جمہوریت جائے یا پر امن تبدیلی آئے فتح موروثی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہی ہوگی !

ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے منگل کی شام 5بجے عوامی پارلیمنٹ طلب کرلی ہے اور ان کے بقول عوامی پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عوام سے سول نافرمانی کی تحریک کے تحت بجلی و گیس کے بلوں اور ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنے کی اپیل کے ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں سے زر مبادلہ نہ بھیجنے اور آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں سے موجودہ حکومت کو قرض نہ دینے کی اپیل کے ساتھ منگل کی شام 6بجے شاہراہ دستور پر جاکر احتجاج کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے شاہراہ دستور کوعلاقہ ممنوعہ کے طور پر ”ریڈ زون “ قراردیئے جانے کے بعد حکومت نے ریڈ زون میں داخل ہونے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کیلئے چالیس ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار تعینات کردیئے ہیںجن میں پولیس ‘ ایف سی ‘ رینجرز اور مسلح افواج کے اہلکار شامل ہیںاور شاید اس مضمون کی اشاعت تک حکومت ‘ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکاءکے درمیان ہونے والا تصادم کسی بڑے سانحہ کی صورت اختیار کرکے آرمی چیف کو قوم سے خطاب پر مجبور کر چکا ہو یا پھر مسلم لیگ (ن) کے پلان کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل عمل میں آچکی ہو کیونکہ سیاسی جماعتوں کی پارلیمنٹ بچانے کی تمام کوششیں حکومتی رویئے کے باعث ناکام ہوچکی ہیں ۔

تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کو بیرونی قوتوں کی آشیر باد یا پرویز مشرف کی ایماءپر ملک و جمہوریت کیخلاف سازش قرار دینے والوں کا تجزیہ اور تجربہ اپنی جگہ ہم ان سے اختلاف کی جسارت و جرا ¿ت تو نہیں کرسکتے مگرہماراتجزیہ (جسے درست یا غلط وقت ہی ثابت کرسکتا ہے) کہہ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو پانچ سالہ اقتدار کی مدت کی تکمیل کی مہلت فراہم کرکے معاہدے کے تحت اگلے پانچ سال کیلئے اقتدار میں آنے والے مسلم لیگی حکمران اقتدار سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل کرچکے ہیں اور یہ بھی جان چکے ہیں کہ اب حکومت کی جانب سے عوام کو ڈلیور کرنے ‘ بجلی ‘ پانی ‘ گیس بحران کے خاتمے ‘مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ جرائم اور دہشتگردی سے عوام کو نجات دلانے ‘ پاکستان کی ساکھ اور عزت و وقار کو مستحکم بنانے ‘ کشمیر کی آزادی کیلئے کردار ادا کرنے اور امریکہ کی واپسی کے بعد افغانستان کو بھارتی تسلط سے آزاد کراکر اس کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرنے اور افغانستان و ایران کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے سعودی عرب کی ناراضگی برداشت کرنے کا وقت آن پہنچا ہے جبکہ جن شرائط پر قومی تعمیرو ترقی کیلئے مالیاتی اداروں سے قرضے لئے جارہے ہیں ان کے تحت حکومت کے پاس عوامی امنگوں اور قومی ضرورتوں کے مطابق آزادانہ فیصلوں کا اختیار نہیں ہے اوراب وہ ہر فیصلے کیلئے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہے جس کے بعد مہنگائی و غربت میں کمی کسی طور ممکن نہیں البتہ روز افزوں اضافہ یقینی ہے۔

دوسری جانب حکومت نے بجلی بحران کے خاتمے کیلئے عوام کو چائنا اور دیگر ممالک کے نجی سیکٹر کی مدد سے جن ”پاور جنریشن پلانٹس“ کا تحفہ دیا ہے ان سے عنقریب پروڈکشن کا آغاز ہونے والا ہے جس کے بعد حاصل ہونے والی بجلی جن نرخوں پر عوام کی دسترس میں آئے گی اس سے پنکھے اور اے سی چلنے باجود عوام کو دانتوں تلے پسینہ آئے گا اور عوام کیلئے اس مہنگی ترین بجلی کیلئے قوت خرید کا حصول ممکن نہیں رہے گا ۔

