اسرائیلی درندگی اورحکومت ہند کا موقف:ایک تجزیہ
دنیا کے اندر امن اور استحکام کا انحصار بڑی حد تک اس بات پرہے کہ کینسر کی
طرح بڑھنے والے صہیونزم کو کنٹرول کرنے کیلئے عالمی کمیونٹی کتنا پختہ
ارادہ رکھتی ہے اور کس حد تک اس پر قابو پانے کی صلاحیت کی وہ حامل
ہے۔اسرائیل دہشت گردی کاننگاناچ جس طرح رچ رہاہے ،اس نے اب ہردردمنددل کوبے
چین کررکھاہے، غزہ میں اقوام متحدہ کے ایک اسکول پر اسرائیلی بمباری کی
مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی راحت وبازآبادکاری ایجنسی برائے فلسطین کے
ترجمان کرس گنیز اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور پریس کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے رو پڑے۔انھوں نے کہا کہ غزہ کا المیہ اب ایک ایسے مرحلے میں پہنچ
چکا ہے جہاں الفاظ نہیں اشک ہی اس درد کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔
آخرملالہ یوسف زئی کی ہمدردی میں واویلامچانے وا لے اقوام متحدہ نے
اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف کیااقدام کئے۔(سوائے قراردادمنظورکرنے کے،جس
کاکوئی حاصل نہیں )۔اس کے یہودی ایجنٹ کوفلسطین میں سینکڑوں کی تعدادمیں
شہیدہونے والی ملالائیں نظرکیوں نہیں آرہی ہیں؟۔یہ فرق صرف اس لئے ہے کہ
پاکستانی ملالہ پرطالبان نے حملہ کیاتھا،اورفلسطینی ملالاؤں پرحملے اس کے
آقاامریکہ اوراسرائیل نے کئے جس طرح اقوام متحدہ کی ساری اپیلوں کوایک طرف
ڈال کراسرائیل اپنے جنگی جرائم میں مشغول ہے ،کیااس کے علاوہ اگرکوئی مسلم
حکمراں کایہ رویہ ہوتاتویواین کاوہی طرزعمل ہوتاجوآج اس کاہے؟۔ ناٹوافواج
کہاں ہیں،جن کے ذریعہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔دہشت گردوں کے
بہانہ ہزاروں بے گناہوں کے خون بہائے گئے۔نتن یاہوکی دہشت گردی پرلگام
لگانے کی ہمت اسے کیوں نہیں۔ دراصل اقوام متحدہ کے وجودکامقصد مسلمانوں
کوبے وقوف بنانے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے۔جس تنظیم کاکوئی مصرف ہی نہیں
ہے ،اس ادارہ کا موقف ہمیشہ جانبداررہاہے۔اس کی جڑوں میں یہودی اورفرنگی
عناصرپیوست ہیں۔وہ درپردہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازشی تنظیم ہے۔یہاں رک
کراس پرغورکرنابہت اہم ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بیان دیا’’ ’اسے ان
کاروائیوں کیلئے عالمی حمایت‘‘حاصل ہے۔دہشت گردملک کے سربراہ کی اس بات
کوبہت ہلکے میں نہیں لیاجاسکتا۔مطلب صاف ہے کہ ایک طرف امریکہ اس کی کھل
کرحمایت کررہاہے توباقی عالمی برادری کی درپردہ خاموش رہ کراسے حمایت حاصل
ہے۔اورہاں!ایک ’’مخلوق ‘‘اوربھی ہے جس کانام ہے ’’عرب یونین‘‘۔اس کے
سربراہان ایک زمانہ میں بہت متحرک رہاکرتے تھے۔خاص کرشام کے معاملہ
میں۔لیکن اب وہ بھی خلوت میں آرام فرماہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیامیں اس وقت اسرائیل کے تئیں سخت ردعمل ہے اورعوامی
سطح پر(بشمول امریکہ وبرطانیہ) سخت ناراضگی ہے لیکن حکمرانوں کی سطح پرپوری
طرح بے حسی(بشمول سعودی عرب،پاکستان ،مصراورعرب ممالک)ہے،ترکی ،ایران
اورقطرنے کچھ حدتک ظالموں کے خلاف بس بولنے تک ہی ہمت کی ہے۔کیایہودی پرست
