کام چور

یہ اقتباس عصمت چغتائ کے افسانہ سے لیا گیا ھے
۔۔"بیگم! اب ہماری پنشن ہونے والی ہے ذرا گھر کا خرچ کم کرو "-"اے ہے !میں زیادہ خرچ کرتی ہوں تو اپنے ہاتھ میں گھر کا انتظام لے لو"اماں بگڑیں-"یعنی کہ میں کماؤں بھی اور گھر کی دیکھ بھال بھی کروں ؟خوب!بہت خوب! پھر بیوی کا فائدہ کیا ہے؟" "بھئ ہم تو پھوہڑ ہیں' تم کوئی سگھڑ بیاہ کر لے آتے"اماں نے طعنہ دیا-

اس شور اور ہنگامے کو سن کر ہم لوگ بھی آس پاس جمع ہوگۓ تھے- ایک دم بھیڑ سے اماں کا رم بھوکلا اٹھا-"غارت ہو کم بختو!۔ ۔ ۔کلیجے پر چڑھے چلے آتے ہیں "- ابامیاں کا غصہ وہ ہم لوگوں پر اتارنے لگیں-ہم لوگ اداس ہوکر ان سے ذرا دور ہٹ آۓ اور دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگے کہ "کاش ابامیاں ہمارے لئے ایک فرسٹ کلاس سی اماں لے آئيں"-

خیر ابامیاں نئی اماں جان تو نہ لاۓ لیکن انہوں نے ہماری پرانی اماں کو اس بات پر ضرور راضی کر لیا کہ وہ خرچ کم کر نے کی اسکیم پر غور کر نے کے لیے تیار ہوں -اس سلسلے میں ابا نے تجویز پیش کی "سب نوکروں کو نکال دو -یہ دو باورچی کیوں ہیں؟""آپ ہی نے تو کہا تھا ۔ ۔ ۔ اکیلے باورچی سے اتنے آدمیوں کا کھانا پکواناجرم ہے 'زبر دستی دوسرا باورچی رکھوایا تھا "- "خیر چھوڑو باورچی کو 'یہ بتاؤ یہ عورتیں کون کون سی بھر لی ہیں ؟" ابا میاں نے پوچھا- "وہی عورتیں ہیں جو شروع سے تھیں"اماں نے وضاحت کی - " اور یہ بچے کس کس کے بھر رکھے ہیں؟" "لو اور سنو ! ارے یہ سب اپنے بچے ہیں" -" یہ سب ؟" ابامیاں کانپ اٹھے - اے واہ! کیا نادان بنتے ہو "- "یعنی تمہارا مطلب ہے بیگم کہ یہ ۔ ۔ ۔ یہ سب ہمارے تمہارے ۔ ۔ ۔ یعنی کہ بالکل ہمارے بچے ہیں؟" ابامیاں حیران ہوتے ہوے بولے - "توبہ ہے ! آپ تو بات فورا پکڑلیتے ہیں 'یہ تو اکبری کے بچے ہیں "-
بڑی دیر کی حجت کے بعد یہ طے ہوا کہ سچ مچ نوکروں نکال دیا جاۓ -آخر یہ موٹے موٹے بچے کس کام کے ہیں - ہل کے پانی نہیں پیتے ' کام چور کہیں کے -اور سچ مچ ہمیں خیال آیا کہ ہم آخر کار کوئ کام کیوں نہین کرتے ؟ہل کر پانی پینے میں اپنا کیا خرچ ہوتا ہے -اس لئےہم نے فورا ہل ہل کر پانی پینا شروع کر دیا -

ہلنے میں دکھے بھی لگ جاتے اور ہم کےی کے دبیل تو نہیں تھے کہ کوئ دھکا دے تو سہہ جائیں لیجیئے پانی کے مٹکوں کے پاس گمسان کا دن پڑ گیا -صراحیاں ادھر لڑھکیں 'مٹکے ادھر 'کپڑے شرابورسو الگ -
"یہ لیجیئے کرالیں کام -یہ بھلا کام کریں گے 'دونوں صراحیاں توڑ دیں " اماں نے کہا - "کریں گے کیسے کیسے نہیں - دیکھو جی جو کام نہیں کرے گا اسے رات کا کھانا ہرگز نہیں ملے گا 'سمجھے!" یہ لیجئے بالکل شاہی فرمان جاری ہو رہے ہیں -

