کہا جاتا تھا کہ سابق صدر سیاست کی الف ب سے آشنا نہیں
ہے۔وہ تو محض کاروباری شخص ہے، اور کاروباری ڈیل ہی کرنا اسکی پہچان ہے۔اس
کے سوا زردار صاحب کی کچھ شناخت نہیں …… سو جتنے منہ اتنی باتیں سنائی
دیتیں اور پڑھنے کو ملتیں……میری طرح کے بہت سارے کم علم لوگ اس پروپیگنڈے
سے متاثر ہوکر زرداری کو نرم گرم القابات سے بھی نوازتے رہے۔
اپنی صدارت اور اپنی پارٹی کی حکومت کو چاروں سے طرف سے بے شمار لاحق خطرات
کے باوجود پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہونے کا کریڈٹ سیاست سے
نابلد ،کھلنڈرے ،بدمعاش ،کاروباری اور غیر سیاسی شخض زرداری نے اپنے نام
کیاہے۔زرداری نے جن حالات میں پانچ سال پورے کیے ہیں ان سے ایوان اقتدار سے
کوسوں دور مجھ جیسا کوئی بھی شخض بالکل آگاہی نہیں رکھتا۔
اندرونی صورت حال سے تو زرداری یا اسکے قریبی رفقائے کار ہی پردہ اٹھا ئیں
گے لیکن پردہ سمیں پر دکھائی جانے والے مناظر کے مطابق’’ ایک طرف آزاد
عدلیہ کے سرخیل یعنی چیف جسٹس اور انکی پوری ٹیم ہاتھ دھوکر انہیں گھر
بھیجنے پر تلی ہوئی ہے۔دوسری طرف آرمی اور اسکے ذیلی اداروں کے طاقتور
سربراہ اپنے پورے لاوٗ لشکر کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ اور کوئی موقعہ
ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تیسری طرف پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف اپنی
تمام تر خطابی و تمبو ڈرامہ کی حشر سامانیوں کے ساتھ پردہ سمیں پر جلو
افروز ہوتے ہیں۔پاکستان کے آئینی سربراہ اور ایک سیاسی پارٹی کے شریک
چئیرمین کو سرعام پھانسی پر لٹکانے اور انہیں لاہور اور ملک کے دیگر شہروں
کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارتے ہیں…… چوتھی جانب سے مسلم لیگ نواز کے
قائد میاں نواز شریف سابق جسٹس اور اپنے مرید خاص جناب خلیل الررحمان رمدے
کی تیار کردہ ’’ غداری پٹیشن‘‘ المعروف میمو گیٹ سکنڈل لیکر زرداری کے خلاف
کالا کوٹ زیب تن کرکے عدالت عظمی پہنچ جاتے ہیں۔وہ بھی جنرلز کی پوری تائید
و حمایت و آشیر باد کے ساتھ……اتنے حملہ آ وروں کی یلغار میں سے صاف بچ
نکلنا زرداری کی سیاست کا ہی کرشمہ ہے۔
اب آصف علی زرداری کو منصب صدارت سے ریٹائرڈ ہوئے بھی ایک عرصہ ہو
چلاہے۔لیکن اس کے جانشینوں اورکامیاب سیاستدان کا ٹائٹل سینے پر سجائے ہنر
مندوں کو برسراقتدار آئے بھی ایک سال سے زائد ہونے کو ہے۔ لیکن نہ وہ انہیں
قانون کی گرفت میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی اس سے لوٹی گئی دولت
واپس لینے کے وعدے پورے کرپائے ہیں۔بلکہ الٹا انہیں اپنی حکومت بچانے کی
فکر اور لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرطاہر القادری کیادارے پر چڑھائی کئی قیمتی جانوں کے ضیاع نے انہیں الگ
مشکل صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے۔ عمران خاں کا آزادی مارچ حکمرانوں کے
اعصاب پر سوار ہے۔ حکمرانوں کو کچھ سوجھائی نہیں دے رہا کہ اس صورت حال سے
کیسے نکلا جائے۔
زرداری پاکستانی سیاست سے نا آشنائی ، کئی اطراف سے حملوں کے باوجود کیونکر
پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہوا ؟ اس لیے کہ اس نے اپنی سلطنت قائم کرنے
اور تمام تر اختیارات اپنی ذات میں منجمند کرلینے کی آرزو پالنے سے گریز
کیا…… اس نے آرمی کی ہاں میں ہاں ملائی ،انہوں نے جو مانگا دیدیا، ججوں نے
جو اختیارات زبردستی اپنے پاس رکھ لیے اس صبر جمیل کی راہ اختیار کی۔ سب سے
بڑی بات یہ کہ زرداری نے ہر قسم کے حالات سے نبٹنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا
کیا……جو کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔
اگر زرداری بھی کاروباری شہباز شریف کی طرح انکی حکومت کے خلاف پہلے دن سے
ہی میدان میں نکل آتا اور شہر شہر قریہ قریہ اورگاو ں گاوں ان کے خلاف
احتجاجی مہم کا آغاز کر دیتا ……اورپھرشہباز شریف فیم ڈرامے بازیاں اس ملک
میں کیا رنگ لاتیں؟ کھلنڈرے بدمعاش، کاروباری اور سیاست بازی کے داو پیچ سے
ناواقف زرداری خوب سمجھتا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے برسر اقتدار آنے کے
