قافلے در قافلے اسلام آباد پہنچ رہے تھے شرکاء کا جوش و
خروش دیدنی ہے آزادی اور انقلاب مارچ کے میلوں لمبے جلوس دیکھ کر سیاسی
کارکن خوشی سے نعرے لگاتے اور ناچتے پھرتے ہیں دو دنوں سے مطالبات میں شدت
آتی جارہی ہے عمران خان اور شیخ الاسلام باربار حکومت کوللکار رہے ہیں
دونوں کا ہدف میاں نواز شریف ہیں بیشتر ہم وطنوں کا دل مضطرب ہے الہی
خیرہوپاکستان جیسے ممالک جہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں یہاں کسی
بھی وقت ان ہونی ہو سکتی ہے ہمارا کوئی حکمران آج تک اس خوف سے باہر نہیں
نکلایہی وجہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف اور ان کے پیش رو قوم کو یقین ہی دلاتے
رہتے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن بیشتر لوگوں کا دل ہے کہ مانتا
ہی نہیں اسی لئے جب حکومت کے خلاف احتجاج کی کوئی دھانسو تحریک چلانے کا
اعلان ہوتاہے وسوسے ہیں کہ امڈتے چلے آتے ہیں ان سے جان ہی نہیں چھوٹتی ہر
پاکستانی کے دل میں خیال ضرور آتاہے اس کے پیچھے یقینا فوج ہے جو وزیرِ
اعظم کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہتی ملک میں ایسے سیاستدانوں کی افراط ہے جو
کسی بھی واقعہ ۔۔۔کسی بھی سانحہ پر ایڑیاں اٹھا اٹھا کردیکھتے ہیں فوج اب
آئی کہ اب آئی پچھلے کئی سالوں سے ان کے من کی مراد بر نہیں آئی لیکن انہوں
نے بھی امید کا دامن آج تک نہیں چھوڑا ۔۔اس کو کہتے ہیں استقامت۔۔۔آخر
امیدپر دنیا قائم ہے جب آصف علی زرداری صدر تھے درجنوں لوگ انہیں روزانہ
گھر بھیج کر سوتے تھے کئی ٹی وی اینکرز نے عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سنا
سناکرقوم کا ہاضمہ خراب کردیا لیکن پھر بھی کچھ نہ بنا۔۔ہمارے پیارے خادم ِ
اعلیٰ میاں شہباز شریف کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے انہوں نے تحریک کے دوران
جوش ِ خطابت میں آصف علی زرداری بھاٹی چوک میں الٹکا لٹکانے کااعلان کیا
لیکن وہ سب کی چھاتی پر مونگ دلتے ہوئے اپنے اقتدار کی مدت پوری کرگئے اور
عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کی باز گشت آج تک سنائی دے رہی ہے۔۔میاں نوازشریف
نے حکومت بنائی تو اقتدارسے باہر سیاستدانوں نے کوشش تو بہت کی لیکن کرپشن
کا کوئی میگا کیس سامنے نہیں آیا لیکن کچھ لوگوں کو پھر بھی بوٹوں کی چاپ
سنائی دے رہی ہے اب عمران خان نے میاں نوازشریف حکومت کے خلاف ’’آڈھا‘‘لگا
رکھاہے اس کا کوئی منطقی انجام ہو نہ ہو قوم مصروف ہوگئی ہے شیخ الاسلام کی
آمد کسی بھونچال سے کم نہیں تھی واقعی انہوں نے حکومت کو ہلاکررکھ دیا یعنی
جو کام عمران خان یا شیخ رشید نہ کر سکے وہ طاہرالقادری نے کردکھایا اندر
سے عمران خان انتہائی خوش ہیں لیکن کھل کر منہاج القرآن والوں کا ساتھ اس
لئے نہیں دے رہے کہ کہیں تمام کریڈٹ شیخ الاسلام نہ لے جائیں بہرحال اپنے
شیخ رشید ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں وہ عمران خان کے حلیف بھی ہیں اور
طاہرالقادری کے ساتھ بھی۔ایک بات جو اب لوگ بر ملا کرنے لگے ہیں کہ میاں
نوازشریف حکومت کے خلاف عمران خان نے بڑے بڑے جلسے کرکے ماحول تو بنا دیا
تھا جسے شیخ الاسلام کی آمدنے ماحول کو گرما دیا حالات تو یہی بتاتے ہیں
حکومت دما دم مست قلندر نہیں ہونے دے گی میاں نوازشریف اس’’ یک نہ شد دو
شد‘‘کی صورت حال سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے عمران خان کو متعددبار بادل ِ
نخواستہ مذاکرات کی پیش کش بھی کی گئی لیکن بات نہیں بنی اور حکومت چار تو
کیا اب دس حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق والا مطالبہ ماننے کیلئے تیارہے۔
میاں نواز شریف کواس بات کا اندازہ ہے کہ اس مرتبہ شیخ الاسلام کشتیاں
جلاکر وطن واپس آئے ہیں ان کے پاس فدائیوں کی کثیر تعداد بھی موجودہے اور
سب سے بڑھ کروہ کینیڈا کی شہریت سے دستبردار ہونے کااعلان بھی کر سکتے
