میٹھا بھی ایک نشہ ہے
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
طبی ماہرین کے مطابق چوہے بھی
میٹھے کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ انسان
میٹھا بھی ایک نشہ ہے۔ جس کے بارے میں اب تحقیق ہورہی ہے کہ ایسا کیا ہے کہ
میٹھا کھانے کی خواہش پوری نہیں ہوتی، اور مزید اور چاہیئے ، کا دل چاہتا
ہے۔ صبح ناشتے میں میٹھی موسلی، دوپہر سے پہلے آئس کریم اور بعد میں کافی
کے ساتھ میٹھے بسکٹ۔ میٹھے سنیکس بہت سے لوگوں کے لیے معمول کی خوراک کا
حصہ ہیں لیکن اب اس بارے میں نئے سوالات سامنے آئے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے
میٹھا کھانے کی خواہش پر بے قابو ہوجاتے ہیں۔ میرے ایک دوست کے گھر والے ان
سے میٹھا چھپا کر رکھنے لگے، خیال تھا کہ اس سے ان کی بیماری پر قابو پانے
میں مدد ملے گی۔ لیکن میرے دوست کے گھر والے حیران رہ گئے کہ وہ رات کو چھپ
کر فریج سے میٹھے کی ڈش نکال کر کھانے لگے۔ جس سے ان کی بیماری میں اضافہ
ہوگیا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس کو میٹھا کھانے کی معمانیت ہوتی ہے، وہ
اس کی اتنی ہی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ کئی لوگوں میں بہت زیادہ کیلوریز والی
ان اشیائے خوراک کی طلب اور چاہت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی پوری نہیں
ہوتی۔ لیکن ماہرین اب یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آیا ایسے حالات کو نشے کی عادت
قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک میٹھی نوکری کا ذکر جس پر
برطانیہ کی مشہور زمانہ کیمبرج یونیورسٹی کو اس وقت پی ایچ ڈی کے لیے ایک
ایسے طالب علم یا طالبہ کی تلاش ہے، جسے ریسرچ اسکالر کے طور پر دی جانے
والی آئندہ تحقیقی ملازمت کو ’دنیا کی سب سے میٹھی نوکری‘ کا نام دیا جا
رہا ہے۔برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس منصوبے کی
کامیاب تکمیل پر متعلقہ تحقیقی ماہر کو ’ڈاکٹر آف فزکس‘ اور ’ڈاکٹر آف
کیمسٹری‘ کی طرز پر غیر رسمی طور پر ’ڈاکٹر آف چاکلیٹ‘ بھی کہا جا سکے
گا۔مناسب تعلیمی قابلیت کے حامل اور ڈاکٹریٹ کے کسی بھی طالب علم یا طالبہ
کو اس ملازمت کی پیشکش اس مقصد کے تحت کی جا رہی ہے کہ متعلقہ ریسرچر کو
’چاکلیٹ اسٹڈیز‘ یا چاکلیٹس سے متعلق بنیادی علوم پر تحقیق کرنا ہو
گی۔کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس بارے میں شائع کردہ ’جاب نوٹس‘ کے
مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ ایسی اشیائے خوراک جن کی تیاری
میں چاکلیٹس استعمال کی گئی ہوں، انہیں گرم موسم یا زیادہ درجہ حرارت پر
پگھلنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟اس موضوع پر کیمبرج یونیورسٹی نے ایک پی
ایچ ڈی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ دنیا کی کوئی بھی
چاکلیٹ، چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ معیار کی کیوں نہ ہو، 34 ڈگری سینٹی گریڈ یا
93 ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت کے قریب نرم پڑنا یا پگھلنا شروع ہو جاتی ہے
حالانکہ یہ ٹمپریچر انسانی جسم کے اوسط درجہ حرارت سے بھی کم ہوتا
ہے۔کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اس آسامی پر انتخاب کے لیے صرف
یورپی یونین کے شہری ہی درخواستیں دے سکتے ہیں۔ اس ریسرچ پروجیکٹ کے لیے
رہنمائی کا کام کیمیکل انجینئرنگ، جیو ٹیکنیکل انجینئرنگ اور soft matter
فزکس یا نرم مادوں سے متعلق طبیعیاتی علوم کے ماہرین کریں گے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں اگر گرم موسم یا زیادہ درجہ حرارت کے باوجود چاکلیٹ
مصنوعات کو نرم پڑ جانے سے بچانے کا کوئی طریقہ دریافت کر لیا گیا، تو عام
صارفین کے ساتھ ساتھ اس کا سب سے زیادہ براہ راست کاروباری فائدہ چاکلیٹ
