آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے بدلتے رنگ عالمی میڈیا کے سنگ
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
میاں محمد نواز شریف پانچ سال کے
لیے ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے ہیں اور امریکہ ان سے مستعفی ہونے کے
مطالبے کی حمایت نہیں کرتا -
بین الاقوامی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں آزادی اور
انقلاب مارچ کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ، آئی ڈی پیز ،پرویزمشرف
، این آر او خارجہ اور داخلی معاملات ،مہنگائی ،بے روز گاری ، لوڈ شیڈنگ ،کرپشن
اور کئی دیگر اہم ایشوز پس منظر چلے گئے-
2013کے عام انتخابات کو جج کرنیوالے بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو
تمام گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں شفاف اور بہتر قرار دیا -
عالمی میڈیا کے نزدیک عمران خان سیاست کے میدان کو کھیل کے میدان کی طرح لے
کر چل رہے ہیں-
پاکستان میں انقلاب،تبدیلی ، یا نیا پاکستان کے بڑے پلئیرز اب کھل کر سامنے
آگئے ہیں۔ امریکہ جسے پاکستان کی سیاست میں تبدیلیوں کا منبع قرار دیا جاتا
ہے، نے واضح کردیا کہ میاں محمد نواز شریف پانچ سال کے لیے ملک کے
وزیرِاعظم منتخب ہوئے ہیں اور امریکہ ان سے مستعفی ہونے کے مطالبے کی حمایت
نہیں کرتا ہے۔ واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی ترجمان نے معمول کی بریفنگ کے
دوران پاکستان سے متعلق سوال پر صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ پاکستان کی
صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہاں کے موجودہ سیاسی حالات کو "تشویش
ناک" قرار نہیں دیا جاسکتا۔ترجمان نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں آئینی اور
انتخابی عمل کی حمایت کرتا ہے جس کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں
نواز شریف کی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے۔ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کے
جمہوری نظام میں بالائے آئین تبدیلیاں لانے اور ان کی کوشش کرنے والے افراد
کو امریکہ کی حمایت حاصل نہیں ہے۔محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے
پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر
زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ حالیہ بحران سے پرامن طور پر
نکلنے کا راستہ موجود ہے۔ترجمان نے کہا کہ موجودہ بحران کے باوجود پاکستان
میں سیاسی مکالمے کی بہت گنجائش ہے جسے پرامن انداز سے انجام پانا چاہیے ۔
امریکہ کا یہ بیاں اس تسلسل کا حصہ ہے، جس میں دو دن پہلے انھوں نے کہا تھا
کہ امریکہ پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لے رہاہے ہیں، پاکستان میں جاری
معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کئے جائیں۔ امریکی ترجمان کے حوالے سے مارچ
اور دھرنا دینے والوں کے لئے یہ ایک مثبت اور امید افزا پیغام تھا، لیکن
بدھ کی شب جاری ہونے والے اس بیان عمران خان اور طاہر القادری کے حامیوں کو
شدید مایوسی میں دھکیل دیا ۔ بین الاقوامی میڈیا اسلام آبادکے مارچ پر
نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اور یہ مارچ گرما گرم سرخیوں کی زینت بن چکا ہے۔ سوشل
میڈیا پر آزادی اور انقلاب مارچ کے حوالے سے گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ بدھ
کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ ، ہفنگٹن پوسٹ ، دی
گارڈینئز ، دی ٹیلی گراف ، الجزیرہ اور ہندوستان ٹائم نے بھی ان واقعات کو
انتہائی اہمیت دی۔ مجموعی طور پر امریکہ اور بھارت سمیت تمام عالمی میڈیا
کے عمران خان کے آزادی مارچ اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کے حوالے سے
ملے جلے تاثرات تھے۔ عالمی میڈیا کے نزدیک عمران خان سیاست کے میدان کو
کھیل کے میدان کی طرح لے کر چل رہے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق
