انقلاب مارچ ،عوام اور آزادی مارچ

 پاکستان کا دستور عوام کے حقوق اور انکی رائے کا احترام کرنے کو کہتا ہے۔ــ’’آئین پاکستان کا تقاضا صرف انتخابات کروانا اور اقتدار آگے منتقل کروانا ہی نہیں بلکہ عوام پاکستان کے بنیادی حقوق پر مبنی آئین پاکستان کی پہلی40شقیں بھی توجہ کی متقاضی ہیں۔ان آئینی تقاضوں سے عمداروگردنی ملک و قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے‘‘۔

مگر جناب ایسی باتوں پر کون غور کرتا ہے یہاں تو آئین توڑ مروڑ کر اپنے فائدے اُٹھانا تو پاکستان میں ایک رواج بن چکا ہے۔قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کوجسے مسلمانوں نے اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اسلامی طرز زندگی کے اصولوں کے مطابق زندگی گذر سکیں گے مگر یہاں تو روز اول سے ہی ایسی ریشہ دوانیاں شروع ہوئی ہیں کہ نہ تو اس ارض پاک کو استحکام حاصل ہو سکا ہے نہ ہی عوام کے حالات بہتر ہوسکے ہیں ۔اگرچہ یہاں وہ صورت حال نہیں ہے جوکہ قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کو درپیش تھی مگر بہت سے معاملات میں تاحال کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے کہ یہاں ہمارے نامی گرامی سیاست دانوں اور نام نہاد لیڈران حضرات نے کچھ ایساہونے ہی نہیں دیا کہ ہم ایک باوقار قوم کے طور پر اُبھر سکتے اور عوام بھی خوشحال ہو سکتی۔

پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کو ایک تماشا گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور نت نئے سیاسی حربے استعمال کر کے محض اپنے ہی فوائد حاصل کرنا ہمارے سیاسی رہنما ؤں کو مطع نظر بن چکا ہے۔یہاں کوئی انقلاب کے نعرے کے زور پر ،کوئی اسلام کے نفاذ کے اعلان کے ساتھ اور کوئی ملک و قوم کی حالت بدلنے کے دعویٰ کے ساتھ میدان میں اُترتا ہے اور عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے بنک اکاوئنٹس کرپشن کر کے بھرتے ہیں۔ اور نو دو گیا رہ ہو جاتے ہیں اور عوام بیچاری یوں ہی غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی ، دہشت گردی ، خود کش حملوں میں پس پس کر مرتی رہتی ہے اور انکا کوئی پرسان حال نہیں ہے کہ تماشا گاہ میں بس عوام جو کہ مفا د پرست سیاست دانوں کیلئے ایک تماشائی کی حیثیت رکھتے ہیں کو وہ ہاتھ دکھا کر ’’یہ جا ،وہ جا ’’پر عمل کرتے ہیں ،بیچاری مفلس عوام بس تماشے سے لطف و اندوز ہو کر ہی چپ سدھ لیتی ہے۔عوام کی بھلائی کی خاطر اور پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان نے لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا اور رخت سفر اسلام آباد کی طرف باندھا اور حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود اسلام آباد کے ریڈزون تک رسائی حاصل کر لی جو کہ محض عوام کی بھرپور شرکت کی وجہ سے ممکن ہو سکی ،وگرنہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب لگ رہا تھا کہ موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت اس بار سخت ردعمل سے دونوں کو اسلام آباد تک پہنچنے نہیں دے گی مگر جناب عوام کی بھرپور شرکت نے انکے خواب چکنا چور کر دیئے اور دونوں لیڈر تبدیلی کے حصول کے لئے یہاں دھرنا تمام تر مطالبات کی منظوری تک دینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری کے انقلاب /لانگ مارچ نے ایک بات تو ثابت کر دی ہے کہ عوام اب مزید بے انصافی،کرپشن،بے روزگاری،لوڈشیڈنگ اور دیگربدعنوانی پر مشتمل عوامل کو برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ یہاں بات تعداد کی نہ کی جائے تو بہترہے ، حق کی آواز اکثر بلند کرنے والوں کی تعداد کم ہی ہوا کرتی ہے کہ سب بلند حوصلہ نہیں ہوا کرتے ہیں انکی وجہ سے اور لوگ میدان میں اترتے ہیں۔ بقول حضرت عمر ؓ ’’دریائے فرات کے کنارے اگر کتا بھی بھوک سے مرتا ہے تو وہ اسکے ذمہ دار ہونگے ‘‘۔یہاں انسان قتل ہورہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے؟جمہوریت کی بات تو سب ہی کر تے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ جمہوریت کی بات کرنے والوں میں سے اکثر ہی کہیں نہ کہیں جمہوریت کی توہین کر جاتے ہیں اوردوسروں کو جمہوریت کی تلقین کرتے ہیں مگر خود جمہوریت کے تقاضوں پر عمل درآمد کرنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں،لیکن نام نہاد جمہوریت میں حکمرانی کے خواہش مند رہتے ہیں اور نام نہاد جمہوریت کو بچا کر جمہوریت کے علمبردار بنتے ہیں ؟ذرا سوچ لیں دیگر ممالک میں جیسا واقعات پاکستان میں ہوتے ہیں وہ ہوں تو حکمرانی چھوڑ دیتے ہیں یہاں تو عوام کو ہی سڑکوں پر ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے؟