تیار کرنے والی دنیا کی دس سب سے بڑی کمپنیوں کو ہو گا۔ گزشتہ برس ان 10
کمپنیوں کو ان کی چاکلیٹ مصنوعات کی فروخت سے ہونے والی مجموعی آمدنی 85
ارب ڈالر سے زائد رہی تھی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چاکلیٹ سے دل کی
بیماریوں سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
آسٹریلوی محققین کی ایک تازہ ترین ریسرچ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ دس سال تک
روزانہ بلیک یا ڈارک چاکلیٹ کی ایک خاص مقدار کھانے والے افراد کے اندر دل
کی بیماریوں کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ریسرچرز کا کہنا ہے کہ بلیک یا
ڈارک چاکلیٹ کا ایک طویل عرصے تک مسلسل استعمال، ہارٹ اٹیک یا دل کے دورے
اور فالج کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ملبرن کی مناش یونیورسٹی کی طرف سے
دو ہزار سے زائد آسٹریلوی باشندوں پر کروائی جانے والی اس تحقیق سے پتہ چلا
کہ روزانہ 100 گرام یا 3.5 اونس چاکلیٹ جس میں 70 فیصد یا اس سے بھی زیادہ
کوکوا شامل ہوتا ہے، کھانے والے افراد میں دل کے امراض جنم لینے کے امکانات
بہت کم پائے گئے۔اس نئی تحقیق میں شامل محققین کی ٹیم کی سربراہ ’ایلا زومر‘
کے مطابق ان کی ٹیم نے دوران تحقیق یہ اندازہ لگایا ہے کہ دل کے ہر 10 ہزار
مریضوں کو 70 مہلک اور 15 غیر مہلک واقعات رونما ہونے سے بچایا جا سکتا تھا
اگر انہوں نے دس سال تک کوکوا سے بنی ڈارک چاکلیٹ کا پابندی سے استعمال کیا
ہوتا۔برطانوی طبی جریدے ’برٹش میڈیکل جرنل‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ
میں محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں دل کے امراض میں مبتلا انسانوں کے
علاج کے ساتھ ساتھ ڈارک چاکلیٹ تھراپی کے بہت کامیاب تجربوں کا پتہ چلا ہے۔
اس طرح ممکنہ اموات اور قلبی امراض کے مہلک ہونے اور نہ ہونے دونوں کیسز
میں ڈارک چاکلیٹ پابندی سے کھانے والوں اور ایسا نہ کرنے والوں میں واضح
فرق پایا گیا ہے۔
ہائی کوکوا چاکلیٹس اس لیے فائدہ مند ہے کہ اس میں ’اینٹی آکسیڈنٹ کیمیکل‘
یا مائع تکسید پایا جاتا ہے جسے طبی اصطلاح میں ’پولی فینول‘ کہا جاتا ہے۔
اس کا کام خون کی شریانوں کو سکڑنے سے روکنا اور انہیں کشادہ رکھنا ہوتا
ہے۔ اس لیے یہ ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے خلاف موئثر ثابت ہوتا ہے
اور اس کا مسلسل استعمال جسم میں خون کی گردش کو درست رکھتا ہے۔کوکوا کی
کاشت زیادہ تر افریقی ممالک میں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ گرین ٹی یا سبز قہوہ
اور گہرے رنگ کے پھلوں میں بھی ’پولی فینول‘ بکثرت پایا جاتا ہے۔ مثلاٍ
سْرخ سیب اور بلو بیریز میں’پولی فینول‘ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔گزشتہ برس
Huffington Post میں فرینک لِپ مین کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں
نے یہ لکھا تھا کہ انہیں میٹھا کھانے کی عادت تھی اور پھر انہوں نے اس عادت
سے چھٹکارا پانے کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے۔فرینک لِپ مین خود کو
ایک integrative ڈاکٹر قرار دیتے ہیں۔ ان کے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد
میٹھی اشیاء کھانے سے متعلق بڑی گرما گرم بحث شروع ہو گئی تھی۔ فرینک لِپ
مین کا کہنا ہے کہ میٹھا کھانے کی خواہش شروع میں تو ماں کے دودھ میں پائی
جانے والی قدرتی مٹھاس کی وجہ سے تیز ہو جاتی ہے اور بعد میں والدین کے اْس
رویے کی وجہ سے جس کے تحت وہ اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لیے یا پھر انعام کے
طور پر اکثر انہیں میٹھی اشیاء دیتے ہیں۔اکثر لوگ یہ سمجھنا شروع کر دیتے
ہیں کہ میٹھا کھانے سے ان کا موڈ بہتر ہو جائے گا اور انہیں توانائی ملے گی
فرینک لِپ مین کے بقول جب تک انسان بالغ ہوتا ہے، تب تک اکثر لوگ یہ سمجھنا
شروع کر دیتے ہیں کہ میٹھا کھانے سے ان کا موڈ بہتر ہو جائے گا اور انہیں
توانائی ملے گی۔طبی ماہرین کے مطابق چوہے بھی میٹھے کو اتنا ہی پسند کرتے
ہیں جتنا کہ انسان۔ سن 2007 میں فرانس میں مکمل کی گئی ایک تحقیق نے ثابت
کر دیا تھا کہ کم ازکم چوہوں میں چینی بھی اتنی ہی نشہ آور ثابت ہوتی ہے
جتنی کہ کوکین، نکوٹین یا پھر الکوحل۔میٹھی اشیا آسانی سے ہضم ہو جاتی ہیں
اور صحت کے لیے صرف نقصان دہ ہی نہیں ہوتیں۔اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں
نے چوہوں کو پینے کے لیے دو طرح کا پانی دیا تھا۔ ایک طرح کے پانی میں
میٹھا گھول دیا گیا تھا اور دوسرے میں کچھ کوکین ملا دی گئی تھی۔ نتیجہ یہ
نکلا کہ 94 فیصد چوہوں نے پینے کے لیے میٹھے پانی کو ترجیح دی۔ پھر ایک
دوسرے جائزے سے بھی ثابت ہو گیا کہ وہ چوہے جو کوکین ملا پانی پیتے تھے، جب
انہیں چینی مِلے پانی کی پیشکش کی گئی، تو انہوں نے بھی کوکین والا پانی
چھوڑ کر میٹھا پانی پینا شروع کر دیا تھا۔پروفیسر فالک کیفر جرمنی کے شہر
من ہائم کے رہنے والے ہیں اور وہ نشہ آور اشیاء کے استعمال سے متعلق ریسرچ
کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میٹھے کے نشے کے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود
نہیں ہے۔طبی ماہرین کے مطابق چوہے بھی میٹھے کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا
کہ انسان۔پروفیسر کیفر کہتے ہیں کہ میٹھا اور ہیروئن جیسی نشہ آور اشیاء
دماغ کے ایک ہی حصے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ وہ اس حصے کو انسانی دماغ کے
’ریوارڈ سسٹم‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خوراک کی خواہش کو ہیروئن
کے نشے کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔خوراک سے متعلقہ امور کے ایک جرمن
ماہر سوین ڈیوڈ میولر کی رائے بھی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح کا نشہ
ہیروئن اور کوکین استعمال کرنے والے لوگوں کی عادت ہوتا ہے، اس کا موازنہ
چاکلیٹ کھانے والے کسی شخص کی عادت کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ میولر کہتے
ہیں کہ شوق سے میٹھا کھانا ایک ایسی شدید خواہش کا نتیجہ ہوتا ہے جو کچھ
لوگوں میں نشے کی عادت کی حد تک شدید ہوتی ہے۔
Sven-David Müller کہتے ہیں کہ مٹھاس دراصل ایک ایسا ذائقہ ہے جسے ہم مثبت
تجربہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق بچوں پر کیے گئے تجربات سے بھی یہی ثابت ہوا
ہے۔ ان کے بقول میٹھی اشیاء آسانی سے ہضم ہو جاتی ہیں اور صحت کے لیے صرف
نقصان دہ ہی نہیں ہوتیں۔پروفیسر فالک کیفر کہتے ہیں، ’اگر میرا وزن معمول
سے بہت زیادہ نہ ہو، میں باقاعدگی سے ورزش کروں اور اپنے دانت بھی باقاعدگی
سے صاف کروں، تو نہ تو میرے دانت خراب ہو ں گے اور نہ ہی میٹھا کھانے سے
مجھے ذیابیطس کی بیماری کا سامنا کرنا پڑے گا‘ دنیا بھر میں ببیلجیم کی
چاکلیٹ اپنے ذائقہ کے سبب مشہور ہیں۔ لیکن اب انھیں بھی نقل کرنے والوں سے
مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ بیلجیم نے اپنی چاکلیٹ مصنوعات کے برانڈ کی حفاظت
کے لیے یورپی یونین میں درخواست دی ہے۔ بیلجیم کے چاکلیٹ سازوں کا ماننا ہے
کہ انہیں اپنی مصنوعات کی انفرادیت قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔بیلجیم کی
چاکلیٹس پوری دنیا میں مشہور ہیں اور اپنی ہی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہوتی
ہیں۔ بیلجیم میں چاکلیٹ سازی کی صنعت اس وجہ سے تشویش کا شکار ہے کہ یورپ
کی دیگر چاکلیٹ کمپنیاں اکثر اپنی مصنوعات پر بیلجیم کی معروف چاکلیٹس کے
حوالے سے ایسا کچھ نہ کچھ لکھ دیتی ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ ان کی
