بیکانیر کے معروف شاعرشیخ محمد ابراہیم آزادؔ ؒ کے ساتویں
بیٹے اپنے آبائی گھر ’’آزاد منزل‘‘ بیکانیر میں ۱۹۰۵ء میں پیدا ہو ئے۔ جب
آپ نے ہوش سنبھالا تو آزاد منزل کی فضاء شعر و سخن سے منور تھی۔ آپ کی تر
بیت اپنے والد کے زیر سایہ ایسے ادبی ماحول میں ہو ئی کہ آپ کے اندر فہم و
سخن کا پیدا ہو جانا لازمی امر تھا، آپ کو ذوق سلیم ورثہ میں بھی عطا ہوا
تھا۔ مجموعہ کلام ’’گلزار خلیل‘‘ میں آپ رقمطراز ہیں کہ ’’ میں قبلہ و کعبہ
کے سایہ عاطفیت میں اسی فضا ء میں پلا اور مشق سخن کر تا رہا۔ آذاد منزل
میں اکثر نعتیہ مشاعروں کے چر چے رہتے تھے ۔ شعرأ کرام حوصلہ افزائی کے
خیال سے مجھے بلبل گلزار سخن کہتے تھے اور داد و تحسین سے نوازتے تھے ‘ ‘۔
خلیلؔ صمدانی مر حوم کو ذوق علم و ادب، شعر گوئی و شعر فہمی اور نبی آخر
الزماں حضرت محمد ﷺ کی چاہت و عقیدت اپنے والد بزرگوار محمد ابرہیم آزادؔ
سے ورثہ میں ملیں، ساتھ ہی آپ میں خدادا صلاحیت بھی پائی جاتی تھی۔ آپ کی
طبیعت قدرتی طور پر شاعرانہ تھی جو شعر و سخن کا ماحول آپ کو بیکانیر میں
میسر آیا اس نے آپ کی صلاحیتوں کو جلا بخشی بلکہ چار چاند لگا دیئے۔
خلیلؔ صمدانی کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو کسی مسلّم الثبوت استا د کی شاگردی
حاصل ہو جاتی تو حصول ِ تلمذ کے بعد آپ کے کلام میں چار چاند لگ جاتے۔ آپ
کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ اپنے والد سے ’’بوجہ ادب و لحاظ فیض ِ اصلاح حاصل
نہ کر سکے ‘‘۔ استاد الشعراء جناب بیخودؔ دہلوی کی شاگردی کے بارے میں جنا
ب خلیل صمدانی نے ایک واقعہ اپنے مجموعہ کلام ’’گلزار خلیل‘‘ میں اس طرح
بیان کیا ہے۔’’ ایک دفعہ سرمایہ نازش زبان دہلی جانشینِ حضرت داغؔ ، علامہ
بیخود دہلوی بیکانیر تشریف لائے ۔ صاحب مو صوف نے میرے والد ماجد سے ارشاد
فرمایا ’’ آزادؔ، خلیل کو ہمارا خلیل کر دیجئے، دو سال میں انشائاﷲ بیخود
ثانی بنادیں گے۔ بیخود صاحب قبلہ نے خود جلیبیاں منگوائیں اور کچھ پڑھ کر
میرا منہ جلیبی سے بھر دیااور باقی حاضرین میں تقسیم کر دیں اور دعا
فرمائی‘‘۔ جناب خلیل صمدانی لکھتے ہیں کہ’’ حضرت آزادؔ مجھے اس فن میں
الجھا نا ہی نہیں چاہتے تھے‘‘۔ آپ نے اس موقع پر بیخود ؔ دہلوی کی صدارت
میں آزادؔ منزل میں منعقد ہو نے والے مشاعرے میں جو اشعار پڑھے جن
سے خلیل صمدانی کے ذوق ، شعر فہمی کا اندازہ بخوبی ہو تاہے۔
تعجب ہے کہ مجھ کج مج زباں کو داد دیتے ہیں
یہ استادِ زماں ہو کر شہنشاہ ِ زباں ہو کر
مجھے شاگرد کر تے ہیں اجی میں طفل مکتب ہوں
یہ کیا کر تے ہیں بیخودؔ آپ استادِ زباں ہو کر
نہیں کچھ شک بڑوں کا شیوہ چھوٹوں کو بڑھا نا ہے
کریں تحسین وہ میرے شعر کی اہل زباں ہو کر
خلیلؔ خو شنوا نے کیا جمایا رنگ محفل میں
کئے ہیں دل مسخر آج تو معجزہ بیاں ہو کر
خلیل ؔصمدانی کی شاعری انسانی ذہن کو متاثر کرنے والی ہے ، شعریت سے بھر
پور ، زبان و بیان کے من جملہ قواعد کے عین مطابق نظر آتی ہے ، شاعری آپ کو
ورثہ میں ضرور ملی لیکن آپ فطرتاً شاعر ہیں اور آپ کو ایک حقیقی شاعر کہا
جاسکتا ہے۔ محمد حسن سلیمانی کا کہنا تھا کہ خلیلؔ صاحب ے نہایت نازک اور
حساس طبیعت پائی ۔ آپ خیالات میں اور طرز نگارش میں ہر اعتبار سے رَوش ِ نو
