میلبورن دنیا کا پہلا ’ سگریٹ فری‘ شہر

دنیا بھر میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے سالانہ پانچ لاکھ اموات ہوتی ہیں،سگریٹ کے ذریعے کئے جانے والے نشے اور شیشہ نوشی کے سبب 60لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں شیشہ نوشی بڑھ رہی ہے۔

آسٹریلیا کے شہر میلبورن کو دو سال بعد دنیا کے پہلے سگریٹ فری شہر ہونے کا اعزاز مل جائے گا۔ میلبورن شہر کے کونسلر رچرڈ فوسٹر نے کہا ہے کہ 'اس طرح ہم دنیا بھر کے لوگوں اور سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن کی خواہش ہوگی کہ وہ کسی سگریٹ فری شہر میں جائیں'۔انہوں نے بتایا کہ اس منصوبہ کے تحت کسی سڑک ، گلی ، ریسٹورنٹ اور دیگر عمارتوں میں کام کرنے والوں کو سگریٹ سلگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔فوسٹر کے مطابق سگریٹ نوشی کیلئے انتظامیہ خصوصی شیلٹر بنائے گی جہاں شہریوں کو سگریٹ پینے کی اجازت ہوگی۔ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 25 لاکھ افراد کی ہلاکتیں صرف شراب نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ دیگر نشہ آور اشیاکے استعمال سے ہونے والا جانی نقصان اس علاوہ ہے۔ ہمارے ملک میں بھی منشیات کی پیداوار اور اس کے عادی افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن ہماری حکومتوں کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ صرف لاہور شہر میں تقریبا 75ہزار لوگ نشے کے عادی ہیں جن میں 20ہزار سے زائد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ نشہ آور اشیاکے استعمال میں شراب، شیشہ نوشی،نشہ آور انجیکشن،خواب آور گولیاں، نشہ آورشربت، کیفین، ہیروئن اور چرس وغیرہ شامل ہیں۔ منشیات میں صرف شراب نوشی ہی ہلاکتوں کا باعث نہیں بلکہ شیشہ نوشی اور سگریٹ کے ذریعے کئے جانے والے نشے بھی انتہائی خطرناک ہیں بعض تو کیمیکل سونگھنے کا انتہائی زہریلہ نشہ بھی کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب صوبہ بھر میں منشیات کی روک تھام اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے لئے دور رس اقدامات کئے اور تمام وسائل بروئے کار رہی ہے۔ پنجاب حکومت وفاقی اداروں اورمختلف بین الاقوامی اور مقامی این جی اوز کے تعاون سے منشیات کے پھیلاؤ کو روکنے، عوامی شعور اجاگر کرنے اور اس سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔دنیا بھر میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے سالانہ پانچ لاکھ اموات ہوتی ہیں،سگریٹ کے ذریعے کئے جانے والے نشے اور شیشہ نوشی کے سبب 60لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔منشیات کے حوالے سے لاہور کی صورت حال بھی ملک کی مجموعی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق لاہور میں نشہ کے عادی افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جن میں 25سے30ہزار ہیروئن استعمال کرتے ہیں جبکہ 15سے20ہزار افراد ہیروئن یا کوئی اور نشہ بذریعہ انجیکشن لے رہے ہیں اور یوں وہ انجکشن کے غیر محتاط استعمال سے ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا بھی شکار ہورہے ہیں۔نوجوان عمر کے لڑکے لڑکیاں شیشہ نوشی کو فیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں جو نشہ کی انتہائی مہلک شکل ہے۔لاہور کی کل آبادی میں 2سے3فیصد کام کاج کے قابل لوگ نشے کی علت میں گرفتار ہو کر یا تو کام کاج کے قابل نہیں رہے یا کام کاج کرنے سے گریز کرتے ہیں یوں معاشی سرگرمیوں سے کٹ کر اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے معاشی، جسمانی اور روحانی بوجھ بنے جاتے ہیں۔حکومت کی کوشش ہے کہ 2020 تک پاکستان کو منشیات سے پاک ملک بنایا جائے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے صوبائی دارالحکومتوں اور پھر بتدریج تمام شہروں کو منشیات سے پاک کرتے چلے جانا ہے۔’’لاہور ڈرگ فری سٹی‘‘ منصوبہ اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس کے تحت حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب مختلف اداروں اور این جی اوز کے تعاون سے مشترکہ طور پر لاہور کو منشیات سے پاک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔اپنی قدیم ثقافت، روایات اور علمی و ادبی سرگرمیوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور لاہور کو منشیات سے پاک کرنے کے لئے حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت مربوط کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔متاثرہ زندگیوں کو اس لعنت سے بچانے کے لئے 100ملین روپے کی خطیر رقم سے’’ لاہور ڈرگ فری سٹی ‘‘کا منصوبہ بھرپور انداز میں جاری ہے۔اینٹی نارکوٹکس فورس،پولیس، غیر سرکاری تنظیموں اور تمام اداروں کے تعاون سے منشیات کے نقصانات سے آگہی، نشے میں مبتلا افراد کے علاج معالجے اور منشیات فروشوں کی بیخ کنی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں۔3 سال پر مشتمل اس پراجیکٹ کو شروع ہوئے 2سال ہوچکے ہیں جبکہ اس پراجیکٹ پر 60ملین روپے وفاق اور 40ملین روپے پنجاب حکومت کی جانب سے فنڈز کی صورت میں فراہم کئے جارہے ہیں۔اس پراجیکٹ پر 18مختلف محکمے کام کررہے ہیں۔منشیات کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے لاہور میں 1375مختلف ورکشاپس، کیمپس لیکچرز، تصاویری نمائش، سیمینارز،تقریری وکھیلوں کے مقابلے اور واک سمیت دیگر ایونٹس منعقد کروائے جاچکے ہیں۔