چاکلیٹس بھی اتنی ہی معیاری ہیں جتنی کہ بیلجیم کی۔بیلجیم میں چاکلیٹ سازی
کی صنعت کی نمائندہ فیڈریشن علاقائی حکومتوں کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات
کرنا چاہتی ہے کہ یورپی یونین کی سطح پر بیلجیم کو اپنی چاکلیٹ مصنوعات کے
برانڈ کی حفاظت کے لیے کس قسم کی درخواست دینی چاہیے۔یورپی ملک بیلجیم میں
چاکلیٹ سازی کی تاریخ ایک صدی پرانی ہے۔ 1912 میں سوئٹزر لینڈ سے تعلق
رکھنے والے Jean Neuhaus نے ایک سخت خول کے اندر کریم بھر کر خاص قسم کی
چاکلیٹ ایجاد کی تھی جسے ’پرالین‘ کہا جاتا ہے۔ تب سے یورپ سمیت پوری دنیا
میں بیلجیم کی اس نہایت لذیذ مٹھائی نے غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے۔ اس سے
متاثر ہو کر دیگر یورپی ممالک نے بھی اسی طرز کی چاکلیٹس تیار کرنا شروع کر
دی تھیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ اپنی چاکلیٹ مصنوعات کی تشہیر اور ان کی
فروخت میں اضافے کے لیے اکثر چاکلیٹس کی پیکنگ پر ’بیلجیم اسٹائل‘ یا
’بیلجیم کی ترکیب‘ جیسے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔اس سے ہوتا یہ ہے کہ چاکلیٹ
خریدنے والے افراد چاکلیٹ کی پیکنگ پر درج ’بیلجیم‘ کا نام دیکھتے ہی اس کے
معیاری ہونے کا یقین کر تے ہوئے یہ چاکلیٹس خرید لیتے ہیں۔ اس سے ظاہر یہ
ہوتا ہے کہ بیلجیم کا نام ایک طرح سے چاکلیٹ کے خوش ذائقہ ہونے کی ضمانت کی
حیثیت رکھتا ہے اور جس بھی چاکلیٹ پر بیلجیم درج ہو، اْس پر جیسے معیاری
ہونے کی مہر لگ جاتی ہے۔ اس قسم کی کاروباری چال چلنے والوں کو تجارتی
اصطلاح میں ’ کاپی کیٹ‘ کہا جاتا ہے۔بیلجیم کے چاکلیٹ سازوں کا ماننا ہے کہ
انہیں اپنی مصنوعات کی انفرادیت قائم رکھنے اور انہیں مارکیٹ میں اپنی
مخصوص شناخت کیساتھ پیش کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے، جتنا فرانسیسی وائن
تیار اور فروخت کرنے والے تاجروں کو یا پھر اٹلی کے علاقے Parma میں تیار
کیے جانے والے خنزیر کے گوشت کے پارچوں کو تیار کر کے بیچنے والوں کا جو
Parma Ham کے نام سے اپنی مصنوعات بیچتے ہیں۔کولون میں ہر سال مٹھائی سازی
کی صنعت کی نمائش کا انعقاد ہوتا ہے۔بیلجیم کی چاکلیٹس کی نقل کر کے اپنی
مصنوعات فروخت کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے اس یورپی ملک کی Neuhaus
چاکلیٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو Jos Linkens نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک
انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’ہمیں اس امر پر افسوس ہے کہ ہماری چاکلیٹس کی نقل
کرنے والوں کی مصنوعات کا معیار ہماری اصلی چاکلیٹس کے مقابلے میں بہت کم
ہے‘۔Jos Linkens بیلجیم کی بسکٹ بنانے والی ایک معروف کمپنی کے سربراہ بھی
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دنیا کی دیگر بڑی اور معیاری چاکلیٹ ساز کمپنیاں
بیلجیم کی چاکلیٹس کی نقل کریں تو اْنہیں تکلیف نہیں ہو گی کیونکہ وہ اپنی
مصنوعات کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔بیلجیم کے چاکلیٹ ساز
اداروں کا کہنا ہے کہ ان کی مصنوعات اس لیے دنیا بھر کی چاکلیٹس کے مقابلے
میں معیاری اور منفرد ہیں کہ ان کے ہاں اس شعبے کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد
پائی جاتی ہے اور بہت سے باصلاحیت کارکن اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ اس کے
علاوہ ان اداروں کی طرف سے چاکلیٹ سازی صرف مشینوں کے ذریعے نہیں کی جاتی۔
بیلجیم کی ’پرالینز‘ میں نت نئی کریمیں بھرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ
ذائقہ دار بنانے میں ان منجھے ہوئے باورچیوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو اکثر کام
مشینوں کی بجائے خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔۔ |
|