سعودی عرب کے عیاش حکمراں کوخودکوخادم الحرمین شریفین کے لقب کے ساتھ
مسلمانوں کے سامنے خودکومعززبناکرپیش کرنے کاکوئی جوازہے جس نے ظالموں کی
مصرمیں کھل کرحمایت کی اوراب اسرائیلی دہشت گردی پرخاموش ہے،کیاخاد م
الحرمین والشریفین کارویہ کسی بھی ناحیہ سے مناسب ہے،ان حکمرانوں
کواستفہامیہ اسلوب میں یہ قرآنی تنبیہ یادنہیں مفہوم:’’حاجیوں کوپانی
پلاکراورمسجدحرام کی تعمیرکرکے کیاتم ان لوگوں کے برابرہوسکتے ہوجنہوں نے
ایمان لایااﷲ پراوریوم آخرت پراوراﷲ کے راستہ میں جہادکیا‘‘۔حرم محترم کی
خدمت اپنی جگہ،لیکن کیاانہوں نے اس آیت کریمہ پرکبھی غورکیا؟۔عیاش عرب
حکمراں جنہیں صرف اورصرف جمہوریت کاخطرہ ستائے جاتاہے،وہ کیادشمنوں
اوریہودیوں کے خلاف جہادکرنے و الوں کی طرح ہوسکتے ہیں۔مصرمیں مظالم
کادورہویاغزہ میں درندگی کاباب،اس میں سب سے زیادہ گھنوناکرداراگرکسی کاہے
تووہ سعودی عرب ہے جواگراپنے آقاامریکہ سے صرف اسی لئے خوف میں مبتلاہے کہ
کہیں امریکہ سعودی عرب میں جمہوریت کی آوازنہ اٹھادے،ورنہ اگروہ ایک مرتبہ
ہمت کرکے تیل کی سپلائی پرامریکی تسلط ختم کرنے کی دھمکی دے ساتھ ہی اسلامی
ممالک نہیں مسلمانی ممالک میں ہی سہی حکومتوں پراسرائیل کے ساتھ تجارتی
اورسفارتی تعلقات ختم کرنے کا دباؤ بنایا جائے تو اس کے مثبت اثرات خطہ میں
ضرورنظرآئیں گے۔
جہاں تک وطن عزیزکی بات ہے تو ہندوستان، مذہب کی بنیاد پر ممالک کی تخلیق
کے خلاف رہاہے اوراس نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت بھی کی
تھی۔چنانچہ1954میں ایک بیان میں پنڈت جواہرلعل نہرو نے کہاتھاکہ اسرائیل کے
قیام سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ خودمہاتما گاندھی کابھی
یہی موقف تھا۔انہوں نے بھی اس کی کھل کرمخالفت کی تھی۔
لیکن یہ کس قدرقابل افسوس بات یہ ہے کہ وہ ملک جس کے رہنماؤں نے اس کے
وجودکوہی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بتایاتھااس کا رشتہ اسرائیل جیسے
ظالم وجابرملک سے مضبوط ہی نہیں، بہت استوار ہے۔یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ
چند دنوں قبل جب پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے غزہ کی صورتحال پر
ایک قرارداد منظور کرنے کیلئے حکومت سے بحث کا مطالبہ کیا تو بابائے قوم کی
سمادھی پرحاضری دینے والوں کا کہنا تھا کہ غزہ کی صورتحال پر بحث ملک کے
مفاد میں نہیں ہے،ہم خارجہ پالیسی کوخطرہ میں نہیں ڈالناچاہتے کیونکہ اس کے
دونوں ہی فریقوں سے دوستانہ تعلقات ہیں۔اسپیکر کی مداخلت سے ایوان میں بحث
تو ہوئی لیکن حکومت نے کسی طرح کی قرارداد پاس کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
حکومت کاصاف موقف تھاکہ حماس کو جنگ بندی کیلئے تیار ہوناچاہئے۔گویاحکومت
ہندکی نگاہ میں اسرائیلی جارحیت فلسطینی دفاع کاردعمل ہے۔یہاں یہ نہیں
بھولناچاہئے کہ اسرائیل اوراس کے سرپرست امریکہ کابھی موقف ہے جو حکومت ہند
مختلف نہیں ہے ۔جب کہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیلی حملہ کے نتیجہ
میں دوہزارسے زائدفلسطینی شہیدہوئے جن میں اکثریت بے قصورشہریوں کی
ہے،اوران میں بھی اکثریت معصوم بچوں کی ہے۔جب کہ فلسطینی حملہ میں عام
شہریوں کی ہلاکت نہ کے برابرہے۔اب اگرکوئی دونوں کوبرابرنظرسے دیکھے