سعودی عرب کے احسانات کے صلے میں شاہوں سے ”سمدھیانے“ کا رشتہ جوڑکر خود کو بھی شہنشاہ محسوس کرنے والے حکمران سعودی مفادات کیخلاف نہ تو ایران سے تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں اور نہ ہی افغانستان کو بھارتی تسلط سے نجات دلاکر بھارت میں اپنے کاروباری مفادات کو زک پہنچانے کا رسک لے سکتے ہیں اسلئے ان کیلئے ضروری ہوچکا ہے کہ اب وہ اقتدار سے اس طرح سے رخصت ہوجائیں کہ ان کی ناکامی اور مفاد پرستی کا پول کھلنے کی بجائے انہیں مظلوم بننے کا موقع مل جائے تاکہ ان کے پاس مستقبل میں پھر منتخب ہوکر اپنے کاروبار ‘ تجارت اور سرمائے کو مزید ضرب دینے کا موقع موجود رہے ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ہر مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر خاندانی و موروثی و سیاسی جماعتوں نے روز اول سے متحدہ قومی موومنٹ کو جاگیردارانہ سیاست اور مورثی اقتدار کیلئے خطرہ جانتے ہوئے رگیدنے وگڑنے اور مطلب و مفاد کے تحت متحدہ سے ہاتھ ملانے اور مطلب نکل جانے کے بعد اس ہاتھ کو شانے سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں کے ساتھ اس پر لسانی ‘ دہشتگرد اورجرائم پیشہ جماعت کا الزام لگانے والی موروثی قیادت کی یرغمال سیاسی جماعتیں مظلوم طبقات کی بات کرنے اورعام آدمی کو اقتدار کے ایوان تک پہنچانے کیلئے جدوجہد کرنے والی ایک اور سیاسی جماعت کو کس طرح سے برداشت کرسکتی ہیں اسلئے جمہوریت کے تحفظ کے نام پر موروثی سیاست کو بچانے کیلئے شہنشاہیت کی روایت کی عادی تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہوچکی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح موروثی اقتدار کے اس نظام کو بچایا جاسکے جبکہ موروثی سیاست سے عاری جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کا انداز و بیان اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں جمہوری نظام کو بھی بچانا چاہتی ہیں ۔ڈاکٹر طاہرالقادری و عمران خان کے حقیقی جمہوری نظام کے مطالبے سے بھی متفق ہیں ۔مکمل آزادو غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل ‘ انتخابی اصلاحات ‘ غیر جانبدار و شفاف انتخابات اور حقیقی عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ والی حقیقی جمہوریت کی خواہشمندتو ہیں مگر اس کیلئے فوج کی مداخلت کے حق میں نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے سربراہان کے لہجوں میںدیگر جماعتوں کے سربراہوں ‘ رہنماؤں اور کارکنوں کی طرح طاہرالقادری اور عمران خان کیلئے تعصب ‘ نفرت اور تضحیک کے عنصر کی بجائے احترام کے ساتھ سب سے زیادہ تفکر و تشویش محسوس ہورہی ہے ۔

کراچی و حیدرآباد کی لسانی جماعت قرار دی جانے والی متحدہ قومی موومنٹ کی عوامی مقبولیت‘ سیاسی قوت اور قومی سطح پر بڑھتی ہوئی اس کی پذیرائی وملک بھر میں بڑھتے ہوئے اس کے اثرو رسوخ کو تمام تر سازش اور ریاستی قوت و دہشتگردوں کی مدد سے روکنے میں ناکام موروثی سیاستدانوں نے متحدہ جیسی ایک اور جماعت کے چڑھتے ہوئے سورج کو دیکھتے ہی مستقبل کے خطرات کا اندازہ کرلیا تھا اسلئے اسی لئے اس تحریک کی عوامی قوت کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کا پلان بناکر تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ایسے افراد نفوذ کرادیئے گئے جو تحریک انصاف کی لیڈر شپ میں شامل ہوکر اس کے فیصلوں کو اپنی خواہشات اور اپنی ”مدر پارٹی “ کے مفادات کے تابع بناسکیں بالکل اسی طرح جس طرح پرویز مشرف کی آمد سے قبل مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی کوآرڈینیٹر سردار غلام مصطفی خاصخیلی کو آل پاکستان مسلم لیگ میں سندھ کا صدر کا درجہ دلایا گیا جنہوں نے اے پی ایم ایل کومنظم ہونے دیا اور نہ ہی اس جماعت کی عوامی حمایت و مقبولیت میں اضافہ ہونے دیا بلکہ مشرف کی جانب سے تنظیم سازی کیلئے بھیجے جانے والے کروڑوں روپوں کی خرد برد کے ساتھ اس سرمائے کو اے پی ایم ایل میں اختلافات اور مشرف کے چاہنے والوں کو باہم متصادم کرانے کیلئے استعمال کیا۔ خان لیگ ہی کی ایماءپر خاصخیلی نے انتخابات سے قبل مشرف کو یہ یقین دلایا کہ پاکستان میں کروڑوں لوگ ان کے منتظر ہیں اور ان کی آمد پر کراچی ایئر پورٹ پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوگی اور اس جھوٹ کے جھانسے وطن واپس لوٹنے والے پرویز مشرف کو اب تک واپسی کی کوئی راہ نہیں مل پارہی ہے ۔

اسی طرح تحریک انصاف میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے کچھ لوگ تعینات کئے گئے اور تحریک انصاف کی راہ روکنے کیلئے طاہرالقادری کو انقلاب کا درس دینے کیلئے پاکستان لاکر انہیں عمران خان سے بڑا ہیرو بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی جبکہ ق لیگ کے نام سے الگ ہوکر لیگی شہنشاہیت کی حفاظت کرنے والے چوہدری برادران کو طاہرالقادری کے ساتھ نتھی کیا گیا تاکہ ان کی نگرانی ہوتی رہی کیونکہ قادری صاحب کی جولانی و سیمابی فطرت پرموروثی سیاستدانوں کو بالکل بھی اعتبارنہیں ہے۔

