مٹاپا بڑھاپا سیاپا

ان تینوں کے آخر میں موجود پانے ان کو ہم آواز اور ہم خصائل بنادیا ہے۔ ظاہر ہے جس بھی انسان کو پہلے دو لاحق ہو چکے ہوں اس کو آخر والا لاحق ہونا یقیینی بات ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلے دو پا کوئی لینا نہیں چاہتا مگر یہ دونوں پھر بھی ہر ایک کی جان کو چمٹنے میں رہتے ہیں۔ انسان نے آج کتنی ترقی کر لی ہے مگر پھر بھی بڑھاپے سے نجات پانے کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکا۔ اسی طرح مٹاپا بھی آج کے دور میں پہلے سے زیادہ تنگ کئے ہوئے ہے اور وجہ تو سب جانتے ہیں مانتے ہیں بس چھوڑتے نہیں۔

انسان کو ملنے والے مٹاپے نے آج بہت سے لوگوں کو روزگار فراہم کردیا ہے۔ جی ہاں ان لوگوں کو جو کہ اس سے نجات دلانے کا لارا دیتے ہیں اور وعدہ بھی کرتے ہیں مگر بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ صارف کو مٹاپے سے نجات ملے یا نہ ملے مگر ان لوگوں کے ہاتھوں اپنی جیب سے ہاتھ ضرور دھونا پڑ جاتے ہیں جسکا احساس جیب کمزور ہونے اور جسم کے مزید پھولنے ر ہی ہوتا ہے۔ وجہ بضاہر سیدھی اور سامنے نظر آرہی ہے کہ مٹاپے سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہر ایک کو جو بھی سستا اور پہنچ میں آنے والا طریقہ نظر آئے وہ بخوشی اپنا لیا جاتا ہے۔ بغیر طریقی کی صداقت اور معیار کو جانچے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس 'بیماری' سے شفا یاب کرنے کے ادارے یا سنٹرز کہہ لیں ہر جگہ کھلے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے باہر دردمند بھی ان سے شفا لینے کو بہت سارے تیار نظر آتے ہیں۔

بڑھاپا ہمارے ہاں خود ایک بیماری سمجھا جاتا ہے اور درحقیقت اس بات میں صداقت ہے بھی کیونکہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں بہت آرام سے کیا جاتا ہے جہاں لوگ ایام جوانی میں صحت کا خیال رکھنا ایک فالتو خیال سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بڑھاپا درد نا اور یہبت ناک اور وحشتناک ثابت ہوتا ہے۔ اس سے نجات کے لئے نہیں البتہ اس عمر کے حصے میں لاحق ہونے والی بیماریوں سے نجات پانے کا بندوبست کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ بدقسمتی سے نجات نہیں صرف شدت میں کمی اس دور میں ممکن ہوتی ہے۔ ہمارا ملک وہ ملک ہے جہاں لوگ چالیس کی عمر میں خود کو بوڑھا سمجھنا شروع کر دیتے ہی ں اور ساٹھ سال کی عمر میں ملک الموت کا انتظار کرنے لگتے ہیں جبکہ اوسط عمر ستر سال تک تو ضرور ہے۔

بڑھاپا آنا بہر حال ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں کیونکہ بڑھاپا اور شادی کے بعد زندگی میں سیاپا لازم و ملزوم ہیں۔ آج جدید تحقیق یہ بات ثابت کررہی ہے کہ انسان کے جسم کا ہر عضو گیارہ ماہ میں مکمل طور پر بدل جاتا ہے اور نیا ہوجاتا ہماری آنکھ وہ آنکھ نہیں رہتی جو گیارہ ماہ پہلے تھی ۔

ہمارے ملک میں ایک تو حکومتی اقدامات کے حوالے سے صحت کے حوالے سے اقدامات انتہائی غیر تسلی بخش ہیں اور دوسری طرف جو کام انفرادی سطح پر کئے جاسکتے ہیں ان کے حوالے سے بھی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ نرگر کھانا یا نا کھانا آُ کے اپنے اختیار میں ہے سلاد کھانا یا نہ کھانا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اپنے جسم کے بارے میں اچھا سوچنا یا نہ سوچنا آپ کے اپنے اختیار میں ہے کیونکہ ااس کے بعد ہی آپ کے جسم کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ جب گیارہ ماہ میں نئے سیلز بنائے تو اچھی سوچ کی وجہ سے وہ آُپ کی صحت اور پرسنالٹی کا ستیا ناس نہ کرے بلکہ بہترین کرے کیونکہ بہرحال شعوری کوشش سے بہتر سوچنا آُپ کے اپنے اختیار میں تو ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293137 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More