فرمایاکہ حکومت جھوٹ بولتی ہے کہ تصادم میں
پولیس کے 3جوان شہیدہوئے۔الیکٹرانک میڈیاتصادم میں شہیدہونے والے پولیس کے
جوانوں کی باربارنمازِجنازہ دکھاتارہالیکن مولانا کے اعلان کے بعدیہ خبر
بھی ’’ہوا ہوگئی‘‘۔ نیوزچینلزکی’’طنابیں‘‘کھینچنے والاپیمراعالمِ مستی میں
خراٹے لے رہاہے اورالیکٹرانک میڈیااعلانِ بغاوت کرنے والوں کی گھنٹوں بلکہ
پہروں’’لائیوکوریج‘‘۔ اِس شتربے مہارمیڈیاکو حب الوطنی کے تقاضے کون
سمجھائے؟۔لاہورہائی کورٹ کے جسٹس خالدمحمودنے بھی مولاناقادری کی اشتعال
انگیزتقریرکی میڈیاپر’’لائیوکوریج‘‘پردُکھ اورحیرت کااظہارکردیالیکن
پیمراخراٹے ہی لیتارہا۔میاں صاحب کاسب سے بڑاقصوریہ ہے کہ اُنہیں جب بھی
اقتدارملتاہے وہ ملک کی تقدیربدلنے کے لیے نئے نئے منصوبے شروع کردیتے ہیں
اوراب کی بارتواُنہوں نے حدہی کردی کہ بیرونی ممالک کی مددسے پورے ملک میں
اربوں ڈالرکے منصوبوں کابیک وقت آغازکردیاجوخاں صاحب کوہضم ہورہاہے نہ
علامہ کو،کیونکہ اگراُن کے دَورِحکومت میں ایک تہائی منصوبے بھی مکمل ہوگئے
توپھرنوازلیگ کی اگلی تین چار’’باریاں‘‘توپکی۔میاں صاحب کوخودہی سوچناچاہیے
کہ کپتان صاحب یامولاناقادری کواگراسّی،پچاسی سال کی عمرمیں وزارتِ عظمیٰ
ملے تواُنہیں کیاخاک مزہ آئے گا۔
محترم عمران خاں نے قوم سے وعدہ کیاتھاکہ وہ11اگست کوپریس کانفرنس میں پورے
ثبوتوں کے ساتھ 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے بارے میں
بتلائیں گے۔لیکن بتلایا’’کَکھ‘‘بھی نہیں سوائے بغیرثبوت دھاندلی میں تین
چارنئے نام شامل کرنے کے۔اُنہوں نے ایک دفعہ پھر35پنکچروں
کاذکرکیااورچارحلقوں کابھی۔اُنہیں یہ بھی گلہ ہے کہ اِس دفعہ سب سے زیادہ
15لاکھ ووٹ مسترد ہوئے۔نوازلیگ کہتی ہے کہ فافن(فری اینڈفیئرالیکشن نیٹ
ورک)جِس کاخاں صاحب اپنی تقریروں میں باربارذکرکرتے ہیں،اُسی کے مطابق
الیکشن2013ء میں ہزارمیں سے 32ووٹ مستردہوئے جبکہ 2008ء میں ہزارمیں سے
28اور2002ء میں25ووٹ مستردہوئے اوریہ مارجن اتنانہیں کہ اسے دھاندلی
کہاجاسکے۔35پنکچروں کے بارے میں خاں صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ اِن میں فتح
کامارجَن مستردشُدہ ووٹوں سے کم تھااوراگرمستردشُدہ ووٹ’’رَنراَپ‘‘کودے
دیئے جائیں تووہ جیت جاتاہے۔خاں صاحب کافرمان بجالیکن اِن35حلقوں میں سے
صرف6حلقوں میں تحریکِ انصاف کے امیدواررَنراپ تھے باقی تمام حلقوں میں
تیسرے اور چوتھے نمبرپر۔دوسری بات یہ کہ اِن 35حلقوں میں نوازلیگ
کے12اُمیدوارکامیاب ہوئے،باقی سیٹوں میں سے4پیپلزپارٹی،6آزاداور13قاف
لیگ،اے این پی،جماعتِ اسلامی،جے یوپی اوراین پی پی کے حصّے میں آئیں۔اِس
لیے خاں صاحب کوتمام سیاسی جماعتوں کوموردِالزام ٹھہراناچاہیے صرف نوازلیگ
کونہیں اورسب سے پہلے تواپنی اتحادی جماعتِ اسلامی سے پوچھناچاہیے کہ اُس
نے پنکچرکیسے لگائے؟۔4حلقوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ فافن ہی کی رپورٹ کے
مطابق حلقہ110میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی جبکہ خودخاں صاحب کے حلقہNA 1میں
دھاندلی کے 58کیسز ریکارڈ ہوئے۔حلقہ110میں خواجہ آصف کے خلاف تحریکِ انصاف
کے عثمان ڈارنے پٹیشن دائرکی لیکن ٹریبونل میں پیش ہونے کی بجائے بیرونِ
ملک کاروباری دوروں پررہے جِس پراُنہیں30ہزارروپے جرمانہ بھی ہوااورپٹیشن
خارج کردی گئی۔4حلقوں میں جہانگیرترین کاحلقہ بھی شامل ہے جہاں جہانگیرترین
کوآزاداُمیدوارنے شکست دی اورنوازلیگ تیسرے نمبرپررہی۔سپیکرقومی اسمبلی
ایازصادق کبھی تحریکِ انصاف کے صفِ اوّل کے لیڈرہواکرتے تھے۔وہ خاں صاحب
کوبہت قریب سے جانتے ہیں۔اسی لیے اُنہوں نے کہاکہ وہ خاں صاحب کوہرسہولت
دینے کوتیارہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اگردھاندلی ثابت نہ ہوئی توعمران خاں
قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں گے۔الیکشن ٹریبونلزنے نوازلیگ کے
سب سے زیادہ(10)اراکین کوناکام قراردیااورتحریکِ انصاف کے صرف 2کو۔اِن
پٹیشنزمیں پیپلزپارٹی کے 6اور8آزاددرخواست گزاروں کوفائدہ ہوا۔تحریکِ انصاف
کے ہارنے والے اُمیدواروں میں سے صرف58نے الیکشن ٹریبونلزمیں درخواستیں
دیں،42کافیصلہ ہوچکااورکسی ایک پربھی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔خاں صاحب
کاالزام ہے کہ2008ء میں نوازلیگ نے68لاکھ ووٹ لیے،یہ2013ء میں ڈیڑھ
کروڑکیسے بن گئے؟۔یہی سوال خاں صاحب سے بھی کہ تحریکِ انصاف نے2002ء میں
پورے ملک میں صرف ایک لاکھ پچاس ہزارووٹ لیے،یہ2013ء میں78لاکھ کیسے بن
گئے؟۔کیاتحریکِ انصاف نے بھی دھاندلی کی ہے؟۔ |
|