ہم کام کر نے کے لئے تیار ہیں ہمیں کام بتایا جاۓ" ہم نے دہائی دی - "بہت سے کام ہیں جو تم کر سکتے ہو 'مثلا یہ دری کو دیکھو تو کتنی میلی ہو رہی ہے -آنگن میں جا کر دیکھو کتنا کو ڑا پڑا ہے - صحن میں پیڑ ہیں ان کو پانی دینا ہے اور اور ہاں بھئ یاد رہے مفت تو یہ کام کرواۓ نہیں جائیں گے تم سب کو تنخواہ بھی ملے گی " ابا میاں نے تفصیل بتائی-پھر تنخواہ کے خواب دیکھتے ہوے ہم لوگ کام پر تل گۓ- ایک دم فرشی دری پر بہت سے بچے جٹ گۓ - چاروں طرف سے دری کے کونے پکڑلئے اور پھر کمرے کے اندر ہی جھٹکنا شروع کردیا - سارا گھر دھول سے اٹ گیا -کھانستے کھانستے سب بے دم ہو گۓ- مار مار ہم لوگوں کو آنگن میں نکالا گیا - طے ہوا کہ پیڑوں میں پانی دیا جاۓ - بس سارے گھر کی بالٹیاں ' لوٹے ' تسلے 'بھگونے 'پتیلیاں لوٹ لی گئیں - جنہیں یہ چیزیں نہ وہ ڈونگے اور کٹورے گلاس ہی لے بھاگے -اب سب نل پر ٹوٹ پڑے -یہاں پر بھی گھمسان مچی کہ کیا مجال جو ایک بمند بھی کسی برتن میں آسکا ہو - فورا بڑے بھائیوں 'بہنوں 'ماموؤں'چچاؤں اور دم دار خالاؤں اور پھوپھیوں کی زبردست کمک بھجی گئی- فوج نے آتے ہی پتلی پتلی نیم کی چھڑیوں سے ہماری ننگی ٹانگوں اور بدن پر وہ سڑاکے لگاۓ کہ ڈونگا اور کٹورا فوج میدان میں ہتھیار پھینک کر پٹھہ دکھا گئی-

ہم لوگ قائل ہوگۓ کہ صفائی وغیرہ کے کام اپنے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان پیڑوں کی دیکھہ بھال ہم سے ہو سکتی ہے - اس لئے مرغیاں ہی بند کر دیں -بس شام ہی سے کام شروع کردیا 'لہذا جو بانس 'چھڑی ہاتھ پڑی 'لے لے کر مرغیاں ہانکنے لگے - " چل ڈربے -چل ڈوبے -"مگر صاحب!شاید ان مرغیوں کو بھی کسی نے ہمارے خلاف بھڑکا رکھا تھا -اوٹ پٹانگ ادھر ادھر کودنے لگیں -دو موغیاں کھیر کے پیالوں پر سے جن پہ آپا چاندی کے ورق لگا رہی تھیں ؛دوڑتی پھڑّپھڑاتی نکل گئیں-

طوفان گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ پیالے خالی ہیں اور ساری کھیر آپا کے کامدانی دوپٹے اور دھلے سر پر - ایک بڑا مرغا اماں کے کھلے پاندان میں پھاند پڑا اور کتھے چونے میں لتھڑے ہوۓ پنجے لے کر نانی اماں کی سفید دورھ ایسی چاندنی پر چھاپے مارتا ہوا نکل گیا - ایک مرغی دال کی پتیلی میں چھپاکا مار کر بھاگی اور سیدھی جاکر موری میںاس تیزیسے پھسلی کہ ساری کیچڑ خالہ جی کے منہ پر جا پڑی جو وہاں بیٹھی ہاتھہ منہ دھورہی تھیں- کو شش کے باوجود ایک بھی مرغی ڈربے میں جانے کے لئے داضی نہ تھی -

ادھر کسی کو یہ سوجھی کہ بقرعید کے لئے جو بھیڑیں گھر میں آئی ہوئی ہیں 'وہ ضرور بھوکی ہونگی -چلو لگے ہاتھوں انہیں بھی دانہ کھلادیا جاۓ -دن بھر کی بھوکی بھیڑیں دانے کا سوپ دیکھہ کر جو سب کی سب جھتٹیں تو بھاگ کر اپنا آپ بچانا مشکل ہوگیا - لشتم لشتم تختوں پر چڑھ گۓ - بھيڑیں نہایت بے تکلفی سے سب چیزوں کو دوندتی 'مینگنیوں کا چھڑکاؤکرتی دوڑ گئں-

ادھر یہ قیامت مچی تھی ' ادھر دوسرے کارندے بھی غافل نہیں تھے - اتنی بڑی فوج تھی جسے رات کا کھانا نہ ملنے کی دھمکی مل چکی تھی -گھر میں طوفان اٹھہ کھڑا ہوا -ایسا لگتا تھا جیسے سارے گھر میں مرغیاں 'بھیڑیں 'ٹوٹے ہوے تسلے 'بالٹیاں'لوٹے'کٹورےاور بچے بکھرے پڑے ہوں- اماں جان نے سر پیٹ لیا -آپا چوکھٹ پر بیٹھہ کر رونے لگيں - بزي مشکل سے امن قائم کرکے بھیڑیں اور بچے باہر کئے گئے - مرغیاں باغ میں ہنکائ گئیں- اماں جان آگرے جانے کے لئے سامان باندھنےلگیں- "تو بچہ راج قائم کر لو یا مجھے ہی رکھہ لو ورنہ میں تو چلی میکے " اماںنے الٹی میٹم دے دیا اور ابا نے سب کو قطار میں کھڑا کر کے سب کا کورٹ مارشل کردیا -"اگر کسی نے گھر کی کسی چیز کو ہاتھہ بھی لگایا تو رات کا کھانا بند"-یہ لیجئے ! ان بزرگوں کو تو کسی کروٹ چین نہیں - ہم لوگوں نے بھی طے کر لیا ہے کہ اب چاہے کچھہ ہو جاۓ ہل کر پانی بھی نہیں پئیں گے!!- ۔
Shameela Nadeem
About the Author: Shameela Nadeem Read More Articles by Shameela Nadeem: 3 Articles with 6749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

search this page : Kaamchor