یوم آزادی کے دن جب میں
کچھ احباب کو جشن آزادی مبارک کے پیغامات ارسال کررہا تھا تو انھیں جشن
آزادی مبارک کیساتھ ایک جملہ اضافی لکھ رہا تھا کہـ" اگر آپ واقعی آزاد ہیں
تو آپکو جشن آزادی مبارک ہو"۔مجھے سمجھ میں میں نہیں آتا کہ غلام قومیں،
پسے ہوئے طبقے کیوں اور کس بنیاد پر خود کو آزاد سمجھ کر خوشی منانے کی خود
نمائی کرتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے غلام ، سود میں گھرے پاکستان کا ایک ایک بچہ
یہودیوں کے سرمایہ دارانہ نظام کا غلام ہے۔ہماری معاشی پالیسیاں عالمی
استعماری قوتوں کی غلام ہیں ہماری دفاعی ضروریات دشمنان اسلام کی مرہنون
منت ہیں ۔ ہمارے جسم میں جانے والا رزق پاکستان کے دشمنوں کی امداد کے غلام
ہیں۔ہماری بقا و سلامتی کی تمام پالیسیاں مملکت خدادا د پاکستان کو کمزور
کرنے والوں کے ہاتھوں غلام ہیں۔ ہم فرقہ واریت کے غلام ہیں ، ہم قوم پرستی
کے غلام ہیں۔ ہم لسانیت کے غلام ہیں۔ ہم اپنی خواہشات کے غلام ہیں ۔کون
کہتا ہے کہہ ہم آزاد ہیں ، اگر آزاد ہیں تو ملک و قوم کو لوٹنے والے آزاد
ہیں ، اگر آزاد ہیں تو ملکی خزانوں کو لوٹنے والے آزاد ہیں ، اگر عوام اپنی
جان بچ جانے پر گھر آنے پر خوشی مناتی ہے تو اس کی اصل کی خوشی یہ ہے کہ
اسکی روح جسم سے کسی دہشت گرد کے ہاتھوں سے آزاد نہیں ہوئی ، سرکاری ملازم
ہوں تو عوام کو غلام بنا کر رشوت لینے میں آزاد ہیں ۔
عوام ہیں تو قومی ملی یکجہتی چھوڑ کر اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کی پالیسوں
کے غلام ہیں۔جھوٹ ، سچ کا غلام ہے۔کسی کا ایجنڈا ملکی مفاد کے نام پر نہیں
ہے، بلکہ اجتماعی مقاصد کے پس منظر میں فروعی ہیں۔بے حس قوم ہے کہ قیام
پاکستان کے مقاصد کا مقصد منچلوں کیلئے موٹر سائیکلوں سے سائیلنسر نکال کر
ہسپتالوں ،گھروں ، محلوں میں گھومتے طوفان بد تمیزی مچا دیتے ہیں۔قیام
پاکستان کے مقاصد میں اسلام کے قوانین و اصولوں پر مبنی ایک اصلاحی مقاصد
پر مبنی مملکت تھا لیکن پاکستان بنتے کے ساتھ ہی اس پر وڈیروں ، جاگیر
داروں ، خوانین ، سرمایہ داروں اور سرداروں نے قبضہ کرلیا ۔اس آزاد پاکستان
میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے تو جن کے گھر کہیں اور تھے انھیں گھر ملے
کاروبار ملا ، سرکاری مراعات ملیں ، کلیم کے نام پر نقصانات کا ازالہ ملا ،
لیکن پاکستان بننے کے بعد یہاں کے باسی مراعات سے محروم ہوئے ، اقربا پروری
اور سیاسی رشوت ستانی نے ڈیرے ڈال دیئے ۔کہاں کی قوم کی آزادی ، کہاں ہے
آزاد قوم ، مجھے تو با حیثیت پاکستانی خود کو آزاد کہتے ہوئے فخر نہیں بلکہ
ندامت محسوس ہوتی ہے کہ میں ایک ایسے ملک کا باسی و شہری ہوں جہاں آزادی
رائے کے نام پر خوشامد فروخت ہوتی ہے ، جذبوں کے نام پر ایمان فروخت ہوتے
ہیں ، سچ کے نام پر جھوٹ فروخت ہوتے ہیں ۔خد مت کے نام پر سیاست فروخت ہوتی
ہے ۔ ایک عورت کا جسم اس لئے فروخت ہوتا ہے کیونکہ اس کو ایسا معاشرہ دیا
گیا ہے جس میں ایسے شریفانہ زندگی گذارنے کی آزادی نہیں ، ان کیلئے قائم
کوٹھوں سے، شراب خانوں سے حکومت ٹیکس لیکر عوام کیلئے فلاحی ترقیاتی منصوبے
بناتی ہے۔نوجوانوں سے روزگار کے نام ان کا جوش خرید لیا جاتا ہے ان کے ہاتھ
میں قلم کی جگہ ہتھیار دے دئیے جاتے ہیں ۔ ان کے قلم سے ترقی و کامرانی کے
گیت کے بجائے ، نفرت اور مخالفیں کے قتل کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔احتجاج
کے نام پر لوٹ مار کی اجازت ملتی ہے تو قو قی اثاثے اب اسلامی کی روایات
نہیں بلکہ خد کی جانب سے عذاب کی صورت میں عبرت نشان بنا دینے والی روایات
ہیں جن پر فخر کئے جاتے ہیں۔تہذیب اسلام سے جڑی ہو تو کچھ سمجھ بھی آتا ہے
