پاکستان میں عوامی شعور اور حقوق
کے حصول میں یقینناً میڈیا کا کردار قابل تعریف ہے۔اور پاکستان میں تو لوگ
کچھ زیادہ سے میڈیا پرست و طابع اور ماننے والے ہیں۔تاہم پولیو کے خاتمے
اور حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے شعور بیدار کرنے میں وہ کردار ادا نہیں کر
سکی جو کرنی چاہئے، یا شاید کردار ـــ"زلزلہ بی بی"والا ہی آتا چلا آرہا ہے،
قارعین کو یاد ہوگا کہ بنوں میں خود کلامی میں مبتلا شخص نے زلزلے کا ابھی
ذکر ہی کیا تھا کہ بات موبائیل مسجز،فون کالز یہاں تک کے مساجد سے ایڈوانس
حفاظتی اقدامات کرنے کے اعلانات کئے گئے، کچھ میڈیا ہاؤسز نے یہ خبر بھی
چلائی اور عوام نے ساری رات زلزلے کے خوف سے سڑک پر گزاری۔ جبکہ ماہرین
عرضیات چیخ چیخ کرکہتے رہے کہ ایسی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی جو زلزلے کے
ایڈوانس اطلاع دیں۔ یہی حال پچھلے دنوں خسرہ سے حفاظتی ٹیکوں کے خصوصی مہم
میں کئی اخبارات نے بغیر تصدیق کے ایسی خبریں شائع کی جس سے مہم میں عوام
کی عدم دلچسپی کسی سے ڈھکی چُپی بات نہیں ہے۔سال 2011 میں خسرے کی بیماری
اور اس مرض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے نا لگنے سے 64بچے ،2012 میں310
اور2013 میں ساڑھے تین سو تک بچے جابحق ہوئے تھے۔اس بات سے کوئی انکار
نہیں کرسکتا کہ پولیو ایک خطرناک اور موذی مرض ہے۔ پوری دنیا میں یہ مرض
بدریج ختم ہو رہا ہے تاہم پاکستان میں اس مہم کی ناکامی کے بہت سے اسباب
ہیں جن میں معاشرتی بے علمی،غلط پراپیگنڈہ اوربچے تک رسائی شامل ہیں۔
ایسا ہی کچھ پولیو مرض کے خاتمے میں بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ پولیو کا
یہ مہم گھر گھر چلائی جاتی ہے تاہم موثرآگاہی کا فقدان اور معاشرے کی
بگڑہتی ہوئی صورت حال نے تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے سال 2011میں ایک
مقام ایسا بھی آیا کہ اس بیماری کی خلاف لڑنے والے حکومتی اور عالمی اداروں
کے سربراہان پاکستان سے 2014تک پولیو مرض کے خاتمے کیلئے پرُعظم تھے تاہم
دسمبر2011 میں کراچی و خیبر پختونخواہ کی پولیو ٹیم کے رضا کاروں پر حملوں
اور بعد میں میں ہلاکت نے یہ خواب صرف خواب ہی کی حد تک رہنے دیا۔ بعد میں
حملوں کا یہ سلسلہ مردان،صوابی اور چارسدہ تک پھیل گیا اور پولیو رضاکاروں
کیساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی نشانہ بنتے رہے۔ سال 2011میں پاکستان میں
پولیو کے198،2012 میں58،2013 میں93جبکہ 2014میں تاحال115کیسز سامنے آچکے
ہیں۔
سال2013کا موازنہ کیا جائے تو بلوچستان میں صفر، شورش زدہ فاٹا میں66،
پنجاب میں 7، کے پی میں11 اور سندھ میں9 کیسز سامنے آئے۔ پاکستان میں
پولیوں ٹیموں اور انکے محافظوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر سوال یہ ہے
کہ کیا پولیو کے قطروں کے متبادل نظام نہیں لایا جاسکتا جس سے اس مرض کو
زیر کرنے میں آسانی ہو۔ یہی سوال جب ہم نے اس مرض کے ماہرین ڈاکٹر بلال،
ڈاکٹر جوہر، ڈاکٹر سرفراز اور ڈاکٹر جانباز سے کیا تو انہوں نے کہا کہ