خود دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ ماڈل ٹاؤن ،لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنا ن پر جو ظلم وستم کیا گیا ہے وہ کس کے کہنے پر ہوا تھا؟ کیوں ہوا تھا؟ ابھی تک حکومتی دعوؤں کے برعکس انکے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے جب کہ مجرموں کو بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچا یا گیا ہے اور حد تو یہ ہو گئی ہے کہ ان شہدا کی ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی گئی ہے آخر اس قدر بے حس حکومت کیوں ہو گئی ہے ؟ کہیں اس کے ہاتھ شہدا کے خون سے تو نہیں رنگے ہوئے ہیں ؟ یہ سوالات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے؟ ہمارا میڈیا بھی حقائق کی درست تصویر نہیں دکھا رہا ہے ایک ایسا چینل جو ہر وقت اپنی وفاداری تبدیل کرتا رہتا ہے وہ خاص کر جب عوام اپنے حق کے حصول کے لئے عمران خان اور طاہر القادری کے ہمراہ اسلام آباد میں جمع ہے تب بھی اکثر میڈ یا کے نام نہاد صحافی حضرات اپنے قلم کو لفافے کی سیاہی سے زرد صحافت بنا رہے ہیں اور نہ تو یہاں کوئی قاتلوں سے پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان مفاد پرست سیاستدانوں کا کوئی کڑا احتساب کرنے والا ہے؟

آپ تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر فیصلہ کرلیں کہ کیا انتخاب میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کروانا عمران خان کا غلط مطالبہ ہے؟کیا ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں مرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانا اور انکو سزا دلوانا قانون کے خلاف بات ہے؟ملک میں دہشت گردی کے واقعات آج بھی ہو رہے ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے غربت کے مارے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف آئین کے مطابق کوئی کاروائی ہوئی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ غلط کوائف کے ساتھ الیکشن لڑنے اور جیتنے والوں کے خلاف بھی آئین کے تحت کوئی سزا کے لئے کاروائی حکومت کی جانب سے نہیں کی گئی ہے او ر پھر بھی جمہوری حکومت کے عہدیداران کا دعویٰ ہے کہ وہ آئین کے مطابق حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں چاہے وہ نام نہاد جمہوریت پر مبنی حکومت ہے،چاہے وہ عوام کو کسی بھی طرح سے کوئی فائدہ نہ دے رہی ہو ،چونکہ وہ لوگ ووٹ لے کر چاہے جیسے بھی لے کر اقتدار میں آئے ہیں تو مقررہ پانچ سال تک ہی حکومت کرنے کے اہل ہیں؟