طاہرالقادری اور عمران کے مارچ نے دارالحکومت میں نظام زندگی مفلوج کردیا۔
شہری پوچھ رہے ہیں انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ برطانوی اخبار دی
گارجین نے لکھا ہے کہ دونوں رہنما اسلام آباد میں 10 لاکھ تو نہ لاسکے تاہم
دارالحکومت میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا۔ بھارتی اخبار انڈیا ٹائمز نے کہا
ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی دہشت گرد حملے ہورہے ہیں اور لانگ مارچ کے بعد
پاکستان مزید انتشار کا شکار ہوگا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق دنیا کی
اکلوتی مسلم ایٹمی قوت پر دنیا بھر کی نظریں تو ویسے بھی ہر وقت رہتی ہیں
اور اب ان نئی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ خبریں منظر سے غائب ہوگئی جو ان
مارچوں سے پہلے زبان زد عام اور سب سے اہم سمجھی جاتی تھیں۔ بین الاقوامی
میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں آزادی اور انقلاب مارچ کی
وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ، آئی ڈی پیز ،پرویزمشرف ، این آر
او خارجہ اور داخلی معاملات ،مہنگائی ،بے روز گاری ، لوڈ شیڈنگ ،کرپشن اور
کئی دیگر اہم ایشوز پس منظر چلے گئے ہیں۔برطانوی اخبارڈیلی میل نے مارچ کے
حوالے سے لکھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارکسی رہنمانے اپنے کارکنوں
کو یوٹیلٹی اوردیگر بل اداکرنے سے منع کیاہے۔ عمران خان نے اپنے دھرنے کی
ناکامی کو میڈیا اورسیاسی تجزیہ کاروں سے چھپانے کیلیے سول نافرمانی کی
تحریک کااعلان کیاہے۔ بی بی سی نے کہاہے کہ عمران خان کے سول نافرمانی
تحریک کے اعلان کے بعداور ان کی تقریرشروع ہونے سے پہلے کے مناظریکسربدل
گئے۔ تقریر سے پہلے لوگوں کا گروہ اسٹیج کی طرف بڑھ رہاتھا جواعلان کے
بعدواپسی کیلیے مڑگیا، وہ سول نافرمانی کے اعلان سے متفق نہ تھے۔امریکی
اخبار نیویارک ٹائمزکے مطابق طاہرالقادری اورعمران خان کے مارچ نے پاکستان
کے دارالحکومت میں نظام زندگی مفلوج کردیا ہے۔ شہری پوچھ رہے ہیں کہ انھیں
کس بات کی سزادی جارہی ہے، ایک اوراخبار نے لکھاہے کہ پہلے سے معاشی مسائل
کا شکار ملک پاکستان میں سول نافرمانی تحریک کے اعلان کے بعدمزید انتشارکا
خطرہ پیداہوگیاہے۔ عالمی میڈیانے عمران خان کے لانگ مارچ کوپاکستان کے لیے
مشکل قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ لانگ مارچ ملک کوانتشار کی طرف لے جارہا ہے۔
اس کشیدگی کی صورتحال میں بھی امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان پر امید ہیں کہ
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کے باوجود امریکہ پاکستان کے ساتھ تعاون
اور اشتراکِ عمل جاری رکھے گا۔ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری سیاسی بحران کے حل
کے لیے حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں نے مذاکرات کے آغاز پر اتفاق کرکے ایک
دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ گو اس سلسلے میں پہلے روز کے مذاکرات بغیر کسی
نتیجے کے اختتام پذیر ہو گئے ہیں۔ اور مذاکرات کا دوسرا دور اب شروع
ہوگا۔تجزیہ کاروں کے مطابق آج سے دو دن پہلے تک حکومت مخالف دونوں جماعتیں
ہی مذاکرات کی مخالفت کر رہی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ ’آزادی مارچ‘ اور
’انقلاب‘ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر
اب دونوں جماعتوں نے مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے ان کا آغاز کر دیا
ہے۔ مبصرین کے مطابق دونوں حکومت مخالف جماعتوں کے موقف میں تبدیلی آرمی کی
طرف سے جاری ہونے والے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں فریقین سے
مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنے کا کہا گیا تھا۔پاکستان تحریک
انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری
