جس بھارت کے ساتھ ہم دوستی اور
تجارت کی پینگیں یکطرفہ طور پر بڑھانے کے لئے مرے جا رہے ہیں، اس نے خارجہ
سیکر ٹری لیول کے وہ مذاکرات بھی ملتوی نہیں بلکہ منسوخ کر دئیے ہیں جن کا
کبھی کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا۔جن میں صرف پیسہ برباد ہوتا ہے اور بھارت جس
نے سرکریک سے لیکر کشمیر،سیاچن اور پاکستانی دریاوؤں کا پانی تک دبا رکھا
ہے کبھی کو ئی نتیجہ خیز شائبہ تک پیدا نہیں ہونے دیتا۔ زیادہ حیرانی اس
وقت ہو ئی جب قوم سے غدارکا لقب پانے والے میڈیا گروپ نے حیران کن طور پر
اس لامتناہی ڈارمے کی منسوخی کاماتم کیاتو اسے بھارت میں پاکستانی ہائی
کمشنر سے ممتاز کشمیری حریت رہنماؤں کی ملاقات پر ہونے والی تشہیر کو اس کی
بنیاد قرار دیا۔ وقت ،پیسے اور صلاحتیوں کے ضیاع پر مبنی اس تماشے کا آخر
اس گروپ کو اتنا دکھ کیوں ہے؟صرف اس لئے کا خواب اور منزل تو دونوں ملکوں
کے بیچ کی سرحدیں ختم کرنا ہے۔اسی پر انہیں قوم غدار کہتی ہے تو الٹاخود کو
سب سے بڑا وفادار اور محب وطن بھی ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
ہمارے یوم آزادی سے عین قبل بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر
کے علاقے لداخ اور کرگل کا دورہ کیا اور وہاں دریائے سندھ پر بنائے جانے
والے دو پاور سٹیشنوں کا افتتاح کیا تو ساتھ ہی وہاں سے پیدا ہونے والی
بجلی کو مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں پہنچانے کیلئے لیہہ، کرگل ٹرانسمیشن
سسٹم کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ہائیڈل یعنی پانی سے بجلی بنانے والے ان
منصوبوں میں سے ایک نیمو بازگو ہے جو 45 میگاواٹ پیداوار کی گنجائش رکھتا
ہے تو دوسرا چوٹک ہے جو 44 میگاواٹ پیداوار کا حامل ہے۔ یہ دونوں ڈیم
پاکستان کو پانی مہیا کرنے والے سب سے بڑے ذریعے یعنی دریائے سندھ پر تعمیر
کئے گئے ہیں اور پاکستان ان پر اعتراض بھی اٹھاتا رہا ہے لیکن بھارت باز
نہیں آیا اور اس نے یہ منصوبے مکمل کر لئے ہیں اور اب یوں پاکستان کو
دریائی پانی فراہم کرنے والے دریائے سندھ کے تیزی سے خشک ہونے کا سلسلہ آگے
بڑھے گا جو بھارت کا اصل مطمح نظر ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان نے عین
اس وقت جب ان منصوبوں کا باقاعدہ افتتاح ہو رہا تھا، اس پر کوئی قابل ذکر
اعتراض نہیں اٹھایا کہ بھارت کا وزیراعظم کیسے ان متنازع منصوبوں کا افتتاح
کر رہا ہے؟
لداخ پہنچ کر بھارتی وزیراعظم نے جہاں پاکستان پر آبی حملہ کیاوہیں جو یبان
جاری کیا وہ بھی ہر لحاظ سے انتہائی فکر انگیزہے کیونکہ نریندر مودی نے
یہاں پاکستان کو کھلی دھمکیاں دیں۔ کرگل میں متعین فوجیوں سے خطاب میں مودی
نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ بھارت کے زیر اثر علاقوں یعنی مقبوضہ
کشمیر میں مقامی شدت پسندوں کی پشت پناہی کر کے وہاں در پردہ جنگ لڑ رہا ہے
کیونکہ پاکستان دراصل بھارت کے ساتھ باقاعدہ روایتی جنگ کی سکت نہیں رکھتا،
اسی لئے وہ کشمیری مجاہدین کی مدد کر رہا ہے۔ پھر کہا کہ پاکستان کے ساتھ
سیاچن پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ
1999ء کی کرگل جنگ کے بعد پہلی بار بھارت کے کسی سربراہ مملکت نے اس علاقے
کا دورہ کیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم کی جانب سے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر پہنچ کر ہمارے
دریا خشک کر کے ہمیں بنجر و صحرا میں تبدیل کرنے والے منصوبوں کے افتتاح سے
ہماری آنکھیں کیوں نہیں کھل رہیں۔پاکستان میں اقتدار کے حصول کی جنگ میں
مصروف لوگ ملک کے وجود کے دفاع و بقا سے آخر کیوں آنکھیں چرائے بیٹھے
ہیں۔کیا اس سارے کام کا ذمہ صرف حافظ محمد سعید نے لے رکھا ہے؟۔ یہاں قابل
غور پہلو یہ ہے کہ بھارت نے آخر ان منصوبوں کے افتتاح کیلئے وہ وقت منتخب
کیا جب اس سے صرف ایک روز بعد پاکستان اور پھر اگلے روز بھارت اپنا یوم
آزادی منانے والے تھے۔ وقت کا یہ تعین بھی اپنے اندر بہت سے پیغامات کو
چھپائے ہوئے ہے۔ بھارت نے سیاچن پر 1984ء میں چوروں کی طرح قبضہ کیا تھا۔
پاکستان نے اسی حملے کے بعد دفاعی طور پر اپنی فوج یہاں داخل کی۔ یہ حملہ
اور جارحیت ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن بھارت اس پر پیچھے ہٹنے کو تیار
