جس نے بھی عاجزی اختیار کی وہ جیت جائے گا لیکن جس نے ہٹ
دھرمی کا مظاہرہ کیا وہ ہار جائے گا آوازخلق نقارہ خدا ہوتی ہے ،جو پر امن
رہا رہے گا وہ جیت جائے گا جو پر تشدد ہو گا سب ہار جائے گا ،ایک ملک میں
حکمراں اسکو چن لیا گیا جو دنیا کا مالدار ترین شخص تھا، لوگوں کی سوچ یہ
تھی کم ازکم وہ آپکے ملک و قوم کے پیسے پر نظر نہیں رکھے گا چنانچہ ایسا ہی
ہوا ایک تاجر کو بادشاہی کا تاج پہنا دیا گیا، تاجر نے ملک کم اپنی تجارت
کی طرف توجہ دی دنوں میں ، تھانوں ، کچہریوں ،پارلیمان ،سب جگہ پر اپنی
بادشاہت کی دھاک ایسی بٹھا دی کہ مثال نہیں ملتی ، گویا کہ اتنا طاقتور ہو
گیا کہ اس کے خاندان نے اسکے احباب نے ظلم و زیادتی کے ایسے بازار گرم کرنا
شروع کر دئے ،تھانوں ،عدالتوں سے ، انتظامیہ سے ایک فون کال پر فیصلے
کروانا شروع کردئے ، قتل و غارت سے بھی گریز کرنا چھوڑ دیا ،ریاست کے مال
کو مال مفت دل بے رحم لوٹنا اور دیار غیر بزنس پروان چڑھانا شروع کر دئے ،
مخالف گروپ اسکی تاک میں تھے انھوں نے موقع غنیمت جان کر ،تھانوں ،عدالتوں
سے ، انتظامیہ کی نا انصافیوں ، مہنگائی بے روز گاری ، کرپشن سے تنگ عوام
کو لے کر اپنے ہی ملک کے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی ،مقصد اگر خدا کی رضا
ہے ، انصاف کے تقاضے ہیں ، ظلم سے نجات ہے تو کامیابی عوام کی ہی ہوگی
کیونکہ آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے ، اگر چڑھائی کرنے والوں کا مقصد اقتدار
ہوا تو رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ، عمل کا تمام دارو مدار نیت
پر ہے اگر نیت اچھی ہو ئی تو کامیاب و کامران لوٹیں گے اگر نیت اقتدار کی
طلب ہوئی تو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،بیشک عزت اور ذلت
خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے
ذلت و رسوائی اسکا مقدر بنا دی جاتی ہے۔آپ ﷺ کا فرمان ہے اگر جھک جانے سے
یعنی (عاجزی اختیار کرنے سے )تمحھاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے
لے لینا (مسلم حدیث نمبر (784کیسے خیر خواہ ہیں عوام کے ااقتدار کی خاطر
ملک کو ہی انا کی بھینٹ چڑھا دینے کے درپے ہیں ،اگر واقعی آپ عوام کے خیر
خواہ ہیں مطلوبہ تعداد ، اکثریت ، کثرت رائے سے عوام کے نکلنے تک بادشاہ
سلامت کو اقتدار میں دوام بخش کیوں نہیں دیتے ،بادشاہ سلامت اور اسکے
ساتھیوں کے ظلم و ستم کی داستانیں ہر گھر کی دہلیز تک جانے تک صبر کیوں
نہیں کرتے ،مارچ اور دھرنے والے اگر پر امن اپنے گھروں کو لوٹ گئے دیگر
اہلیان دیہات ، شہر ، ملک پر ایسا اثر ہو گا کہ انکی ایسی انقلاب اور
تبدیلی کے لئے رائے ہموار ہو گی کہ وہی مستقبل کا انقلاب ہوگی وہی ملک کو
تبدیل کردے گی ،اکثریت کی آواز جیسے ہی نقارہ خدا بنے گی تو حکومت گرانے کے
لئے ایک مظلوم کی بد دعا ہی کافی ہوگی ،لیکن خدا ڈھیل دیتا ہے مواقع بھی
دیتا ہے ، دھرنے والوں کی پر امن واپسی کو شکست کہنے والے ایسے شکست خوردہ
ہونگے کے وہ عوام کی نظروں سے کیا خود اپنی نظروں سے بھی گر جائیں گے ـکیا
خوب کہا کسی نے ہم تو دشمن کو بھی بڑی پاکیزہ سزا دیتے ہیں زبان سے کچھ
نہیں کہتے لیکن نظروں سے گرا دیتے ہیں ۔ |