ہیں۔۔طاہرالقادری ملک بھر میں بیک وقت احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت بھی
رکھتے ہیں تحریکِ منہاج القرآن کے 12-10کارکنوں کی ہلاکت کے باعث عوام کی
ہمدردیاں بھی ان کے دامن میں ہیں اس لئے حکومت عمران خان کو منانے کی
بھرپور کوشش کرے گی تاکہ صرف ایک محاذپر بہتر حکمت ِ عملی کا مظاہرہ کیا جا
سکے۔ اسلام آباد لانگ مارچ کے باوجود عمران خان سے مذاکرات حکومت کی اولین
ترجیحات میں شامل ہے کچھ مقتدر شخصیات معاملات کو سنبھالا دینے کیلئے سرگرم
ہوگئی ہیں یہ تو مشہور کہاوت ہے کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے
میں دل نہیں ہوتا میاں شہبازشریف جن لوگوں سے مشاورت کیلئے تکیہ کرتے ہیں
لیکن لگتاہے ان کے پاس دماغ ہی نہیں ہے جو الٹے سیدھے مشورے دے کر انہوں نے
خواہ مخواہ حالات خراب کر لئے جس سے پنجاب گورنمنٹ کی نیک نامی متاثرہوئی
ہے بیرئیر ہٹانا اتنا بڑا ایشو نہیں تھا کہ درجنوں افرادکو سٹیٹ گولیاں
ماردی جائیں عام آدمی بھی چیخ پڑاکہ اتنا ظلم تو بھارتی فوج نے کشمیریوں پر
بھی نہیں کیا اب میاں صاحب کے ایک قریبی ساتھی اور سابق وزیر ِ با تدبیر
رانا ثناء اﷲ نے نیا ارشاد فرمایاہے طاہر القادری کو ایک رات تھانے میں
گذارنی پڑی تو صبح انقلاب بھول جائیں گے۔۔ کشیدہ ماحول میں ایسی باتیں کرنا
جلتی پر تیل ڈالنے والی بات ہے یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اگر اب
پنجاب میں پھر ایسا واقعہ رونما ہوا اس سے وہ آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا
خرمن جلاکربھسم کردے گی۔عقل کے فیصلے جذبات سے کرنا کا منطقی انجام یقینا
اس سے ملتا جلتاہوتاہے۔ شیخ الاسلام ۔۔۔ عمران خان سے زیادہ خطرناک ہیں فلک
نے ان کے اسلام آباددھرنے کا منظر دیکھاہے جب شدید سردی کے موسم میں تیز
بارش میں بھی ہزاروں افراد اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔۔۔ جبکہ تیسری
بار وزیرِ اعظم بننے والے میاں نواز شریف نے کارکنوں کو’’قدم بڑھاؤ نواز
شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کا نعرہ لگانے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا میں نے
ایک بار قدم آگے بڑھایا پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔۔۔اﷲ تعالیٰ نے
مسلم لیگ ن کو عوام کی خدمت کا پھر موقعہ دیاہے اس کو ایجی ٹیشن کی سیاست
میں ضائع کرنا کفران ِ نعمت ہوگاجب میاں نوازشریف کے ساتھی انہیں خوش کرنے
کیلئے مظہرشاہ کے اندازمیں بڑھکیں مارتے ہیں تو نہ جانے کتنے لوگوں کو
تکلیف ہوتی ہے۔سیاست میں مخالف کوبرداشت کرنا جمہوریت کا حسن کہلاتاہے طاہر
القادری ، عمران خان اور شیخ رشید سب پاکستانی ہیں سب کے سب محب ِ وطن۔۔
سیاست سب کا حق ہے آپ اپوزیشن میں ہوں مخالفین کو الٹا لٹکانے کی باتیں
کریں وہ جائز ہے لوڈ شیڈنگ کی آڑمیں ٹینٹ آفس بنا کر شہر شہر دھرنے دیں یہ
بھی جمہوریت کہلائے۔ اقتدارمیں ہوں تو اختلاف کی بنیادپرمخالفین کے خلاف
ریاستی وسائل استعمال کرنا،تھانے میں رات گذارنے کی دھمکی دینا کیا یہ بھی
جمہوریت ہے۔؟۔ چلیں دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کرلیں۔۔۔ سیاست میں طاقتور
مخالفین نہ ہوں۔۔۔کوئی ٹف ٹائم نہ دے۔۔اپوزیشن حکومتی پالیسیوں پر احتجاج
بھی نہ کرے یہ جمہوریت نہ ہوئی بادشاہت ہوگئی ۔۔۔ سیاست میں توازن کیلئے
مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرناپڑتاہے مرحوم غلام حیدر وائیں
کہا کرتے تھے جس میں قوت ِ برداشت نہ ہو اس کیلئے سیاست چھوڑ دینا زیادہ
بہتر ہے اس وقت سیاست سے سیاست کیلئے نمبر گیم ہورہی ہے آزادی اور انقلاب
مارچ کے نتائج جو بھی نکلیں ایک بات نظرآرہی ہے بحران ٹل گیاہے ویسے
پاکستان ایک ایسا ملک میں جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے اس لئے کوئی
بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی بہرحال دعا کریں جوبھی ہو ملک وقوم کیلئے
اچھاہو اسی میں سب کی بہتری ہے۔ |