توکیااس کے علاوہ اورکچھ کہاجاسکتاہے کہ یہ سب کچھ اس آرایس ایس
اورصہیونزازم کے اشتراک عمل اوراشتراک ذہن کااثرہے۔جوتاریخ کے بدترین ظلم
کوعمل کاردعمل بتارہاہے ۔کیونکہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کوبھی اسی
ذہنیت نے یہ کہہ کربری الذمہ ہونے کی کوشش کی تھی کہ ہرعمل کاردعمل
ہوتاہے۔اورایک حقیقت بھی ہے کہ بی جے پی اور ہندو پسند جماعتیں اسرائیل کی
حمایت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں اوراب بھی ہیں۔بلکہ فلسطینیوں کے کازکی
حمایت کو مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کی سیاست سے تعبیر کرتی ہیں۔اخباری
رپورٹوں کے مطابق گذشتہ دنوں بی جے پی کے غیرممالک میں دوستوں کی اسرائیلی
اکائی کی کنوینرریناپشکرنے غزہ سے قتل عام کے بعدواپس آئے اسرائیلی فوجیوں
کی 400کلوہندوستا نی بریانی سے ضیافت کی۔
صہیونزم اورآرایس ایس میں اشتراک عمل اورقریبی تعلقات کی خبروں پراس وقت
تقویت مل گئی جب اسی دن (جب حکومت نے یہ وعدہ کرلیاتھاکہ آئندہ دودنوں کے
بعدوہ اس پربحث کرائے گی)شام میں اسرائیلی نمائندوں کوکوچہ یار(بی جے پی
دفتر)کاچکرلگاتے دیکھاگیاتھا۔(اورشایدحکومت نے دودنوں کاوقت بھی اسی لئے
مانگاتھا) اسی رازدانہ ملاقات کے بعدحکومت اچانک پلٹ گئی اورسشماسوراج
اپوزیشن کے مطالبہ پراس قدرناراض ہوگئیں کہ پارلیمنٹ سے غائب ہوگئیں گرچہ
کچھ قانونی اورتکنیکی مجبوری کی وجہ سے انہیں دوبارہ پارلیمنٹ میں آکربیان
دیناپڑاوہ بھی اس قدرفلسفیانہ کہ ارسطودادددیتے یانہ دیتے ،ان کی پارٹی نے
ضرور ان کی پیٹھ تھپتھپائی۔سشماسوراج کایہ بیان پڑھئے اورسردُھنئے۔’’ ان کی
حکومت فلسطینی کاز کی حمایت کرتی ہے اور اسرائیل ہندوستان کا ایک قریبی
دوست ہے‘‘۔
اس سے توعالمی برادری میں یہ پیغام جائے گاکہ ہندوستان اپنی خاموشی سے یہ
واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اس تصادم میں اگر اسرائیل کے ساتھ نہیں تو
کم از کم اسرائیل کے خلاف بھی نہیں ہے۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوستان
اسرائیل کا ایک قابل اعتبار اتحادی ہے۔ وہ اسرائیل سے جنگی سازو سامان
خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ دفاع اور قومی سلامتی کے معاملے میں ہی
نہیں، ڈیئری، آبپاشی، توانائی اور بہت سے سائنسی شعبے میں اسرائیل
،ہندوستان کے ساتھ اشتراک کر رہا ہے۔
ان دونوں ممالک کے درمیان وسیع اقتصادی ،فوجی اوراسٹریٹجک تعلقات
ہیں۔چنانچہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان، اسرائیلی فوجی سازو سامان کا سب سے
بڑا خریدارہے اور اسرائیل روس کے بعدہندوستان کا دوسرا سب سے بڑی فوجی
پارٹنر ہے۔ 2009میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی کاروبار تقریبا9ارب امریکی
ڈالر کارہاہے،اس طرح ہندوستان اسرائیل کاسب سے بڑا دفاعی مارکیٹ ہے
اورہندوستان بھی اسرائیل کا دوسرا سب سے بڑا ایشیائی اقتصادی پارٹنر
ہے۔چنانچہ 2010ء میں دفاعی کاروبار کو چھوڑ کرصرف باہمی تجارت، امریکی ڈالر
4.7بلین روپے تھی۔اگست 2012 میں ہندوستان اور اسرائیل کے مابین 50ملین
ڈالرکے تعلیم اور تحقیق کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔اورابھی بھی دونوں
