جیسا منہ ویسی چپیڑ

فرمان خداوندی ہے کہ جیسے قوم کے اعمال ہوتے ہیں میں اُن پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیتا ہوں، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک کا خیر خواہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے یہ قوم اُس کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور اُس کو ذیل و خوار کر کے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی ہے، ہر محب وطن پاکستانی ئاتھ ملتا رہ جاتا ہے،

اس بات کا ذکر فضول ہے کہ اس قوم کی غلطیوں سے پاکستان کو کیسے کیسے اندہناک واقعات سے گذرنا پڑا جو اس تماشگیر قوم کو زوال کی اندھیری گلیوں میں لے گئے مگر افسوس صد افسوس یہ قوم پھر بھی ان صدمات سے سبق سیکھنے کی بجائے غیبی قوتوں پر الزام تھوپتی آئی ہے، کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کو اتنی بھی عقل نہیں جتنی ایک چھوٹے بچے کو ہوتی ہے کہ جس کو اگر کوئی کہے کہ تم اس آگ میں ہاتھ ڈالو تو وہ فوراً پیچھے ہٹ کر کہنے والے کو غور سے دیکھتے ہوئے ایک دفعہ ضرور سوچتا ہے کہ یہ میرا دوست ہر گز نہیں ہو سکتا،اگر کوئی اسے پیسوں کا لالچ بھی دے تو بھی وہ اپنے گھر کو آگ کبھی نہیں لگائے گا، مگر یہاں تو بغیر لالچ ہی بگڑے تگڑے لوگ اپنے گھر کے ٹکڑے کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

بگڑے تگڑے کا ڈنڈا پیر کہنے کو تو یہ ایک محاورا ہے مگر اس کی سچائی کا یقین پچھلے سال بنگلہ دیش میں پیش آنے والے ایک واقعے سے ہوا جب وہاں پر حفاظتِ اسلام کے نام سے مولویوں کی ایک جماعت نے اپنے اپنے مدرسوں کے لڑکوں کو جو کہ لاکھوں کی تعداد میں تھے اس کے ساتھ ساتھ سیدھے سادھے مسلمان بھی یہ بیان سن کر شریک ہو گئے کہ یہ اسلام کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے لکلے ہیں شریک ہو کر دارلحکومت ڈھاکہ کی طرف مارچ شروع کیا اندازہ کرنے والوں نے اس کو پچاس لاکھ کے مجمع سے بھی زیادہ بتایا ، بنگلہ دیشی حکومت نے ان کو ڈھاکہ آنے سے نہیں روکا جس سے اس میں شریک ملاؤں کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے اور ان کے مطالبات میں سب سے بڑا شیخ حسینہ کے اسظیفے کا مطالبہ جو بڑے ہی نفرت انگیز طریقے سے زور پکڑنے لگا ، مولوی صاحبان بھی یہی داعواہ کرتے تھے کہ جب تک حکومت کو گھر نہیں بھیج دیتے ہم لوگ شپلا چوک سے نہیں جائیں گے ، اور جس کو پایہ تکمیل تک پُہچانے کے لیے لوٹے اور مثلے ساتھ لے کر آئے تھے ۔

دو دن تک تو حکومت ان کی طرف سکون سے دیکھتی رہی اور تیسری شب دو اڑھائی بجے چاروں طرف کی بجلی بند کر کے ان پر ایسا شب خون مارا کہ اﷲ کی پناہ ، لوٹے مثلے اور جوتے اکٹھے کرنے کے لیے صبح میونسپلٹی کے ٹرک لگانے پڑے ، شنید ہے کہ رات کے پچھلے پہر اتنی گولی چلی کہ لوگ اآس پاس کے گھروں میں گھس کر سہم گئے مدرسوں کے بے گناہ طالب علم عام دیندار لوگ بے گناہ مارے گئے اور جب ایک اخبار نے مرنے والوں کی تعداد بتائی تو اس پر پابندی لگا کر اخبار کے مالک اور ملازموں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ایک دو ٹی وی چینل بھی بند کر کے ان کے مالکوں پر کیسوں کی ایسی بھر مار کی کہ بچارے ایک کی ضمانت کروا کر نکلتے ہی دوسرے اور تیسرے میں پھر اندر۔

الیکشن میں مخالف جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تو بلا مقابلہ ڈیڑھ سو عوامی لیگی کامیاب، اقوام متحدہ اور امریکہ نے اپنا پورا زور لگایا کہ الیکشن دوبارہ ہوں کہ یہ تو الیکشن نہیں سلیکشن ہے جس میں کوئی مخالف امیدوار ہی نہیں ، مگر ان کی ایک نہ چلی مخالف پارٹی نے مظاہرے کیئے تو ان کی سربراہ کو چھوڑ کر پارٹی کے سرکردہ لیڈروں پر اتنے مقدمات کھڑے کئے گئے کہ ان کو آئے دن جیلوں اور ضمانتوں میں الجھا کر ایسا کر دیا کہ بیچارے گھر کا راستہ بھی بھول گئے،دنیا کو دکھانے کے لیے ایک سیاسی پارٹی کو زبردستی الیکشن میں حصہ دار بنا کر اپوزیشن بھی قائم کر لی ، اس پارٹی کے سربراہ نے حیل حجت کی تو اس کے سر پر بھی بہت سارے قتل کے مقدمات کی تلوار لٹکا کر است چپ کروا دیا گیا، اب اموجودہ حالت یہ ہے کہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت جلسہ جلوس تو کیا کوئی پر امن مظاہرہ کرنے کی بھی ہمت نہیں کرتی۔

اتنی ساری رام کہانی بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری عوام صرف اور صرف ڈنڈے کی غلام ہے چاہے وہ کسی فوجی آفیسر کا ہو یا کسی ڈکٹیٹر کا، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے چاہے انہیں کتنی بھی رس ملائی کھلا دیں، عمران خاں یا ْ قادری صاحب بھی آ جائیں تو کچھ عرصے بعد وہ بھی رہی سہی عزت کھو کر ہی چلتے بنیں گے ،جیسے ان سے پہلے جو بھی آیا ذلیل کر کے نکالا گیا ، اور ان کے جانے کے بعد ان کے لیے قصیدے پڑھنے سے بھی کیا فائدہ، مگر یہاں کی ریت ہے کہ مردے کو پوجا جاتا ہے اور زندے کی قدر نہیں کی جاتی ،۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 83995 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.