لیکن جب تہذیب جاہلیت سے جڑی ہو تو اس پر فخر کرنے والے مسلم ہیں کہ بت
پرستی کے وارث۔بامیان کے بت توڑے جانے پر ماتم کرتے ہیں ، انبیا کے اور
اصحاب رسول ﷺکے مزاروں کے انہدام پر خاموش رہتے ہیں، کیونکہ ان میں حس مسلم
ہی نہیں ، تو ملی جذبہ کیا معنی رکھتا ہے۔ملت تو وہ ہوتی ہے جو خود ایک
سمجھے ، لیکن یہاں تو پنجابی ، سندھی ، پٹھان، بلوچ کشمیری ، گلگتی ، بلتی
، مہاجر ہیں ، پاکستانی کہاں ہے کہ وہ قیام پاکستان کا جشن منائیں ۔
کہاں ہیں وہ پاکستانی جو جشن آزادی منانے کیلئے گھر گھر گلی گلی سجایا کرتے
تھے ، بچے چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں لے کر محلوں محلوں گھوما کرتے تھے ، لیکن اب
تو آپ ایک محلے سے دوسرے محلے جائیں تو وہاں کسی نہ کسی گھر میں صف ماتم
برپا ہوتی ہے ، کسی نے ٹارگٹ کلنک کرکے مار دیا تو کسی نے جعلی پولیس
مقابلے میں مار دیا ۔ کسی نے سیاسی مخالفت میں مار دیا تو کسی مسلک کو
تسلیم نہ کرنے پر مار دیا ، کسی نے بھتہ نہ دینے پر مار دیا۔کون سا ایسا
محلہ ہے جہاں بے گناہ کا خوں اس پاک سر زمین کو سیراب نہ کر رہا ہوں ۔کئی
عشروں تک حکومت میں رہنے والے ہر بار یہی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیں ورثے
میں ملا ہے ، ہماری ٹانگیں نہ کھینچو ، ہمیں اختیار دو ،اب کیا عوام سے ان
کی سانسیں بھی گروی رکھواناچاہتے ہو۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس گاؤں کے
لوگوں کی طرح ہوجاؤں جہاں سب پاگل تھے لیکن ایک شخص پاگل نہیں تھا ، لیکن
تنگ آکر جب اس نے بھی وہ امرت پی لیا تو وہ بھی پاگل ہوگیا اور پھر جب سب
ایک جیسے ہوگئے تو کوئی بُرا نہیں رہا ، کچھ غلط نہ رہا ۔سب کچھ ٹھیک لگنے
لگا ، لیکن کیا کروں یہاں تو سقراط کو بھی جو زہر پینے کیلئے دیا جاتا ہے
وہ بھی جعلی ہوتا ہے ، سنا ہے کہ جنگلوں میں بھی قانون ہوتا ہے لیکن میرے
پاکستان میں تو جنگل کا قانون بھی نہیں، جنگل میں تو پھر بھی ہر جانور ایک
قاعدے کے مطابق چلتا ہے ، اس کو فطرت نے ایک دائرہ کار دیا ہوتا ہے ، وہ
فطرت کی ہدایات سے روگردانی نہیں کرتا ۔لیکن اشرف المخلوقات تو روئے زمین
پر خود کو خدا سمجھ بیٹھا ہے۔میں ان نعروں سے تنگ آچکا ہوں کہ قوم کے بچوں
کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں بلکہ قلم دو ، بھلا قلم دیکر کیا کرو گے ۔ انھیں
روزگار کہاں سے دو گے ، ان کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے کون بچایا جائے گا
، قلم میں بڑی طاقت ہے لیکن یہ طاقت ان لوگوں کیلئے ہے جن کے ایک ہاتھ میں
فائل پر اجازت نامے کے دستخط تو دوسرا ہاتھ ، میز کے نیچے رشوت کے لئے ہوتا
ہے۔میں نے سیاست دیکھی جہاں لاشوں کے گرے جانے پر لیڈروں کو پارٹی مناتے
دیکھا ، میں نے نام نہاد انقلابیوں کو دیکھا جہاں ان کا کارکن بھوکا مرتا
جائے لیکن ان کا انقلاب فائیو اسٹار ہوٹل میں بچ جانے والے کھانوں کو کچروں
میں پھنک دیا جائے۔ میں نے الیکشن دیکھے جہاں حجروں ، ڈیروں پر جا کر ووٹوں
کے لئے لوگوں کے پاؤں پکڑتے ان سے معافیاں مانگتے دیکھا اور پھر انھیں کسی
ادھار لئے شخص کی طرح غائب ہوتے دیکھا ، میں وہ الیکشن بھی دیکھا کہ "بیٹھتے
ہو کہ لیٹتے ہو"۔ میں نے طاقت کا بے دریغ استعمال دیکھا ، بے گناہ انسانوں
کو سڑکوں ، گلیوں میں خون میں نہاتے ہوئے دیکھا ، میں نے لسانی بنیادوں پر
قائم وہ ہسپتال دیکھے جہاں ان کی پارٹی کا کارکن نہ ہو تو ایسے مرنے کیلئے
چھوڑ دیا جاتا۔میں نے سفید ، کالی پیلی صحافت دیکھی، انھیں دہشت گردوں کے
خوف سے کپکپاتے ہوئے بھی دیکھا ، میں نے خود کو دیکھا۔۔ |