سی سی پی او لاہور کو اس کا سربراہ بنایا گیا ہے جو پولیس کی کمان کررہے ہیں اور انہوں نے تمام پولیس افسران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ منشیات فروشی کے عادی افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے کی بجائے منشیات فروخت کرنے والے بڑے مگرمچھوں کو پکڑیں جو اس لعنت کو شہر میں پھیلا رہے ہیں۔لاہور ڈرگ فری سٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر الطاف قمر نے وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف سے بھی اس حوالے سے خصوصی ملاقات کی جس کے بعد حکومت پنجاب کی جانب سے منشیات میں مبتلا افراد کے لئے مینٹل ہسپتال میں100بستروں پر مشتمل ایک علیحدہ ہسپتال کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ سال 2011کے دوران منشیات فروشی کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کرتے ہوئے 11130ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 74کلو سے زائد افیون، 482کلو سے زائد ہیروئن،1895کلوگرام چرس اور 74066شراب کی بوتلیں قبضے میں لی گئیں جبکہ سال 2012کے دوران مقدمات کی تعداد میں کمی واقع ہوئی، 6121مقدمات درج کئے گئے، 6374ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ 75کلوگرام سے زائد افیون،313کلوگرام سے زائد ہیروئن، 1669کلوسے زائد چرس اور شراب کی 64627بوتلیں قبضے میں لی گئیں۔منشیات کے خلاف جہاد میں ساری قوم متحد ہے، لیکن سندھ میں بڑی ہوٹلوں میں شیشہ پینے پر پابندی نہیں ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں بھی اس کا رضحان بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ساتھ عوام میں منشیات کے مضر اثرات اور تباہ کاریوں کے حوالے سے شروع کی گئی آگاہی مہم کو بھرپور طریقے سے کامیاب بنایا جائے اور متعلقہ اداروں کی کوششوں کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے میں بھرپور تعاون کیا جائے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو اس منصوبے کی کامیابی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ والدین اور خاندان کے دیگر افراد کا کردار اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنے بچوں پرنظر رکھیں کہ وہ کیسی صحبت میں اپنا وقت گزار رہے ہیں تاکہ وہ بے راہ روی کا شکار ہو کر نشہ کی لعنت میں مبتلا نہ ہوسکیں یہی وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے لاہور کے شہریوں کو منشیات سے بچانے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد کے نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں بھی تشویش ناک رپورٹ منظر عام پر آچکی ہیں۔ سگریٹ کے کش لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سگریٹ کا دھواں سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیت کو اس قدر دھندلا دیتا ہے کہ ان بے شمار زہریلے مرکبات کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی جو سگریٹ میں موجود ہوتے ہیں۔ لوگوں کو سگریٹ سے بچنے کی ترغیب دینے والی ویب سائٹ ’’سموک فری فورسیتھ‘‘ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سگریٹ میں قریباً 4 ہزار زہریلے مرکبات پائے جاتے ہیں، یہ وہی کیمکل ہیں جو کہ صفائی کیلئے استعمال ہونے والے تیزاب، نیل پالش اتارنے والے کیمیکل، آرسینک جیسے زہر، ایندھن، امورنیا اور چوہوں کو مارنے والے زہر میں شامل ہوتے ہیں اور تو اور سگریٹ میں خطرناک گیس کاربن مانو آکسائیڈ اور خطرناک زہر سایانائیڈ جیسے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔ ماؤنٹ سینائی سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر لزکلاڈیو نے بتایا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ سگریٹ میں قدرتی تمباکو کے علاوہ سینکڑوں ایسے کیمیکل اور مرکبات اضافی طور پر شامل ہوتے ہیں کہ جو انسانی صحت کیلئے زہر قاتل ہیں۔ واضح رہے کہ سگریٹ دنیا بھر میں ایسی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ جن سے بچاجاسکتا ہے اور سگریٹ کے دھوئیں سے صرف امریکہ میں 50 ہزار کے قریب ہر سال وہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں جو کہ خود سگریٹ نوش ہوتے ہیں۔اسکول اور کالجوں میں بھی منشیات کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں میں مقبول شیشہ عربی طرز کا حقہ ہے جس میں گرم پانی اور پائپ کے ذریعے تمباکو کو کوئلہ کے ذریعہ جلاتا ہے اور جس کا دھواں بھرپور کش کے ذریعہ اندر کی جانب کھینچا جاتا ہے۔شیشہ پینے والا جب کش لیتا ہے تو دھوئیں کے اندر تمام زہریلے مادے پانی سے ہوتے ہوئے دھوئیں کی شکل میں انسانی جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔برطانوی ادارے ٹوبیکو کنٹرول ریسرچ کا کہنا ہے کہ شیشے کا کش لگانا اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ سگریٹ پینا خطرناک ہے۔ تازہ ترین ریسرچ کے مطابق ایسے لوگوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کا لیول سگریٹ نوشوں کی نسبت چار سے پانچ گنا تک زیادہ ہو سکتا ہے اور کاربن مونو آکسائیڈ کی غیر معمولی مقدار دماغ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ سگریٹ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں آج کے دور میں خود کو سگریٹ نوشی سے بچائے رکھنا کیا کسی چیلنج سے کم ہے؟

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419012 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More