سیاسی جماعتیں متحد....قادری و عمران تنہائی کا شکار!
(عابد محمود عزام, karachi)
14 اگست سے عمران خان اور طاہر
القادری کی سربراہی میں اسلام آباد میں دھرنوں میں بیٹھے ہزاروں افراد
منتخب وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت
کی جانب سے بار بار معاملات کو مذاکرات کے ذریعے سلجھانے کی کوشش بھی کی جا
چکی ہے، لیکن دونوں پارٹیوں کے سربراہوں نے حکومت کے خلاف دھرنوں کا سلسلہ
جاری رکھا ہوا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری
اپنے حامیوں کو مسلسل حکومت کے خلاف ڈٹا رہنے پر اکسا رہے ہیں، جبکہ عمران
خان کہتے ہیں کہ ہفتے کے روز تک ایمپائر کا فیصلہ آجائے گا اور آزادی کا
جشن منائیں گے، وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑے گا، لیکن وزیر اعظم نواز شریف
نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے استعفے
کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے، کیونکہ ان کے
مستعفی ہونے سے ملک میں بحران پیدا ہو جائے گا۔ حکومت اس سیاسی مسئلے کو
مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ ملک موجودہ صورتحال کا متحمل نہیں ہو
سکتا اور اس سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ
پارلیمان میں تمام جماعتیں ماسوائے ایک جماعت کے، حکومت کے حق میں ہیں اور
تمام جماعتیں یکجا ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ تمام
ارکان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت جاری رکھی جائے گی اور ملک
میں کسی بھی قسم کی غیر آئینی اور غیر جمہوری تبدیلی کو برداشت نہیں کیا
جائے گا۔ قومی اسمبلی نے آئین اور قانون کی بالادستی کی قرارداد متفقہ طور
پر منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایوان بعض جماعتوں کی جانب سے اسمبلی کی
تحلیل اور وزیراعظم کے استعفے کے غیر آئینی مطالبے کو مسترد کرتا ہے،
نوازشریف ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں، کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ غیر آئینی
اور غیر قانونی تقاضوں کا کوئی جواز نہیں بنتا، 38 ارکان 342 کے ایوان کو
ختم کرنے کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اسی طرح سینیٹ میں بھی آئین اور
پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے پیش کی گئی قرار داد متفقہ طور پر منظور کی
گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے جمعے کو سینیٹ میں
قرارداد پیش کی، جس کی تمام ارکان نے حمایت کی۔ ارکان سینیٹ نے تحریک انصاف
اور عوامی تحریک کے دھرنوں اور ان کے مطالبات کو غیر آئینی قرار دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ
احتجاج کرنے والی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں
کے خلاف ہتک آمیز زبان کا استعمال انتہائی افسوسناک ہے۔ پارلیمانی اور
جمہوری تاریخ میں یہ مثال کہیں نہیں ملتی کہ ایک ہجوم نے پارلیمنٹ کا داخلی
راستہ بند کر دیا ہو۔ کسی کو پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کی اجازت نہیں دی
جاسکتی، ایوان کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ
کل کو عسکریت پسند گروہ بھی اسلام آباد آکر پاکستان میں حکومت کرنے کا
مطالبہ کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار
ولی خان کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے طویل
دھرنے سے اگر جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے لیے پاکستان تحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر
القادری ذمہ دار ہوں گے۔ عمران خان اور طاہر القادری دونوں ہی ریاست میں
جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں
اور جمہوری قوتوں نے عمران خان اور طاہر القادری کی ضد کو مسترد کر دیا ہے،
منتخب وزیراعظم کو استعفٰی دینے پر مجبور کرنا اور بندوق کی نوک پر نئے
انتخابات کا اعلان کروانا ایک غیرجمہوری راستہ ہے۔ اس طرح کے مظاہرے
غیرقانونی اور غیر آئینی ہیں، اس لیے کہ یہ ملک میں جمہوریت کو پٹری سے
اتار سکتے ہیں۔ ہم ان دونوں دھرنوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے علاوہ وکلا نے بھی تحریک انصاف اور عوامی
تحریک کے دھرنوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں آزادی اور
انقلاب مارچ کے خلاف پاکستان بار کونسل کی اپیل پر وکلا نے ملک بھر میں
عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا، سپریم کورٹ میں ممکنہ غیرآئینی اقدام سے
متعلق کیس کے علاوہ ملک بھر میں ہزاروں مقدمات کی سماعت نہ ہوسکی، ملک کے
کئی شہروں میں بار روموں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے اور مذمتی قراردادیں
منظور کی گئیں۔ مختلف شہروں میں وکلا کے اجلاس اور احتجاج کا سلسلہ بھی
جاری رہا۔ وکلا نے عزم ظاہر کیا کہ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد
جاری رکھیں گے، موجودہ سیاسی بحران کی آڑ میں کوئی ماورائے آئین اقدام قبول
نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پاکستان عوامی تحریک
اور پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عاید کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی۔
درخواست گزار نے اپنی پٹیشن میں موقف اختیار کیا کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی
کے دھرنوں سے اسلام آباد میں لوگوں کی نقل و حرکت متاثر ہو رہی ہے۔ لہٰذا
دونوں جماعتوں پر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پابندی عاید کی جائے۔ آرٹیکل 17
ہر شہری کو یونین سازی کا حق دیتا ہے، لیکن یہ حق پاکستان کے مفاد،
خودمختاری اور استحکام، اخلاقیات اور پبلک آرڈر سے مشروط ہے۔ سپریم کورٹ نے
ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیس کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان
تحریک انصاف اور عوامی تحریک اپنے دھرنوں کی جگہ تبدیل کریں۔ جسٹس جواد کا
کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا دروازہ شاہراہ دستور پر کھلتا ہے اور احتجاج کے
باعث ہمیں متادل راستے سے عدالت آنا پڑا۔ شاہراہ دستور بلاک کرنے کی اور نہ
ہی کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت کرتے ہیں، کسی دوسری جگہ پر آپ لوگ اپنے
مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو
گا۔ جس پر طاہر القادری کا اپنے تحریری جواب میں کہنا تھا کہ دھرنے اور
احتجاج سیاسی معاملہ ہے، عدالتی نہیں، سیاسی معاملات میں مداخلت عدلیہ کے
لیے نقصان دہ ہے۔ جبکہ عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گئے تحریری جواب
میں کہا گیا کہ عمران خان قانون اور آئین کی بالادستی چاہتے ہیں، وہ کسی
غیر آئینی اور ماورائے آئین اقدام کے حامی نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی سیاست سمجھ سے بالا تر
ہے۔ دونوں کے دھرنوں سے روز ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور
پوری قوم بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہے۔ موجودہ صورتحال بطور خاص عمران خان
کے لیے لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ طاہرالقادری کا تو کچھ بھی داﺅ پر نہیں لگا
ہوا، وہ پہلے کی طرح اپنے کارکنوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر پھر کینیڈا
روانہ ہو جائیں گے، مگر عمران خان کو تو مستقبل کی سیاست بھی یہیں رہ کر
کرنی ہے۔ اگر وہ تخریبی سیاست کے ذریعے اپنی راہ میں خود ہی کانٹے بچھائیں
گے تو ان کا وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں
ہو سکے گا، دھرنوں سے ان کی سیاست بند گلی کی جانب گامزن ہے۔ وہ قوم کو نیا
پاکستان بنانے کا خواب دکھا رہے ہیں، مگر موجودہ پاکستان کا حلیہ بگاڑنے کی
راہ پر چل رہے ہیں اور کسی قاعدے، قانون، اقدار، سسٹم اور ریاستی اتھارٹی
کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ انہیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ وہ سسٹم
میں جو اصلاحات چاہتے ہیں، وہ خلا میں کسی ماورائی قوت کے ذریعے نہیں، بلکہ
اسی پارلیمنٹ کے اندر رہ کر ممکن ہو سکتی ہیں، جس کی وہ بساط لپیٹنے کی تگ
و دو میں مصروف ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک طرف پوری قوم، تمام
جمہورری سیاسی پارٹیاں، تمام وکلا عمران خان اور طاہر القادری کے اقدامات
کی مخالفت کر رہے ہیں، دوسری جانب دونوں حضرات اپنی ضد پر قائم ہیں، کیا
پوری قوم ہی غلط ہے اور صرف دونوں انقلابی حضرات درست ہیں؟ اور کیا آئین و
قانون میں کوئی ایسا طریقہ ہے کہ آپ اسلام آباد میں ہزاروں لوگوں کو جمع کر
کے منتخب حکومت کو گرانے کا مطالبہ کردیں، اگر ایسا ہوجائے تو کیا یہ روایت
نہیں چل نکلے گی کہ ہر بار اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد میں اپنے لاکھوں
کارکنوں کو جمع کر کے منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کریں گی؟ اس صورت میں
ملک کا نظام کیسے چل پائے گا۔عمران اورقادری کے اقدامات کی وجہ سے دونوں
حضرات اپنی احتجاجی سیاست میں مکمل تنہا ہوتے نظر آرہے ہیں، جنہیں ماسوائے
اپنی پارٹیوں کے کہیں سے بھی سپورٹ حاصل نہیں ہو رہی، جبکہ احتجاجی سیاست
کے اس انداز سے ان کے اپنے پارٹی کارکن بھی اب زچ اور مایوس ہوتے نظر آرہے
ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عمران خان اور طاہرالقادری کو اپنے جارحانہ تقاضوں
پر اصرار کی بجائے اپنا بھرم رکھنے کے لیے معاملات کو سمیٹنے کی کوشش کرنی
چاہیے تھی، جس کے لیے فوری طور پر مذاکرات اور افہام و تفہیم کی راہ اپنائی
جانی چاہیے۔ پوری قوم کئی روز سے غیریقینی حالات کی اسیر ہوکر جس کربناک
صورت حال سے دوچار ہے اس کے خاتمے کے لیے دونوں طرف اثر و نفوذ رکھنے والی
شخصیات کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنا ہوں گی۔
|
|