کے ہزاروں کارکن اس وقت پاکستانی پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
ان دونوں حکومت مخالف رہنماؤں نے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا
مطالبہ کر رکھا ہے۔ دونوں جماعتوں نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز چودہ اگست کو
لاہور سے کیا تھا۔گزشتہ روز تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومتی وزرا سے
مذاکرات کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود
قریشی کا کہنا تھا، ’’ ہم نے حکومتی ٹیم کے سامنے اپنے مطالبات رکھ دیے ہیں
اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان کا جائزہ لینے کے بعد جمعرات کو ہم سے
رابطہ کیا جائے گا۔‘‘اس سے پہلے عمران خان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سخت
بیان سامنے آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک مذاکرات میں شامل نہیں
ہوں گے، جب تک وزیراعظم نواز شریف مستعفی نہیں ہو جاتے۔ دوسری جانب حکومتی
اہلکار متعدد مرتبہ دہرا چکے ہیں کہ وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا۔ یہی وہ ایک نقطہ ہے، جس پر اگر فریقین نے لچک نہ دکھائی تو
مذاکرات جمود کا شکار ہو سکتے ہیں۔عمران خان کا یہی ایک مطالبہ غیر آئینی
ہے، آئین پاکستان میں وزیر اعظم کو ہٹا کا اختیار اسمبلی کو دیا گیا ہے،
اور اس کا طریقہ کار بھی متعین ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دونوں
حکومت مخالف جماعتیں مل کر احتجاج کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے حکومت پر دباؤ
بھی زیادہ ہے۔ حکومت عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے بھی مذاکرات
جاری رکھے ہوئے ہے۔ بظاہر عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مقاصد بھی مختلف
ہیں اور اگر طاہر القادری کی حکومت سے کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو سخت موقف کے
باوجود عمران خان کی پوزیشن بھی کمزور ہو جائے گی۔تجزیہ کاروں کے مطابق فوج
کی طرف سے سامنے آنے والے بیان اور اس کے بعد مذاکرات کے آغاز سے یہ بھی
پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سیاست میں اب بھی فوج کی مانی جاتی ہے۔ دوسری جانب
خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کا کہنا تھا کہ نواز شریف
کے ساتھ اختلافات کے باوجود فوج سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا
چاہتی تھی۔ ان کے مطابق یہ عمران خان اور قادری تھے، جو فوج کو درمیان میں
لانا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق اس سیاسی بحران نے نواز شریف کو کمزور کر دیا
ہے، ’’اب اگر نواز شریف اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، تو ان کے پاس فوج کی
بات سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ مشرقی وسطی کی ویب سائٹ العربیہ نے
لکھا ہے کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر
القادری نے نواز شریف کو اپنے دس مطالبات پورا کرنے کے لیے 48 گھنٹے کی
مہلت دینے کا اعلان کیا۔طاہر القادری نے نواز شریف اور شہباز شریف سے
مستعفی ہونے، اسمبلیاں توڑنے اور خود کو قانون کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا
ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ’فیصلہ عوام کا ہوگا‘ اور وہ
ذمہ دار نہیں ہوں گے۔طاہر القادری کی تقریر کے بعد خیابانِ سہروردی پر
موجود ہزاروں افراد ’گو نواز گو‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ طاہر القادری نے اپنے
مارچ کے شرکا کو کہا کہ وہ خبردار رہیں کیونکہ ان کے اعلان کے بعد اب ان پر
’دہشت گردی کا حملہ‘ ہو سکتا ہے۔اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے قائد
عمران خان نے آزادی مارچ کے شرکا سے ایک مرتبہ پھر خطاب کرتے ہوئے حکومت کو
متنبہ کیا کہ وزیر اعظم صاحب فاسٹ بولر میں صبر نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب
غلط فہمی میں نہ رہیں، یہ سونامی وزیر اعظم ہاؤس بھی جا سکتا ہے۔ عوامی
تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اعلان
کیا تھاکہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کی حکومت
کے خاتمے اور ان کی گرفتاری تک دھرنے کے شرکا یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔طاہر
القادری نے کہا کہ لاہور کی سیشن کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم اور
وزیر اعلٰی پنجاب سمیت اکیس افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنیکا جو حکم دیا ہے،
اس پر فوراً عمل کیا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر شریف
برادران کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا گیا تو اس کے نتائج پولیس کو بھگتنا ہوں
گے۔انہوں نے دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شریف برادران
کی حکومت کے خاتمے اور ان کی گرفتاری کے بعد اْن کا دوسرا مطالبہ قومی اور
تمام صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور تیسرا مطالبہ قومی حکومت کا قیام ہے۔ان
کا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ ایک قومی حکومت کے ذریعے کرپٹ افراد کا کڑا
احتساب کیا جائے۔ انہوں نے قومی حکومت کے ذریعے دس نکاتی معاشی اور دس
نکاتی انقلابی ایجنڈے کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ملک سے فرقہ واریت
کے خاتمے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی ترامیم کا بھی مطالبہ
کیا۔طاہر القادری کا جلسہ اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کر گیا جب ہجوم سے ایک
پستول بردار شخص کو پکڑ کر اسٹیج پر لایا گیا۔ طاہر القادری نے اس شخص کو
شریف برادران کی جانب سے بھجوایا گیا دہشت گرد بتاتے ہوئے معاف کرنے کا
اعلان کیا۔تاہم ہجوم کی جانب سے ممکنہ تشدد کے سبب سہمے ہوئے اس شخص کا
کہنا تھا کہ وہ پولیس اہلکار ہے اور ڈیوٹی ختم کر کے گھر جاتے ہوئے طاہر
القادری کے اہلکار زبردستی پکڑ کر پنڈال میں لے آئے تھے۔ بعد میں ایک نجی
ٹی وی نے اس پولیس اہلکار کا زخمی حالت میں ہسپتال کے بستر پر ایک انٹرویو
دکھایا جس میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے تشدد کا نشانہ بننے والے اہلکار
نے اپنا نام عدیل ہاشمی بتایا اور کہا کہ جلسے میں شریک افراد نے اس شبہے
کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا۔دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران
خان بنی گالہ میں اپنی پر تعیش رہائش گاہ پر آرام کرنے کے بعد کئی گھنٹوں
کی تاخیر سے جلسہ گاہ پہنچے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کا
استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ خیال رہے کہ عمران خان کو گزشتہ شب
کارکنوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر اپنے گھر چلے جانے کی وجہ سے سوشل میڈیا
اور مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اسلام آباد
میں ہفتے کی صبح ہونے والی بارش کے بعد دن بھر بھی موسم ابر آلود رہا۔ صوبے
خیبر پختونخواہ سے دو روز قبل آزادی مارچ میں شرکت کے لیے آنے والے تحریک
انصاف کے کارکنوں کو دو راتیں کھلے آسمان تلے گزارنا پڑیں۔ کھانے پینے کا
انتظام نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کارکن ٹھیلوں پر موجود اشیا مہنگے داموں
کھانے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ بیت الخلا کے لیے بھی انتظامات نہ ہونے کی
وجہ سے بھی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم عوامی
تحریک مارچ کے منتظمین نے اپنے شرکا کے لیے کھانے پینے کے نسبتاً بہتر
انتظامات کر رکھے ہیں۔وفاقی حکومت نے آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکا کے
اسلام آباد پہنچنے کے بعد بظاہر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔ مقامی
ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی
مقامی قیادت کو مارچ کے شرکا کے لیے کھانے پینے کے انتظامات کرنے کی ہدایت
کی تاہم جب مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت مظاہرین کے لیے کھانے پینے کی اشیا
لے کر آبپارہ پہنچے تو عوامی تحریک کے کارکنوں نے حکومتی کھانا لینے سے
انکار کر دیا۔اسی دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دھرنے کے مقامات
سمیت شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔
انہوں نے ڈیوٹی پر موجود پولیس، ایف سی اور رینجرز کے اہلکاروں سے بھی
ملاقات کی۔ وزیر داخلہ نے وہاں موجود تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک
کے نمائندوں کو یقین دہانی کرائی کہ سکیورٹی انتظامات کو فول پروف بنانے
میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔دھرنوں اور احتجاج سے دور حکومت اور
تحریک انصاف کے درمیان مصالحت کے لیے دو ہفتے قبل شروع کی گئی کوششیں اب
بھی جاری ہیں۔ اس ضمن میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ہفتے کے روز
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک سے ٹیلی فون پر بات چیت کی جبکہ لاہور میں
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق سے تنظیم کے مرکزی دفتر منصورہ میں
ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے سرا ج الحق نے
فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔ اسی ملاقات کے بعد وزیر
داخلہ چوہدری نثار نے ٹیلی فون پر سراج الحق سے سیاسی صورتحال پر تبادلہ
خیال کیا اور ان سے اسلام آباد پہنچنے کی درخواست کی تاکہ وہ اسلام آباد
میں موجود تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت کے درمیان مصالحت کرائیں تاکہ
دارلحکومت میں روز مرہ زندگی کو معمول پر لایا جا سکے۔ اس صورتحال پر
برطانوی اخبار’’گارجین ‘‘ لکھتاہے کہ انتخابی دھاندلی سے تحریک انصاف کے
کامیاب نہ ہونے کے عمران خان کے موقف سے تجزیہ کار اور سفارت کار قائل نہیں
ہوسکے۔بین الاقوامی مبصرین نے پاکستان کے ان انتخابات کو تمام گزشتہ عام
انتخابات کے مقابلے میں شفاف اور بہتر قرار دیا۔عمران خان کے پاس ایسا کوئی
قانونی راستہ نہیں جس سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔عمران خان کے نام نہاد
آزادی مارچ حکومت کے لئے سنجیدہ الارم ہے۔ اقتدار کے14 ماہ کے دوران ر فوج،
طاہر القادری اور عمران خان نے نواز شریف کی اتھارٹی کو متاثر کیا۔حکومت کو
خدشہ کہ اسلام آباد میں مظاہرین سے تصادم جنم لے سکتا ہے جو فوج کے لئے
راستہ کھول سکتا ہے۔ اخبار نے طاہر القادری کو متنازع عالم، عمران خان کی
مضحکہ خیزیاں اور آزاد ی مارچ کو نام نہاد قرار دیا۔ اخبار نے پاکستان کی
احتجاجی سیاست پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ عمران خان کے رویے نے بہت
سے تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کو حیرت میں ڈال دیا جو اس پر قائل نہیں ہو
سکے کہ انتخابی خرابیوں اور دھاندلیوں سے تحریک انصاف کو کامیابی سے محروم
کیاگیا۔ 2013کے عام انتخابات کو جج کرنیوالے بین الاقوامی مبصرین نے ان
انتخابات کو تمام گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں شفاف اور بہتر قرار دیا
ہے۔مبصرین اشارہ دیتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایسا کوئی قانونی راستہ نہیں
جس سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔ کیونکہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں بھاری
اکثریت ہے اور حکومت کو باہر نکالنے کے لئے اس کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم
اعتماد کا کوئی امکان نہیں۔ بہر حال لاہور سے اسلام آبا د کے لئے عمران خان
کے نام نہاد آزادی مارچ حکومت کے لئے سنجیدہ الارم ہیں۔مارچ کو روکنے کیلئے
سخت اقدا م اٹھائے گئے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے حکومت نے صورت حال کو مس
ہینڈل کیا۔ سخت مون سون کے دوران مظاہروں کی اجازت دے دینی چاہیے تھی۔حکومت