کو پسند کرتے تھے‘‘۔ مولانا ضیاء احمد بدایونی کا کا خیال ہے کہ خلیلؔ
صمدانی زبان کی صحت اور محاوروں کا بر محل استعمال ہے جو ان کی وسعت مطالعہ
اور پختہ مشقی کا بین ثبوت ہے‘‘۔ قاضی امین الدین حسین اثرؔعثمانی کا خلیلؔ
صمدانی کی شاعری کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’خلیلؔ صمدانی کو ذوقِ شعر وسخن
ورثہ میں ملا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ کی عمر کا بیشتر حصہ علالت و
یورشِ امراض میں بسر ہوا لیکن مذاقِ شعرو سخن انتہا کی سرحدوں کو عبور کرکے
رہا۔ باوجود علالت کے آپ کے مزاج میں بیحدشوخی و بزلہ سنجی بدرجہ اتم ہے۔
اثرؔ عثمانی لکھتے ہیں کہ ’’اگر موصوف کے کلام کو بہ نظر غائر دیکھا جائے
تو اس میں میرؔ کی آہ، سوداؔ کی واہ، دردؔ کی صوفیت، ناسخؔ کی پہلوانی،
آتشؔ کا بانکپن، انشاءؔ کا تمسخر، جراتؔ کی بے باکی، ذوقؔ کی روانی، مومنؔ
کی رنگینی کی عکاسی پائی جاتی ہے‘‘۔‘‘۔ انصار محشرؔ عباسی امروہوی نے خلیلؔ
صمدانی کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ انہوں نے تمام
عمر غزل سے اٹھکھیلیاں کیں مگر اپنے ماحول سے بیگانہ نہیں رہے۔ بدلتے ہوئے
حالات کے ساتھ انہوں نے آنکھ کھولی کبھی اشاروں کنایوں میں اور کبھی کھل کر
کہا
آرہی ہے دل کی دھرکن سے یہی پیہم صدا
کچھ شہیدانِ وطن کا بھی فسانہ یاد ہے
لڑا نا اور لہو سے کھیلنا یہ کس سے سیکھا ہے
تباہی اور وطن کی یہ کہاں کی آدمیت ہے
خلیلؔ صمدانی کی نعت گوئی کے بارے میں محشرؔ عباسی کا کہنا ہے کہ ان کے
یہاں نعت شریف میں روکھا پھیکا انداز نہیں ان کی نعت میں تغزل ہے۔ ان کے
یہاں روح کو تڑپانے اور دل کو گرمانے والے اشعار کی کنی نہیں ‘‘۔
خلیلؔ صمدانی کی زندگی کا طویل عرصہ بیماری میں گزرا۔ اس کی تفصیل آپ نے از
خود اس طرح بیان کی ہے ’’میں اپنے متعلق کیا عرض کروں ، آشفتہ حال و پریشان
خیال، میری عمر کا بہترین زمانہ اکثر و بیشتر علالت میں گزرا۔ قریب تیس برس
مہلک و جاں فرسامرض کینسر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا رہا، فکر سخن کیا کر
تا اور کیسے کر تا اﷲ کا فضل اور انعام ہے اب جس حال میں ہوں اس کا بہت شکر
و احسان ہے‘‘۔ اس صورت حال کے با وجود آپ نے حوصلہ نہیں ہاراور خندہ پیشانی
سے ان حالات کا مقابلہ کر تے رہے۔ راقم الحروف کے والدمحترم انیس احمد مر
حوم جواپنے چچا جناب خلیل صمدانی مر حوم سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے تھے
کے بارے میں یہ واقعہ اکثر سنایا کر تے تھے کہ ان کے مرض کا تعلق ان کے حلق
اور گلے سے تھا جس کے باعث آپ کی آواز بند ہو گئی تھی، ہر طرح کا علاج کیا
مگر کوئی صورت نہیں بنی اور کافی وقت گزر گیا، آپ اﷲ کی ذات پر مکمل بھروسہ
کئے ہو ئے تھے، آپ اپنے گھر ’آزاد منزل ‘ کی چھت پر نماز مغرب ادا کررہے
تھے، سلام پھیرا تو سامنے چاند نظر آیا جو محرم الحرام کا چاند تھا، آپ نے
اس وقت دل سے دعا مانگی اور یقیناً آپ نے نواسہ رسول اور آل محمد کے حوالے
سے اپنی بیماری اور آواز کی بحالی کے لئے خصو صی دعا مانگی ہو گی۔ والد
صاحب کے مطابق دعا کے دوران آپ کو کھانسی اٹھتی ہے اور آپ کے حلق سے اچانک
کچھ مادہ خارج ہو تا ہے اسی اثنا آپ کو محسوس ہو تا ہے کہ آپ کی آواز بحال
ہو گئی ہے ، آپ اس بات کی اطلاع اپنے اہل خانہ کوجاء نماز پر بیٹھے بیٹھے