اس وقت قومی و ملکی صورتحال پلان کے عین مطابق ہے قادری صاحب انقلاب کے نام پر موروثی سیاستدانوں کا کام آسان کررہے ہیں اور تحریک انصاف موروثی سیاسی جماعتوں سے آنے والوں کے اشاروں پر ریڈ زون کی جانب بڑھ کر مارشل لاءیا اسمبلیوں کی تحلیل کی راہ ہموار کررہی ہے جوکہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام موروثی سیاسی جماعتوں کی ضرورت بھی ہے کیونکہ وزیراعظم کے استعفے کی بجائے اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت بننے سے مسلم لیگ (ن) کے پاس یہ جواز ہوگا کہ ہمیں آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو ہم ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہادیتے اور پاکستان کو انصاف و قانون اور آئین کی بالادستی کے ذریعے وہ ریاست بنادیتے جہاں شیرو بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے کیونکہ ہماری پالیسیاں انقلابی و عوامی تھیں اور ہم ملک و قوم کیلئے بڑا کام کررہے تھے مگر ہمیشہ کی طرح سازشوں کے ذریعے ہمیں اقتدار اورپاکستان و عوام کومحفوظ و خوشحال مستقبل سے محروم کیا گیا۔

اس طرح حکمران طبقے کی ثابت نہ ہونے والی ٹیکنیکل کرپشن کو بھی تحفظ حاصل ہوجائے گا اوران کی عوامی مقبولیت کو بھی نقصان نہیں پہنچے گابلکہ مستقبل میں اس میں اضافہ ہی ہوگا جبکہ موجودہ ملکی حالات میں تمام موروثی سیاسی جماعتوں یعنی سیاست کے سمندر کے مگرمچھوں سے بیر لیکر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کیلئے محض جماعت اسلامی اور متحدہ کے تعاون کے ساتھ تیزی سے تمام عوامی مشکلات کا خاتمہ اور قومی مسائل کا حل ممکن نہیں ہوگا جس کے بعدمیڈیا میں گہرا رسوخ ‘ عدلیہ سے بہترین تعلقات اور سعودی عرب و بھارت سے معاملات رکھنے کے ساتھ اقتدار و سازشوں کی تین دہائیوں کے عملی تجربات رکھنے والی موروثی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کیلئے دیگر موروثی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر شاہراہ دستور کو تحریر اسکوائر بنانے کی تحریک انصاف کی روایت کو دہراکر تحریک انصاف کو اقتدار اور عوامی حمایت سے محروم کرتے ہوئے واپس اقتدار میں آنا اور کھوئی ہوئی عوامی حمایت کا حصول چنداں مشکل نہیں ہوگا ۔

اسلئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ آزادی مارچ عوام کو حقیقی آزادی دلانے کا باعث نہیں بن پائے گا البتہ کچھ عرصہ آزادی کی خوش فہمی سے دوچار ضرور کرے گا اور انقلاب مارچ سے آنے والا انقلاب عوامی مفاد کی بجائے موروثی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کے تحفظ کا باعث بنے گا اور موجودہ سیاسی صورتحال مکمل طور پر حکمرانوں کی مرضی ومنشاءکے مطابق مکمل کنٹرول میں ہے ۔ریڈ زون کے لہوئے انسانی سے سرخ ہونے کے نتیجے میں مارشل لاءآتا ہے ‘ عدلیہ حکومتی رخصتی کا فیصلہ کرتی ہے ‘ پارلیمنٹ کو قومی مفادات کے نام پر تحلیل کیا جاتا ہے یا شاہراہ دستور پر پر امن دھرنے کے چند یوم اور جاری رہنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے مڈ ٹرم انتخابات کا فارمولہ طے پاتا ہے ہر صورت فتح موجودہ حکمرانوں ‘ موروثی سیاستدانوں ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ میاں صاحب اور جمہوریت کے نام پر عوام کو غلام بنائے رکھنے والوں کی ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت معاملات کو اس طرح سے سنبھالنے کی کوشش نہیں کررہی جس کی کی توقع میڈیا نمائندگان کو تھی یا جس کا مظاہرہ جماعت اسلامی ‘متحدہ قومی موومنٹ اور دیگرپارلیمانی جماعتیں کررہی ہیں کیونکہ یہ سب خاندانی سیاست ‘ قیادت اور اقتدار کے تحفظ کا کھیل ہے لیکن ہوسکتا ہے جس طرح کئی باراس کھیل میں بھٹو خاندان نے قربانی دی ہے اس بار قربانی کا قرعہ شریف خاندان کے نام آئے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14شہداءکے لہو کا لہو شہبازشریف کسی منطقی انجام سے دوچار کرتے ہوئے شریف خاندان کو آہوں اور سسکیوں کو مجبور کرجائے کیونکہ پہلے سے ہی بدنام عدلیہ افتخار چوہدری کے کردار کے باعث اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اپنے احترام و اعتماد کے وقار کیلئے اسے اپنے ان چہیتوں کا بھی احتساب کرنا ہوگا جنہیں ہمیشہ آئین و قانون کے نام پر تحفظ و سہارا دیا جاتا رہا ہے
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147194 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More