کو خدشہ ہے کہ اسلام آباد میں ہزاروں کی تعد ادمیں مظاہرین سے تصادم جنم لے
سکتا ہے۔ جو فوج کے لئے راستہ کھول سکتا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ عام انتخابات
میں بھاری اکثریت کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آنے والے نوازشریف کو ابھی
ایک سال سے تھوڑا عرصہ زیادہ ہوا تھا کہ افراتفری اور سیاسی بے یقینی آگئی۔
نواز شریف کی بھاری پارلیمانی اکثریت سے پاکستان پر نظر رکھنے والوں میں
ایک مثبت امید پیدا ہو ئی ، جو مشکل سے ہی ایک نئے وزیر اعظم سے امید لگا
تے ہیں کہ ان کے پاس کمزور معیشت کی بحالی، بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے
اور اسلامی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے مقاصد کو حاصل کرنے کا مینڈیٹ ہے۔لیکن
اقتدار کے14 ماہ کے دوران پاکستان کی طاقتور فوج، کینیڈا بیس عالم طاہر
القادری اور عمران خان نے ان کی اتھارٹی کو متاثر کیا۔اخبار لکھتا ہے کہ
رواں ہفتے پا کستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیاسی بحران کی
موجودگی میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے جارہا ہے جب شہروں میں پٹرول کی
فراہمی بند ہو چکی ہے، لاہور میں ایک متنازع عالم کے حامیوں اور پولیس کے
درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ اس صورت حال میں عمران خان نے نواز شریف سے مستعفی
ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد کو جام کرنے کا اعلان کیا
ہے، حکومت کے مستعفی اور نئے انتخابات کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اخبار نے
سینئر تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود کے حوالے سے لکھا کہ ہم نے فوری طور
پر انتخابی نتائج کو مسترد نہیں کیا ہم نے سوچا کہ عدالتوں سے ہمیں ریلیف
مل سکتا ہے لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر چیز جس کے لئے ہم نے پارلیمیٹ
میں کوشش کی اور عدالتوں نے کام نہیں کیااور ہمارے پاس ایک بڑا احتجاج کرنے
کے سوا کوئی سہارا نہیں۔طاہر القادری نے بھی نواز شریف کے اختیارات کو
چیلنج کر رکھا ہے۔قادری نے اگست کے اختتام سے پہلے حکومت کے گر نے کی پیش
گوئی کی ہے۔ اخبار نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں طاہر القادری کو متنازع عالم،
عمران خان کی مضحکہ خیزیاں اور آزاد ی مارچ کو نام نہاد قرار دیا۔ تاہم کچھ
گھنٹوں بعد مضحکہ خیزی کوتبدیل کرکے رویے کا ذکر کیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز
نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اب مارچ کی شدت میں کمی آ گئی ہے۔ ہفتے کے
اختتام تک اصل صورت حال واضح ہو جائے گی۔ عالمی اخبارات میں اسلام آباد میں
دھرنوں کو نمایاں اہمیت دی گئی ۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے سرخی
جمائی ہے کہ آزادی کا سونامی اور انقلاب بھیگ گیا ہے۔ اخبار کے مطابق مارچ
حکومت کیلئے خطرہ ہے تاہم شدت میں کمی آ گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے
سربراہ ایک بڑے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد آنے کا دعویٰ کر رہے تھے، لیکن
کپتان کے پیچھے آنے والوں کی تعداد توقع سے کم ہے۔ خراب موسم کی وجہ سے کئی
شرکا ساتھ چھوڑ گئے، اخبار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دوران
مارچ کو عوامی سطح پر بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے
کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کا جھکاو فوج کی طرف ہے،
طاہر القادری پہلے بھی حکومت گرانے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ اسلام آباد میں
طاہر القادری اور عمران خان کی آمد سے نواز کے حامیوں پر مارشل لا کا خطرہ
منڈلانے لگا ہے، تاہم مارچ کی اجازت دیئے جانے کے حکومتی اقدامات نے
غیریقینی صورت حال بہتر بنائی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی
ایک ساتھ شرکت نے فوج اور حکومتی میں دوری کا تاثر بھی ختم کیا۔ اخبار کے
مطابق انقلاب اور آزادی مارچ کی اصل صورت حال بعد میں میں واضح ہوگی۔ عالمی
میڈیا نے احتجاجی مارچ کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں ہونے والے
مارچ اسے انتشار کی طرف لے جارہے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ
عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پہلے سے سیاسی اور
معاشی عدم استحکام کے شکار پاکستان میں مزید انتشار کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
دو رہنما 10 لاکھ افراد کو اسلام آباد لانے میں کامیاب نہ ہو سکے ہیں۔ سخت
سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے دارالحکومت عملی طور پر مفلوج ضرور ہوا ہے۔
برطانوی اخبارگارڈین نے لکھا ہے کہ حکومت سے پرتشدد تصادم سے ہی اس احتجاج
کا منتقی نتیجہ نظر آرہا ہے جبکہ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے لکھا ہے
کہ پاکستان میں پہلے ہی دہشت گرد حملے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں ہونے والے
مارچ پاکستان کو انتشار کی طرف لے جارہے ہیں۔ برطانوی میڈیا نے کہا ہے کہ
تحریک انصاف کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ برطانوی ویب سائٹ ’’نیوز ٹرائب‘‘
کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے لانگ مارچ اور دھرنا اس لئے دیا تھا کہ وہ
نواز حکومت کا خاتمہ اور وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف
پر مستعفی ہونے کیلئے دباؤ ڈالے۔ پی ٹی آئی نے دھرنا بھی دیا لیکن اس کے
خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی جس پر بالآخر
تحریک انصاف قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہے تو وہ
پارلیمنٹ کی نمائندگی کا حق بھی کھو بیٹھے گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی
سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں دو دن کی
بارش کے بعد جس طرح موسم بدلا اسی طرح سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا
رنگ بھی بدلا ہوا نظر آیا۔ انقلاب مارچ کا اجتماع میں شریک افراد کی تعداد
میں بظاہر پہلے روز کی طرح کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوا۔ فرق صرف اتنا پڑا
کہ انقلاب مارچ کے اطراف میں قناتیں لگ چکی ہیں۔ ا?زادی مارچ کی جانب جانے
والا راستہ پہلے سے تھوڑا وسیع ہو گیا دوسری جانب آزادی مارچ میں داخل ہونے
پر کرسیوں کی قطاریں نظر آئیں اور ان پر تھکے ہارے کارکن آرام کرتے نظر آئے
اور انکی آزادی مارچ کے کنٹینر سٹیج کی جانب سے جانے میں کوئی دلچسپی نہیں
تھی تاہم گذشتہ دو دن کے برعکس اتوار کی رات کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد
سٹیج کی جانب رواں دواں تھی۔ اس جلوس میں لوگ اپنے اہلخانہ کے ساتھ موجود
تھے۔ سٹیج اپنے پرانی جگہ سے مزید تین سو گز آگے جاچکا تھا اور دن کے وقت
میں لگائی گئیں کرسیاں پرانے کے سٹیج کے سامنے تک نظر آئیں۔عمران خان کی
حکومت کو دی جانے والی ڈیڈ لائن آج ختم ہوگی، سوشل میڈیا اور بین الاقوامی
میڈیا پر بھی آزادی مارچ کے خوب چرچے ہیں۔اسلام آباد مارچ کو امریکی
اخبارات اور دیگر غیرملکی میڈیا نے صفحہ اول سرخیوں کی زینت بنایا ہوا
ہے۔سوشل میڈیا پر آزادی مارچ کے حوالے سے گرما گرم بحث تو جاری ہے ، ساتھ
ہی ساتھ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان بھی ٹوئٹر پر وقتاً فوقتاً ٹوئٹ کا
سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان
کیلئے فیصلہ کن گھڑی آگئی۔ ٹوئیٹر پر مریم نواز شریف بھی سر گرم ہیں، جنہوں
نے ٹوئٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم استعفی نہیں دیں گے۔ انقلاب اور آزادی مارچ
کا اختتام طربیہ ہوگا یا المیہ اس کا علم اس ڈرامے کے کرداروں سے زیادہ اس
کا اسکرپٹ لکھنے والوں یا ڈائریکٹر کو ہوگا۔ جس کی رونمائی میں کچھ وقت لگے
گا۔
|
|