دیتے ہیں اس طرح آپ از سر نو بات کر نے لگتے ہیں۔ یہ یقیناً ایک معجزہ ہی
ہو سکتا ہے۔
خلیلؔ صمدانی غزل کے علاوہ نعت گو شاعر بھی تھے، غزل کی طرح آپ کی نعت میں
بھی فنی حسن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔عقیدت و احترام اور ڈوب کر شعر کہنا آپ
کا خاصہ ہے۔خلیل صمدانی پہلے اپنے چچا جناب عزیز احمد کی دخترمحترمہ عجیبہ
خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو ئے جن سے آپ کی ایک صاحبزادی عقیلہ خا
تون ہو ئیں جن کی شادی جناب وکیل احمد صمدانی سے ہو ئی،محترمہ عجیبہ خاتوں
کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی محترم عزیز احمد کی دوسری صاحبزادی
عتیقہ خاتون سے ہوئی جن سے آپ کے تین بیٹے تابشؔ صمدانی مر حوم طالب
احمدصمدانی اور حسین صمدانی ہیں اور چار بیٹیاں طیبہ مر حومہ زوجہ حافظ
ضیاء احمد مشتاق مرحوم، طاہرہ(بے بی) زوجہ جناب رضاء احمد مشتاق، قدسیہ
زوجہ وہاج الحق اور سعدیہ مرحومہ زوجہ خالد قریشی جو کم عمری میں ہی انتقال
کرگئیں۔اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فر مائے بہت ہی خوش مزاج تھیں۔خلیل ؔ صمدانی
کے بڑے صاحبزادے جناب تابشؔ صمدانی مر حوم کو شعری ذوق اپنے آباؤ اجداد سے
ورثہ میں ملا ، آپ صاحب دیوان نعت گو شاعر تھے ، وکالت آپ کا پیشہ تھا۔آپ
کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’مر حبا سیّدی، برگ ثنا ‘‘،شامل ہیں۔اِن کے علاوہ
’نذر سعید ‘ ’گلزار خلیل‘ اور ’منقبت کے پھول‘ جناب تابش ؔ صمدانی کی مطبو
عات ہیں۔ آپ کے انتقال سے کو ئی ایک ماہ قبل راقم الحروف کومر حوم سے
ملاقات اور تیمارداری کا شرف حاصل ہوا لیکن افسوس آپ کے انتقال پر ملتان
پہنچ کر بھی تدفین میں شرکت کا شرف حاصل نہ ہو سکا جس کا ہمیشہ افسوس رہے
گا ۔
۱۹۷۰ء میں جناب خلیلؔ صمدانی مر حوم اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے بڑے بھائی
محترم انیق احمد مرحوم کی تیمار داری کے لئے ملتان تشریف لائے۔ پاکستان میں
آپ کی آمد عارضی اور صرف تین ماہ کے لئے تھی۔ اس دوران آپ عارضہ قلب میں
مبتلا ہو ئے، اچانک دل کو دورہ پڑا اور آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۱۵ جون ۱۹۷۰
ء کو مالک حقیقی سے جا ملے اور ملتان کی سر زمین مدینتہ الا ولیاء کو اپنی
ابدی آرام گاہ بنا یا۔
منتخب اشعار:
ملک پر قربان ہونا ہے حیاتِ جاوداں
دردمندانِ قطن کی قوم سے فریاد ہے
آؤ سب مل کر بدل دیں اب نظام زندگی
زندگی میں اِک نئی روح و رواں پیدا کریں
لڑانا اور لہوسے کھیلنا یہ کس سے سیکھا ہے
تباہی اور وطن کی یہ کہاں کی آدمیت ہے
پہلی نظر کے پڑتے ہی پتلی پھڑک اٹھی
دیکھا جو باب روصۂ اطہر کھلا ہوا
رات بھر شمع نے گھل گھل کے بہائے آنسو
صبح کو ختم تھی یہ سوگ تھا پروانے کا
اکِ وہ کہ دو قدبھی نہ ہمراہ چل سکے
اک ہم کہ ساتھ لے کر گم دوجہاں چلے
سَر اِس لیے ملے ہیں کہ محو سجود ہو
لَب اِس لیے ملے ہیں کہ میں ان کا نام لوں
لگا اﷲ کے گھر سے پتہ ہم کو ترے گھر کا
ترے گھر سے خبر ہم کو ملی اﷲ کے گھر کی
حُسن تو مَعصوم ہے کیا حُسن کو الزام دوں
میری قاتل بن گئی میری نظر میرے لیے
وہ دل نہیں جس میں کوئی ارماں نہیں ہوتا
وہ گھر نہیں جس میں کوئی مہماں نہیں ہوتا |