نہیں۔ بھارت یہاں پر روزانہ کروڑوں کے اخراجات کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔
اس کی مسلح افواج موت کے منہ میں جارہی ہیں لیکن پاکستان کو قابو رکھنے کے
چکر میں وہ سب کچھ برداشت کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کا پاکستان پر کشمیر
میں پراکسی جنگ کا الزام لگانا اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی تردیدکچھ مشکل
نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت اس وقت لگ بھگ 10 لاکھ مسلح افواج کے
ذریعے کشمیر پر قابض ہے۔ اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ کشمیری اس کا دم بھرتے ہیں
تو اسے چاہیے کہ اپنی افواج کا کچھ حصہ ہی کشمیر سے نکال کر دکھا دے۔ آخر
کیوں اس نے مقبوضہ کشمیر کی ساری حریت قیادتس اور ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں
میں ڈال رکھا ہے۔ ہر جوان کشمیری کے سر پر بندوق رکھ کر اسے خاموش کیا گیا
ہے۔ کیا یہ سب لوگ پاکستانی ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں 15 اگست کو بھارت جب
اپنا یوم آزادی منا رہا تھا تو مکمل ہڑتال تھی اور ہر طرف ہو کا عالم تھا
جبکہ ایک روز پہلے پاکستان کے یوم آزادی پر خوشیوں کا اظہار کیا گیا۔ کیا
یہ سب پاکستان کرواتا ہے؟ ان حالات میں بھارت کے سامنے کسی ڈھیلے ڈھالے
وضاحتی بیان کی نہیں بلکہ منہ توڑ جواب کی ضرورت ہے کہ اس نے کس طرح مقبوضہ
کشمیر پر قبضہ جما رکھا ہے اور الٹا ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا ہے ،چہ
دلاور است دزدے بکف چراغ دارد۔
نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے خطرناک عزائم کا اظہار بیان
بھی کرنا ضروری سمجھا اور واضح الفاظ میں کشمیر میں ہندو پنڈتوں کو واپس
لانے اور دیگر ہندوؤں کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بسانے اور مسلم اکثریت کو
اقلیت میں تبدیل کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ یہاں مودی نے بالکل کھل کر دو
ٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر چھوڑنے والے پنڈتوں کی واپسی اور آباد کاری کو
ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے مودی کا کہنا تھا کہ موجودہ تحریک
آزادی کے آغاز کے ساتھ ہی 4 لاکھ سے زیادہ پنڈتوں کو گھروں سے نکلنا پڑا۔یہ
ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی واپسی اور آباد کاری کو یقینی بنایا جائے۔ جموں
کشمیر کی حالت یہ ہے کہ 20 فیصد کے لگ بھگ آبادی کا حصہ بے گھر زندگی
گزارنے پر مجبور ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کی آباد کاری عمل میں لا کر
انہیں اپنی زندگی خوشگوار اور پرسکون انداز میں گزارنے کا موقع فراہم کیا
جائے۔ نریندر مودی نے اس موقع پر مقبوضہ جموں میں رہنے والے ہندوؤں کا بھی
ذکر کیا اور کہا کہ مغربی پاکستان سے آئے بے گھر ابھی تک مشکلات کا سامنا
کر رہے ہیں اور میں انہیں یقین دلاتا چاہتا ہوں کہ ہم انہیں دوبارہ سے
گھروں میں آباد کریں گے۔مودی کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ بھارت نے اب
مقبوضہ وادی کی بھاری مسلم اکثریت کو ہندوؤں کے برابر یااس سے کم کرنا ہے
تاکہ مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ ہی سرے سے ختم کیا جا سکے۔ کشمیر کو خصوصی
حیثیت دلانے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد اب جموں کے
ہندوؤں کو مقبوضہ وادی لانے کا اعلان خطرے کی گھنٹی ہے لیکن افسوس کہ اس کے
خلاف صرف مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما ہی آواز بلند اور احتجاج کرتے
ہیں۔ہمیں یہ بات بھی بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ بھارت کی غلبے کی عادت ہمیں
بھی نقصان پہنچائے گی، جس کا اظہار مودی نے اپنے یوم آزادی پر جنوبی ایشیا
کو مشترکہ معاشی طاقت بنانے عزم ظاہر کر کے کیا۔ مودی نے کھل کر کہا کہ ہم
سارے جھگڑے بھوجائیں۔ اس کا مطلب سوائے اس کے کیا ہے کہ پاکستان مشرقی
پاکستان ہی نہیں بلکہ کشمیر، سیاچن، پانی پر قبضہ اور سرکریک وغیرہ سب کچھ
بھول جائے اور جیسے بھارت چاہتا ہے اسی طرز پر بھارتی معاشی بلاک میں شامل
ہو جائے۔ یہ ہیں نریندرمودی کے خواب اور عزائم جنہیں صرف پاکستان ہی ناکام
بنا سکتا ہے کیونکہ باقی سبھی ممالک کو تو وہ اپنی باج گزار اور غلام
ریاستیں سمجھتا ہے۔اب ہمارا امتحان شروع ہے۔ |