نقصانات کیا ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاست کے رموز و اسرار سے ناواقفیت رکھنے کے
باوجود زرداری نے طاقت کے حصول کی خواہش کو دل ودماغ میں پروان چڑھانے کی
بجائے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے پر اصرار کیا۔ اپنے اس مقصد عظیم
کوپانے کے لیے زرداری نے طاقت کے ہر مرکز و محور کی ہر بات کے آگے سرتسلیم
خم کیے رکھا،ان کی ہر ڈیمانڈ پوری کی……ہر خواہش کی تکمیل کرنے میں جمہوریت
کے استحکام،پاکستان کی ترقی و خوشحالی کوپنپتے دیکھا۔
آج سیاست کے داو پیچوں سے شناسائی رکھنے والے سیاستدانوں، اقتصادیات و
معاشیات کے ماہرین پر مشتمل حکمران اور عوام آمنے سامنے آن کھڑے ہیں…… لانگ
مارچ ،آزاد مارچ اور انقلاب کے نعرے اور باتیں اپنے عروج پر ہیں…… ہنر مند
اور عقل و فہم اور دانش ور حکمرانوں نے وہیں غلطیوں کا اعادہ کیا ہے جو
ذوالفقار علی بھٹو سے مارچ 1977کے انتخابات کے بعد سرزد ہوئیں……مطلب ’’بھان
متی کے کنبہ‘‘ نوستاروں کے اتحاد کے چند حلقوں میں دھاندلی کی شکایات اور
ان حلقوں میں نئے سرے سے اتنخابات کروانے کے مطالبات فوری تسلیم نہ کرنے کی
ضد اور ہٹ دھرمی بھٹو صاحب جیسے زیرک سیاستدان اور حکمران کو موت کی کال
کوٹھڑی لے گئی……یہی بات عمران خاں نے کی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے
اپنی اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے چند ایک حلقوں میں انگھوٹوں کی تصدیق
کروانے کے مطالبات پیش کیے…… لیکن ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم اور انکے
رفقائے کار نے انگھوٹوں کی تصدیق کے مطالبات پر سنجیدگی سے لینے کی بجائے
آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کردیا……بات انگھوٹوں کی تصدیق سے آزادی مارچ تک
جا پہنچی……اب عمران خاں کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے دشمن اور انقلاب کو عوام
کے مسائل کا حل بتانے والے ’’ مداری اور بچہ جمورا قسم کے لوگ بھی خم ٹھونک
کر میدان میں آ گے ہیں……
یہ مداری اور بچہ جمورا لوگ خود میدان میں اترے ہیں یا انہیں اتارنے والے
اور لوگ ہیں؟ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم حکمران طبقہ اسکا ذمہ دار
ہے۔کیونکہ طاقت کے حصول کی خواہش اور اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے
کے لیے طاقت کے استعمال کی آرزو نے حکمرانوں کو ان حالات میں دھکیلا ہے……
منہاج القران کے راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے طاقت استعمال کرنے کی کیا
ضرورت تھی؟ ااذادی مارچ کو کیوں روکنے کی منصوبہ بندی کی سوچ نے حکمرانوں
کے دماغ میں جگہ بنائی؟
جس طرح زرداری کے خلاف طاہر القادری اسلام آباد چند روز سیر سپاٹا کرکے
واپس بخریت کنیڈا روانہ ہو گے تھے ۔اب کی بار بھی ایسا ہی طرز عمل اختیار
کر لیاجاتا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑتی؟ب بات چند حلقوں میں انگھوٹوں کی تصدیق
سے بہت آگے جا نکلی ہے۔ دوسر ی طرف حکمرانوں نے اسلام آباد کو تین ماہ کے
لیے فوج کے حوالے کرنیکا اچھا فیصلہ نہیں کیا……ان باتوں کا احساس انہیں آنے
والے دنوں میں ہو جائیگا۔ لوگوں کے یہ جائز مطالبات ہیں کہ ملک کے کچھ حصوں
کو فوج کے حوالے کرنا لازم تھا تو پھر سب سے پہلے اسلام آباد کو کیوں فوج
کے سپرد کیا گیا……کیا کراچی اس قسم کے فیصلے کا سب سے زیادہ مسحق نہیں تھا؟
دوسرے نمبر پر کوئٹہ نہیں تھا؟
حکمرانوں کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ یہ محض وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر
اعلی پنجاب شہباز شریف ہی جانتے ہیں۔ لیکن جو کچھ ان کے فیصلوں اور اقدامات
کے نتیجے میں ہونے والا ہے وہ سب کے علم میں آچکا ہے۔ حکمرانوں کے فیصلے
اور اقدامات ہی ان کے کامیاب اور ناکام سیاست دان ہونے پر مہر تصدیق لگاتے
ہیں……زرداری نے جمہوریت کی کشتی کو بیشمار خطرات میں سے نکال کر کامیاب
سیاستدان کا لقب پایا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے حصے میں ناکام سیاستدان
ثابت ہونے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ |