آزادی کی قدر بھارتی مسلمانوں سے پوچھئے

 12اگست کے روز بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کے نمائندہ رہنما اور رکن پارلیمان نے دوران خطاب بتایا کہ مودی حکومت کے آنے کے بعد دو ماہ کے عرصے میں ملک بھر میں سب سے زیادہ چھ سو سے زیادہ فرقہ وارانہ(مسلم کش) فسادات ہو چکے ہیں۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا مودی حکومت کیا اپنے اقتدار کے محل کو مسلمانوں کی لاشوں پر ہی کھڑا کرے گی؟یہ تو ملک کو کمزور کرنے والی بات ہو گی۔

آج 10 اگست ہے۔ بھارت کے اردو اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’آج 10 اگست، یوم سیاہ کیوں؟‘‘۔ 10 اگست 1950ء کو کانگرس کی مسلم مخالف حکومت نے مسلمانوں کی پچھڑی جماعتوں کو آئین کے آرٹیکل 341 کے تحت ملنے والی سہولیات سے محروم کر دیا، جس کی وجہ سے آج ہم 33 سے 35 فیصد سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں نیز سیاست میں ہونے کے بجائے صرف ایک فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ عوام سے گزارش ہے کہ آج کالی پٹی باندھ کر کانگرس کے اس حکم کے خلاف احتجاج کریں۔

اس اشتہار نے تو چونکا کر رکھ دیا۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ بھارتی مسلمانوں پر ظلم و جبر شاید بی جے پی ہی کرتی ہے کیونکہ کانگرس تو خود کو سیکولر کہلاتی ہے اور مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹ بھی اسے ہی ملتے ہیں لیکن بھارتی مسلمانوں کی تو بڑی دشمن کانگرس ہی رہی ہے۔ بی جے پی نے تو اس کے مشن کو کچھ زیادہ تیزی سے آگے بڑھایا ہے۔ بھارت میں اس وقت مسلم دشمنی ہی میں حکومت و اقتدار میں آنے اور طاقت میں رہنے کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ رہ گئی ہے، اسی لئے ہر کوئی ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی مثل سب سے زیادہ مسلمانوں کے درپے نظر آتا ہے۔

گزشتہ ہفتے نئی دہلی سے آنے والی اس خبر نے حیران کر دیا کہ بھارتی شہر میرٹھ کے قصبہ ملیانہ میں آج سے 27 سال پہلے جو مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، اس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 22 مئی 1987ء کو جمعۃ الوداع کی شب محلہ ہاشم پورہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین معمول توتکار کے بعد جھگڑا ہوا۔ پھر یہاں مقامی پولیس فورس جسے پی اے سی کہا جاتا ہے، کو طلب کیا گیا۔ پی اے سی نے تلاشی کے نام پر محلے بھر کے مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور پھر سب کو ٹرک میں بھر کر تھوڑے فاصلے پر واقع گاؤں مانک پور لے گئے۔ پھر وہاں انہوں نے ہنڈن ندی اورغازی آباد کی نہر کے کنارے ان سب کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ یہاں 42 مسلمان جام شہادت نوش کر گئے۔ اس مقدمے کو شروع ہوئے 28 واں سال ہے لیکن فیصلہ کوئی نہیں ہوا بلکہ قاتلوں میں سے کوئی گرفتار تک نہیں۔ مقدمہ کی اب 87گواہیاں مکمل ہوئی ہیں اور مقدمہ ابھی ذیلی عدالت میں ہے۔ یعنی اتنے کھلے اور بدترین قتل پر بھی مسلمانوں کو انصاف ملنے کی امید ہے تو یہی کہ ممکن ہے ذیلی عدالت ان کے حق میں کوئی کلمہ خیر کہہ دے۔

آج کل بھارت کی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے ایک مدرسہ کا مقدمہ پورے عروج پر ہے جہاں ایک مقامی لڑکی کی مدرسہ میں ملازمت کو تبدیلی مذہب قرار دے کر پورے ملک کے مدارس خوب بدنام کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے مدارس میں ایک طرف ہندو لڑکیوں کو جبراً یا محبت کے دام میں پھنسایا جاتا ہے اور انہیں مسلمان بھی کہا جاتا ہے تو وہیں ان کی عزتیں بھی لوٹی جاتی ہیں۔ یہ معاملہ اس قدر سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے کہ مدرسے کے دو اساتذہ جان بچانے کے لئے مدرسہ سے بھاگ چکے ہیں۔
معہد البنات نامی مدرسہ میں پڑھانے والی ایک مسلم استانی نے واقعہ سے دو دن پہلے اپنی ایک سہیلی کو مدرسہ لایا اور اسے اپنے اعتماد پر نوکری دلانے کے نام پر یہاں رکھا اور پھر وہ لڑکی یہاں سے فرار ہو گئی۔ پکڑے جانے پر اس نے مدرسہ میں اغوا و تبدیلی مذہب کا ڈرامہ رچا دیا اور سارے ملک میں مسلمانوں اور ان کے مدارس کی شامت آ گئی۔