ممالک اپنی توجہ ٹیکنالوجی، جیو ٹیکنالوجی اور زراعت جیسے شعبوں پر
مرکوزکئے ہوئے ہیں اور وسیع دو طرفہ آزادانہ تجارت کی سمت میں مسلسل پیش
رفت ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ خوداسرائیلی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق
ہندوستان امریکہ سے بھی آگے، سب سے زیادہ اسرائیل نواز ملک ہے۔
سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان خفیہ
منصوبوں کے تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے اور’’ اسلامی انتہا پسند دہشت گردی
‘‘کاگمراہ کن نعرہ دے کردونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط اسٹریٹجک اتحاد
پیدا ہوا ہے۔چنانچہ گذشتہ برس ہندوستان نے اپنی خلائی تحقیقی تنظیم کے
ذریعے اسرائیل کیلئے ایک فوجی سیٹلائٹ کا آغاز کیاہے۔
دونوں ممالک کے لیڈران اپنے تعلقات میں مزیداستواری لانے کیلئے ایک دوسرے
کے ملک کادورہ بھی کرتے رہے ہیں چنانچہ 2000میں جسونت سنگھ اسرائیل کا دورہ
کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر خارجہ ہیں۔اس دورے کے بعد دونوں ممالک نے
ایک مشترکہ انسداد دہشت گردی کمیشن قائم کیا۔تاکہ دونوں ممالک کی وزارت
خارجہ انسداددہشت گردی کی سمت میں اطلاعات شیئرکرسکیں ۔
اس کے بعدیوپی اے کی پیشرو حکومت کے وزراء میں شرد پوار، کپل سبل اور کمل
ناتھ نے اسرائیل کا دورہ کیانیزسابق وزیر خارجہ ایس ایم کرشنابھی ا سرائیل
کا دورہ کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ اس کے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی
اورموجودہ وزیراعظم بھی وہاں جاچکے ہیں۔2003میں این ڈی اے کے دررحکومت میں
سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے اٹل بہاری واجپئی کی دعوت پر
ہندوستان کا دورہ کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی طرف سے اس دورہ
کاپرزورخیر مقدم کیا گیا ۔کئی اخبارات نے دورے پر مثبت خیالات کا اظہار کیا
اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہاتھا کہ اس طرح کے دوروں سے
دو طرفہ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے میں نئی سمت ملے گی۔اس وقت بھی شیرون
کے دورے کی بائیں بازو کی طرف سے مذمت کی گئی تھی اور مختلف اسلامی اور
کمیونسٹ پارٹیوں کے سینکڑوں حامیوں نے بھی نئی دہلی میں مظاہرے کئے تھے۔جس
میں تقریبا 100مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ
نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے اور فلسطین کے ساتھ تعلقات میں استواری
کا مطالبہ کیا۔ جس پرکہ ہندی زبان کے’ روزنامہ نوبھارت ٹائمز‘ اور راشٹریہ
سویم سنگھ(آر ایس ایس) نے شیرون کے خلاف احتجاج کی مذمت کی تھی۔
آر ایس ایس جس کی بنیادہی مسلم دشمنی پرہے ،کے ترجمان رام مادھو نے
کہاتھاکہ ہندوستان اور اسرائیل دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، لہذا ہمیں
اس میدان میں ان کے ساتھ ’’قریبی تعاون‘‘ کی ضرورت ہے۔انہوں نے’ ’مسلم دہشت
گردی ‘‘میں اضافہ کی بات کہی تھی اور کامیابی کے ساتھ اسلامی انتہا پسند
عسکریت پسندوں کے خلاف مقابلہ کرنے اور ایک ہی اندازمیں اسلامی دہشت گردی
سے نمٹنے کیلئے ہندوستانی حکومت پر زور دیااور اسرائیل کی قصیدہ خوانی کی
