نحمدُہ و نصلی علیٰ رسولہِ الکرین عما بعد۔
صدرِ مجلس اور دیگر شرکائے سماعت! زندگی عمل سے عبارت ہے۔ ربِّ کائنات کا
فرمان ہے کہ " لیسَ ِلاانسانَ الاّ سعیٰ" یعنی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے
جتنی وہ اس کے لیے کوشش کرتا ہے۔ یہ اصول انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔
ایک انسان اس پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتا ہے اور ایک قوم بھی
اس پر عمل کر کے اوجِ ثریا کو چھو سکتی ہے اور دوسروں قوموں سے آگے نکل
سکتی ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے ان نوجوانوں سے مخاطب ہوں جو آوارگی، بے
مقصدیت اور بے راہروی کے خار دار راستوں کے ہمسفر بنے ہوئے ہیں۔ چوکوں،
چوراہوں، ہوٹلوں، ویڈیو سنٹروں، جولے اور تاش کے اڈوں پر بیٹھے نوجوانوں سے
کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی قسمت کو بے کار اشغال میں ہارنے والے نوجوانون!
اٹھو قرآن کی پکار سنو! قرآن تمہارے بازؤں کی طاقت سے باطل کو شکست دینا
چاہتا ہے۔ ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گرم گرم خون کی
توانائیوں کو معاشرے کی خدمت کے لیے استعمال کروانا چاہتے ہیں۔ تمہاری
بھوکی پیاسی ماں تم سے روٹی مانگ رہی ہے۔ تمہارا بوڑھا باپ تم سے دوائی کے
پیسے مانگ رہا ہے۔ تمہاری بہنیں اور بھائی گندگی کے ڈھیروں سے روٹی کے ٹکڑے
چن کر کھانے پر مجبور ہیں اور تم بیٹھے تاش کی بازی لگا رہے ہو اور جوئے کے
اڈے پہ بیٹھ کر دن گزار رہے ہو۔ سُنا ہے میرے اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے تم سے
کیا کہا ہے
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری
صدرِ ذی وقار! آج کا نوجوان خواہشات کا بندہ بنا ہوا ہے۔ دل میں خواہشات
اور آرزوؤں کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے۔ سوچتا ہے کہ دنیا و مافیہا کی ہر
دولت اس کے قدموں میں ڈھیر ہو جائے۔ جام و مینا کی ساری رعنائیاں اس کی
باندی بن جائیں۔ کاریں، کوٹھیاں اور بنگلے اس کے نصیب میں لکھ دیے جائیں
مگر یہ کیوں نہیں سوچتا کہ سب کچھ تو صرف جنت میں ہی ممکن ہے اور جنت اس
دنیا کی زندگی سے بعد ملے گی۔ ایسے شیخ چلی اسلام کے مطلوب انسان نہیں بلکہ
احمقوں کی جنت میں رہنے والے اس دھرتی کا بوجھ ہیں۔ زندہ انسان اپنی دنیا
آپ پیدا کرتا ہے۔ جو دوسروں کے سہارے جیتا ہے اقبال اسے مردہ انسان سے
تعبیر کرتے ہیں۔
یہی حال ان قوموں کا ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی بجائے دو دروں کے
ٹکڑوں پر پلتی ہیں۔ علم و ادب اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خود
کفالت حاصل کرنے کی بجائے دوسروں کی دستِ نگر بن کر رہنا پسند کرتی ہیں۔
اپنی لائبریریاں اپنی قومی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھرنے کی بجائے
دوسروں کی لکھی ہوئی کتابوں پر اکتفا کرتی ہیں اور انہیں بطورِ نصاب رائج
کرتی ہیں۔ اپنے اوپر ایجادات کے دروازے بند رکھتی ہیں۔ تحقیق و تخلیق کے
ذریعے نئی نئی ایجادات سے اپنی قوم کو محروم رکھتی ہیں۔ چند ڈالروں کے عوض
اپنی تعلیمی اور معاشی پالیسی کو بیچ دیتی ہیں۔ وہ قوم جو عمل سے تہی دست
ہو جاتی ہے خدا بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ خدا کا رسول بھی اس سے منہ
موڑ لیتا ہے۔ وہ قومیں جو ہمارے بعد میں آزاد ہوئیں مگر اب وہ عمل کی بھٹی
میں تپ کر کندن بن چکی ہیں۔ خود کفالت، تحقیق و تخلیق اور ایجادات اختراعات
کے دروازے ان پر وا ہو چکے ہیں۔ دنیا میں سپر طاقت کے منصب پر فائز ہو چکی
ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ تریسٹھ سالوں میں بھیک مانگنے کو ہی اپنی قسمت سمجھتے
رہے ہیں اور اب تک مانگ رہے ہیں۔ کہاں کھو گئی ہیں میرے قائد کی چیخیں جس
نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
میں اپنے حکمرانوں سے واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا کشکولِ
گدائی پھینک دو! بھیک مانگنا بند کردو۔ لوگوں کو قطاروں میں کھڑے کر کے ایک
ایک پاؤ چینی دے کر بھکاری پن کی تربیت مت دو۔ ان کو ڈاک خانوں کے باہر
لمبی لمبی قطاروں میں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے رکھ کر ایک ایک ہزار روپیہ مت
دو۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس کا جنازہ مت نکالو۔ انہیں کام پر لگاؤ ۔ اس پیسے
سے ملک میں کارخانے اور فیکٹریاں لگاؤ۔ انہیں بے کار کر کے معاشرے کا ناسور
مت بناؤ۔ کیری لوگر بل اور دوسرے امدادی پیکجوں کو ٹھوکر مار کر اپنے وسائل
پیدا کرو اور اگر اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلو گے تو قسم خدا کی یہ قوم تو
صحراؤں کے سینے چیر کر نہریں نکال لے گی۔ پتھروں سے نگینے تراش کر ملک کی
قسمت کو سنوار دے گی۔ زمین کے پوشیدہ خزانوں کو اپنے زورِ بازو اور عقل
وخرد کی طاقت سے باہر نکال کر بین الاقوامی منڈی میں لے آئے گی۔ ایٹم کے
سینے کو چیر کر توانائی باہر نکالے گی اور قریے قریے کو روشن اور تابندہ کر
دے گی۔ اس قوم کو جدید علوم و فنون پر کتابیں لکھنے کا ہدف دو۔ نئے نئے
سافٹ وئر بنانے کی تدابیر اختیار کرو۔ قومی ذہانت کو گلی کوچوں میں رلانے
کی بجائے اسے علم و ہنر کے انقلاب کے استعمال کرو تو وہ دن دور نہیں کہ
بقولِ مظفر وارثی کہ
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی ریت ذرا ایڑھیاں رگڑنے دے
مجے یقیں ہے کہ پانی یہیں سے نکلے گا |