بھارت میں مسلمانوں کی ایک بڑی دشمن تنظیم وشواہندو پریشد بھی ہے جس نے اب بھارت میں ’’ہندو ہیلپ لائن‘‘ کے نام سے ملک بھر میں ایسے دفاتر قائم کر دیئے ہیں جن کا مقصد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی مدد کرنا ہے۔ نئی دہلی میں ’’ہندو ہیلپ لائن‘‘ کے رابطہ کار دیپک کمار کے مطابق ’’لوگوں نے ہم کو آگاہ کیا ہے کہ مدارس میں گائیں لے جائی جا رہی ہیں جس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ سکولوں میں بھی غیرقانونی مذبح خانے چل رہے ہوں، ہم کئی جگہ گروپ کی شکل میں پہنچے اور گایوں کو بچایا۔ ہم یہ سب ہندوؤں کے لئے ویسے ہی کر رہے ہیں جیسے عیسائی اور مسلمان اپنے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک میں کوئی ہندو اپنے آپ کو بے بس اور بے یارومددگار نہ سمجھے‘‘۔ دیپک کمار نے واضح کیا کہ ہمیں کو سب سے زیادہ شکایتیں جو موصول ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق مسلم لڑکوں کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو ہراساں کئے جانے کا ہے۔ یہ شکایتیں بھی موصول ہوئی ہیں کہ جن ہندو خواتین کی شادیاں بھی موصول ہوئی ہیں کہ جن ہندو خواتین کی شادیاں مسلم لڑکوں کے ساتھ ہوئی تھیں وہ اپنے گھر واپس آنا چاہتی ہیں۔ اس معاملہ میں بجرنگ دل کے کارکنان اور ہندو سماج سے وابستہ نوجوانوں نے ان عورتوں کی مدد کی ہے۔ ادارہ کے رکن شیبو بھائی نامی ہندو نے بتایا کہ وہ ان ہندو افراد کی مدد کرتے ہیں جن کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ایک رضاکار نے واضح کیا کہ کسی ہندو علاقہ میں اگر کوئی مسلمان جائیداد خریدتا ہے تو ہم اس کو وہاں روک دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال کے اوائل میں ایک ویڈیو میں بتایا گیا تھا کہ گجرات کے بہاولنگر شہر میں ایک میٹنگ میں بی جے پی کے رہنما پرویز توگڑیا نے یہ شرانگیز بیان دیا تھا کہ ہندو اکثریتی علاقے میں اگر کوئی مسلم جائیداد خریدے تو اس کو وہاں سے روک دینا چاہئے۔ سو اب اس ادارے کے ذریعے ہندو جہاں چاہتے ہیں، مدرسہ، مسجد یا مسلم آبادیوں میں گھس جاتے ہیں اور انہیں کوئی روک بھی نہیں سکتا۔

بھارت میں مسلمانوں کی ایک اور نامی گرامی دشمن تنظیم کا نام شوسینا ہے جس کا مرکز ممبئی شہر ہے۔ اس شہر میں آج کل ایک مسئلہ زوروں پر ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جمعۃ المبارک کی نماز مساجد میں جگہ کی قلت کے باعث سڑکوں پر ادا نہ کرنے کی دی جائے۔ یہاں یہ مسئلہ 1980ء کی دہائی سے جاری ہے۔ شہر کے علاقہ قلابہ میں ریگل سینما کے پاس مشہور مسلم کاروباری ادارے الانا گروپ نے جب جمعہ کی نماز کے لئے کوئی انتظام نہیں تھا ایک رہائشی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر مسجد قائم کی تھی۔ یہاں چونکہ جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی رش ہو جاتا تھا اس لئے نمازیوں کی صفیں سڑک تک پہنچنے لگیں تھیں۔ اس کے خلاف بالی ووڈ کی ایک جونیئر یہودی اداکارہ اور اس کے عیسائی شوہر نے شورشرابہ شروع کیا۔ انہیں ہندو فرقہ پرستوں کی حمایت حاصل ہوئی۔ ان دونوں نے بعد میں قلابہ میں ہونے والی نماز جمعہ کے خلاف عدالت میں پٹیشن بھی دائر کی تھی جس میں یہ کہا گیا کہ سڑک پر نماز جمعہ کی ادا کرنے سے راہ گیروں اور ٹریفک کو تکلیف ہوتی ہے اور ایمرجنسی اور رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ الانا گروپ نے اس مسئلہ کا یہ حل تلاش کیا کہ اس مسجد میں جمعہ کی نماز کی دو یا تین جماعتیں ہونے لگیں تاکہ سڑکوں پر نماز کی نوبت نہیں آئے۔ انہی مسائل کو دیکھتے ہوئے ممبئی جہاں بھارت کی سب سے بلند عمارتیں اور بھاری آبادی ہے لیکن مسلمانوں کے لئے مساجد نہیں۔ مسلمانوں نے فلک بوس عمارتوں میں کہیں کار پارکنگ کی جگہوں کو اور کہیں انڈر گراؤنڈ بیسمنٹ کو مسجدوں میں تبدیل کیا گیا ہے جو بھارتی قانون کے مطابق غیرقانونی حرکت ہے۔ سو ان عمارتوں کو او سی Occupation-certificate نہیں مل سکا ہے اور ان فلک بوس عمارتوں کی حیثیت غیرقانونی عمارتوں جیسی ہو چکی ہے۔ اس لئے ان فلک بوس عمارتوں کو بجلی اور پانی کا قانونی کنکشن نہیں ملا ہے۔ ان عمارتوں کے مکینوں کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے اور عارضی پانی کنکشن کے لئے زائد رقم ادا کرنا پڑ رہی ہے۔یوں اب ممبئی کے مسلمان سب سے زیادہ پریشانیوں اور نئی مصیبتوں میں مبتلا ہیں-

یہ اس ملک کے مسلمانوں کا حا ل ہے جہاں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن غلامی نے انہیں اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے لکے قابل بھی نہیں چھوڑا۔پھر کیا خیال ہے؟ اہل پاکستان! اس ملک اور آزادی کا۔

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.