تھی۔آر ایس ایس کے اخبار Panchjanyaمیں بھی’’ اسرائیل کے قریب ہو جاؤ اور
مشترکہ طور پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ہوجاؤ‘‘کانعرہ
لگایاگیاتھا۔
10نومبر2008ء کوہندوستانی فوجی حکام نے مشترکہ ہتھیاروں کے ترقیاتی
منصوبوں، اسرائیل کے سامان کی اضافی فروخت، اور انسداد دہشت گردی کی حکمت
عملی پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے اسرائیل کا دورہ کیاتھا۔بات چیت کایہ
نیادور ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی سمت میں ایک
اہم توسیع کے طور پر دیکھا گیا ۔
ہاں سیکوریٹی کونسل میں ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف قراردادکی حمایت کی۔اس
پرکسی خوش فہمی میں مبتلانہیں ہوجاناچاہئے۔وہ تومجبوری تھی جب امریکہ
کوچھوڑکرتمام ممبران نے اسرائیل کے خلاف ووٹنگ کی،ایسے میں اگرہندوستان
اسرائیل کی مخالفت نہ کرتاتوتھوتھوہوجاتی۔
گزشتہ برس اسرائیلی وزیراعظم نے وطن عزیز کویہ نصیحت کرڈالی کہ
ہندوستان،بیس کروڑمسلمانوں کوچھوڑکراوران کی پرواہ کئے بغیراسرائیل سے
تعلقات استواررکھے ۔ان کے اس بیان کی جتنی مذمت کی جائے ،کم ہے۔یہ ہندوستان
کی جمہوری قدروں کی توہین ہے،اس کی رنگارنگ تہذیب کومتاثرکرناہے۔لیکن افسوس
تواس پرہوتاہے کہ وطن عزیزجیسے جمہوری ملک کے سیاسی لیڈران کااس پرکوئی
ردعمل نہیں آیا۔(جب کہ اس وقت کانگریس برسراقتدارتھی)لہٰذااس سوال کی
گنجائش ہے کہ وطن کی خودمختاری پرآنچ نہیں آنے دینے کادعویٰ کرنے والے
محبین وطن کے کانوں پرجوں تک کیوں نہیں رینگی ؟۔کیاان کی طرف سے خاموشی صرف
اس لئے پائی گئی کہ یہ سب کچھ اس کی طرف سے ہواجس سے ان کایارانہ رہاہے۔
’’فلسطینی تشخص کیلئے آزادہندوستان کے معماروں کی واضح حمایت‘‘کے نعرہ کے
باوجود،اسرائیل کے ساتھ اس قدرمضبوط تعلقات ہندوستان کی جمہوری قدروں
کوٹھیس پہونچاتے ہیں۔جس ملک کاپوراوجودہی بین الاقوامی دہشت گردی کی
بنیادپرہے،اس کے ساتھ انسداددہشت گردی کے لائحہ عمل میں تعاون کچھ کم مضحکہ
خیزنہیں ہے۔ ہندوستان اوراسرائیل کے مابین اس طرح کے اقتصادی،فوجی اورسیاسی
تعلقات خودہندوستان جیسے سیکولرملک کوزیب نہیں دیتے ہیں اوریہ
خودمہاتماگاندھی اورپنڈت جواہرلعل نہروکے واضح موقف کے خلاف ہے۔
اورہاں یہاں امت مسلمہ کی بھی ایک اہم ذمہ داری ہے وہ یہ ہے اگرہم ظلم کو
اپنے ہاتھوں سے نہیں روک سکتے تواتناتوکرہی سکتے ہیں کہ اسرائیلی معیشت
کومتاثرکرنے کیلئے یہودی مصنوعات (پراڈکٹ)کابائیکاٹ کریں۔قرآن مجیدمیں ہمیں
تعلیم دی گئی ہے’’گناہ اورسرکشی کاتعاون نہ کرو‘‘۔لہٰذاآیت کریمہ کی روشنی
میں ظالموں کے خلاف اتنا توہمارے لئے ممکن ہے ہی کہ ہم اسرائیلی پراڈکٹ
کابڑے پیمانہ پربائیکاٹ کریں،اس پرعمل بھی شروع ہوچکاہے-
ضرورت ہے کہ برادران وطن جوخوداس ظلم کوناپسندیدہ سمجھتے ہیں،انہیں بھی اس
کی ترغیب دی جائے،اسرائیلی پراڈکٹ کی تفصیلات معلوم کریں ، انٹرنیٹ
پرہندوستانی بازامیں ان کے تمام پراڈکٹ کی ایک لمبی فہرست موجودہے جن میں
سرفہرست کوکاکولااورپیپیسی ہیں۔ان کے استعمال سے پوری طرح بچاجائے
اوراسرائیلی معیشت کونقصان پہونچایاجائے۔یہ وقت کاتقاضہ ہے اور ہماری
ایمانی اوراخلاقی ذمہ داری بھی۔ |