پاکستان میں صحت و صفائی کے ناقص صورتحال کیوجہ اور IPVیعنی انجکٹی بل
پولیو ویکسین کیلئے تربیت یافتہ سٹاف کے فقدان کی وجہ سے ایسا ابھی ممکن
نہیں ہوسکتا۔
اور انکی یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کے
OPVیعنی پولیو کے قطروں سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان،
افغانستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں پولیو وائرد پر قابو پالیا گیا
ہے۔
اور حال ہی میں پاکستانی شہریوں کو ویزہ جاری کرنے کیلئے پولیو سرٹیفیکیٹ
کی شرط رکھ دی ہے اقوامِ عالم کیلئے ہم پر بیرون ملک سفر اور روزگار میں
مشکلات پیدا کرنے کا اپنا وطیرہ دہرایا۔ کئی ممالک نے پاکستان سے سفارتی
سطح پر شکایات کی ہیں۔ کہ ان کے ممالک میں پولیو کا مسئلہ پاکستانی شہریوں
کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ذرائع کے مطابق سعودی حکومت نے پاکستان سے کہا ہے کہ
وہ پولیو وائرس کوکنٹرول کریں ورنہ ان کے لئے حج اور عمرے کیلئے پاکستانیوں
کو ویزے جاری کرنے مشکل ہوجائینگے، اور یہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کو سعودی
سرزمین پر قدم رکھتے ہی پولیو کے قطرے پلانا بھی لازم کردیئے گئے ہیں۔
اسکے علاوہ اگر دیکھا جائے تو پولیو مہم کی ناکامی میں صرف سیکیورٹی کا
مسئلہ نہیں بلکہ پولیو ورکرز کو تنخواہیں بھی وقت پر نہیں مل رہیں۔اور
معاوضہ بھی کم ہے۔ ان مہمات کی ناکامی کی بڑی وجہ عوامی شعور و آگاہی بھی
ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب میڈیا/صحافیوں کو اس مرض سے متعلق آگاہ کیا
جائے اور ہر سطح پر پولیو مونیٹرنگ سیل میں باقاعدہ طور پر میڈیا کی
نمائیندگی ہو ،تاکہ کسی بھی سطح پر میڈیا میں اس مہم کے خلاف غلط اور منفی
خبر عوام تک نہ پہنچے۔
یہی نہیں میڈیا میں علماء کرام کیساتھ پولیو مرض کے خاتمے پر مزاکرے کرائیں
جائیں ۔
جسیا کہ دنیا بھر کے جید علماء کرام اور علماء حق نے اپنے فتاوہ (فتواۃ) کے
ذریعے پولیو کے قطروں کو حلال اور جائز بھی قرار دیا ہوا ہے اور پاکستان
میں مختلف مکاتب فکر کر علماء مفتی رفیع عثمانی،مفتی منیب الرحمٰن،مفتی تقی
عثمانی،علامہ ساجد میر،مولانا سمیع الحق،مولانا فضل الرحمٰن، مولانا
محمداحمد لدھیانوی، علامہ ساجدنقوی، علامہ امین شہیدی اس بات پر متفق ہیں
کہ تحقیق کے مطابق پولیو کے قطروں میں ایسی کوئی دواء شامل نہیں کہ جس سے
کسی بھی قسم کی افزائیش نسل کو روکنا مقصود ہو، تمام علماء نے پولیو کے
قطروں کو جائز اور لازم قراردیا ہے۔
علماء پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے مساجد، دینی مدارس اور اجتماعات ،
جمعے کے خطبات میں پولیو مہم میں لوگو ں کو پیغام دیں کر اس مرض کے خاتمے
میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
تاہم عالمی ادارے اور حکومت کو چاہئے کہ علماء کرام اور میڈیا کو آگے لائے
اور انکی باقاعدہ ٹاسک فورس تشکیل دیکرتربیت و آگاہی کیلئے اقدامات کئے
جائیں تا کہ ہم پولیو جیسے مرض کا خاتمہ مکمن ہو سکے۔
|