بھلا ہو سیاست کا!

بھلا ہو ان چند ہزار سیاست دانوں کا،بھلا ہو ان انقلابیوں کا’’آزادی مارچ‘‘ والوں کا جنہوں نے کروڑوں پاکستانیوں سے جشن آزادی منانے کا بھی حق چھین لیا،زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ آزادی کے دن قومی پرچم کی بجائے ترنگا(تحریک انصاف،عوامی تحریک کے جھنڈا)دیکھا،ٹی وی چینلز پر ملی نغموں کی بجائے مخصوص پارٹیوں کے مختلف زبانوں میں’’گانے‘‘ سننے کو ملے -

سرکاری، غیر سرکاری سطح پر ہونے والی تمام تقریبات کی خبریں،مارچوں کے ہنگاموں میں دب گئیں،
دن ایک بجے تک ایسے لگ زہا تھا جیسے میں قبرستان میں رہتا ہوں،14اگست ۔۔یوم آزادی پاکستان جس دن زندہ دلان لاہور سارا دن ملی نغمے گاتے،ہلہ گلہ کرتے نظر آتے تھے،گھروں میں سہمے رہے،دن ایک بجے گھر سے نکلا،سوچا آزادی کی مبارک باد ہی دے دوں ۔۔پر کس کو؟ میں سارا دن پاکستانی ڈھونڈتا رہا،مجھے ملا تو پنجابی،پٹھان ،سندھی،بلوچی،کشمیری،بلتی ، اہلحدیث ،بریلوی , دیوبندی, شیعہ , سنی, نون لیگی ،سونامی , قادری کے انقلابی , جیالے, سرخے ،جماعتی, سرائیکی , اردو سپیکنگ , لوکل , مہاجر , شہری اور پینڈو ملا، نا ملاتو کوئی مسلمان ملا اور نا ملا تو پاکستانی ملا،میرا ملک صرف پاکستانیوں کو ملنے سے ترستا ہے،خدارا پاکستان کو 47ء کا پاکستانی لوٹا دو،وہ پاکستان پر مر مٹنے والا قائد ؒکا نوجوان لوٹا دو۔

1947ء سے قبل ہم ایک گورے انگریز کے غلام تھے تو آج کئی کالے انگریزوں کے شکنجے میں جکڑے ہیں،معاشی طور پر سرمایہ دار گلہ گھونٹ رہا ہے تو جاگیر دار غریب کے بچوں کو اپاہج کر رہا ہے،آزادی کے وقت مذہب کا نعرہ لگایا گیا لیکن کیا مذہبی آزادی ملی؟آج مولویوں کے غلام ہیں،ہر ایک کا اپنا دین ہے،ہر مولوی دوسرے کو کافر سمجھتا ہے،صرف یہیں تک نہیں اپنے اپنے نظریات دوسروں کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے،قوم کی بیٹی آج بھی مرضی کی زندگی نہیں جی سکتی،بات بات پہ گلہ کاٹ دیا جاتا ہے۔

سیکولرازم کے وکیل دانشور، ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز، اخبارات کے اداتی صفحات، تقاریب میں تقاریر کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ایسی ایسی من گھڑت تاویلیں اور دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ رونے کو جی چاہتا ہے، ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ آزادی نہیں غلامی کا احساس ہوتا ہے-

ہم سیاسی طور پر کبھی جمہوریی نظام اپناتے ہیں تو کبھی فوجی چھتری تلے پناہ ڈھونڈتے ہیں، کبھی اسلامی سوشلزم کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی خود ساختہ شریعت کا۔ کبھی بندوق کے ذریعے اپنا حکم چلاتے ہیں تو کبھی کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں،آخر یہ سیاست چاہتی کیا ہے؟

آزادی مارچ تین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا ہے۔ عقلمندانہ سوچ کہتی ہے کہ جب تک یہ اسلام آباد پہچے گا 2018 ء کے انتخابات کا وقت ہو چکا ہو گا،بھلا ہو سیاست کا جس نے قوم سے آزادی منانے کا حق چھینا،عوام کا نام استعمال کرکے اسی کو تکلیفیں دیں ،چند ہزار لوگ انقلاب لا ٓئیں نہ لائیں،نیا پاکستان بنے نہ بنے ایک بات اٹل ہے قوم مزید تکلیفیےں برداشت کرنے کیلئے تیار رہے۔

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68544 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.