مجھے آج اپنے سمیت بہت سے لوگوں کی اس سوچ سے اختلاف ہوا
کہ تحریک انصاف میں کوئی بھی لیڈر حالات کا ادارک نہیں کر سکتا یا انہیں ان
کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ عمران خان خود ایک جذباتی شخص ہیں اور لوگوں
کو اسی جذباتیت سے پیار ہے انہوں نے جو مطالبات کیے تھے اس سے نواز شریف
صاحب سے زیادہ خود عمران خان صاحب کی سیاسی خود کشی کا سامان ہو چلا
تھاکیونکہ اگروہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت سے استعفی دیتے تو اس بات
کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ نئے انتخابات کے بعد وہاں حکومت بنا سکیں گے ۔
اسی لئے تحریک کے اکابرین نے ایک دانشمندانہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک باعزت
پسپائی اختیار کی جائے لیکن افسوس کہ حکومت جس سے دانشمندی کی توقع تھی وہ
کوئی ترکیب نکالنے میں بلکل ناکام رہی۔ نواز شریف صاحب اپنی گھریلو کابینہ
کے رحم و کرم پر رہے جو صرف یہ ترکیب بتاتی رہی کہ دیکھو اور دعا کرو میرے
خیال میں میاں صاحب کو ابھی یہ حصار توڑ کر کسی ذرا سے دور کے ساتھی کو بھی
مشورے کیلئے بلانا چاہیے جو انکو حالات کا بہتر تجزیہ کر کے دے سکے اس میں
ایک مثال چوہدری نثار صاحب کی دونگا اگر وہ اکیلے یہ جہاد نہ کرتے تو شاید
باقی مسلم لیگ اپنے گھر میں رہ کر لز لینے کو ترجیح دیتی اور پھر یہ حالات
کسی صورت قابو نہ آتے۔ جبکہ تحریک انصاف نے اپنی دانشمندی سے نہ صرف خونی
ٹکراؤ کو روک دیا بلکہ حکومت پر ایک انجانا خوف سول نافرمانی کی صورت میں
مسلط کر دیا ۔ |