عمران خان صاحب کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بھی ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر وہ عمران خان کی طرح تبدیلی نظام کے بدلے بغیر لانے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب تک یہ نظام جس پر موجودہ جمہوری حکومت آئی ہے وہ ختم نہیں ہو ا اس وقت تک حقیقی تبدیلی اس ملک میں رونما نہیں ہو سکتی ہے ،نہ ہی عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں ، نہ ہی پاکستان کو معاشی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔یہ وہ نقطہ ہے جس پر عمران خان کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان خلیج پیدا ہو سکتی ہے کہ عمران خان موجودہ نظام میں رہتے ہوئے ہی تبدیلی پاکستان میں لا کر ’’ نیا پاکستان ‘‘بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں جو کہ حقائق بتا رہے ہیں کہ یوں پورا ہونا نا ممکن سا ہے۔مگر عمران خان اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تبدیلی لے آئیں اور پاکستان کا مستقبل سنوار دیں ۔دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پاکستان کو ایک تماشا گاہ مزید نہیں رکھنا چاہتے ہیں اسی وجہ سے وہ عوام کی طاقت کے زور پر انقلاب لا کر پاکستان کے حالات بدلنے کے درپے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کی یہاں میں اس لیے بات کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے حمام میں ننگے سیاستدانوں کے کرتوں کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ کس طرح سے اس ملک کی سادہ لوح عوام کے جذبات سے محض اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے کھیل رہے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام متحد ہوکر اپنے حق کے لئے پُرامن رہ کر اپنی آواز بلند کریں ۔ہمیں بحیثیت اچھے شہری ومسلمان ہونے کے یہ ہماری بنیادی ذمہ داری وفرض ہے کہ کلمہ حق بلند کریں۔ اگر آپ آج بھی گھروں میں بند رہ کر وقت گذارنا چاہ رہے ہیں تو یاد رکھئے گاکہ کل کو آپ آنے والی نسلوں کو جواب دہ ہونگے اور ہماری غفلت کی سزا ہمارے بچوں کو بھگتنا پڑ سکتی ہے۔جب ہماری اپنی منتخب کردہ نام نہاد جمہوری حکومتیں ہی ہمارا بھلا نہ کرسکیں تو ایسے حکمرانوں کو ہم سب متحد ہو کر ہی اقتدار سے بھگا سکتے ہیں؟ ذرا سی دیر اپنے لئے نہیں محض پاکستان کے لئے سوچیں اور میدان میں نکل کر ایک عظیم پاکستان کی بنیاد رکھیں ہو سکتا ہے اس پاکستان میں ہمارا بھی حصہ شامل ہو جائے۔اگر انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے روح رواں عمران خان اور طاہر القادری نے عوام کی اُمنگوں کے خلاف اس بار کچھ کیا تو اس بار عوام انکو معاف نہیں کرے گی اور ہو سکتاہے کہ انکا سیاسی کیریئر ہی انکے ساتھیوں سمیت ختم ہو جائے اس لئے انکو اپنے مطالبات حکومت سے لازمی منوانے چاہیں تاکہ اس سے عوام اور پاکستان کے حالات میں بہتری آ سکے کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک میں کوئی انقلاب آئے ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ لوگ اپنے حق کے لئے خود کھڑے ہونگے اور ایک تباہ کن صورت حال پاکستان کو درپیش ہو سکتی ہے۔موجودہ حکومت بری طرح اب پھنس چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس انقلاب مارچ اور آزادی مارچ سے اس کا مستقبل کس حد تک متاثر ہوتا ہے یا پھر کوئی ہاتھ عوام کے ساتھ سیاست دانوں کی وجہ سے ہوتا ہے؟؟؟؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522813 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More