عنوانِ آزادی
(Tariq Hussain Butt, UAE)
۱۴ اگست کو شروع ہونے والا تاریخی لانگ
مارچ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس نے اپنی منز لِ مقصود پر پہنچ کر دم لیا
ہے۔اس کے بطن سے کیا جنم لے گا اور یہ کس کروٹ بیٹھے گا اس کے بارے میں کچھ
بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ یہ ابھی تک اپنے ہدف کیلئے میدان میں ڈٹا
ہوا ہے اور اپنے مطالبات کی منظوری تک ڈٹے رہنے کاعندیہ دے رہا ہے۔ اس سے
قبل محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے شروع کئے گئے لانگ
مارچ منزل تک پہنچنے سے محروم رہے تھے ۔محترمہ بے نظیر کو اپنے پہلے لانگ
مارچ میں جس طرح لاٹھیوں سے پیٹا گیا تھا وہ منظر ابڑا ہی تکلیف دہ تھا
لیکن اس کے باوجود بھی بی بی نے اپنی جمہو ری جدو جہد سے منہ نہیں موڑاتھا
۔میاں محمد نواز شریف کا لانگ مارچ، جو ججز کی بحالی کیلئے شروع کیا گیا
تھا گوجرانوالہ سے واپس چلا گیا تھا کیونکہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی
مداخلت پر پی پی پی حکومت نے ججز بحال کر دئے تھے ۔جہاں تک موجودہ ہ لانگ
مارچ کا تعلق ہے، یہ شرو ع تو ہو گیا لیکن اسے ناکام بنانے کیلئے پورے
پاکستان کو کینٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تا کہ مظا ہرین اسلام آباد نہ
پہنچ سکیں ۔سب سے زیادہ جبر ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری کی عوامی تحریک کے
ساتھ روا رکھا گیا کیونکہ میاں محمد نو از شریف انھیں اپنے لئے سب سے بڑا
خطرہ تصور کرتے ہیں۔انھیں اس بات کادھڑکا لگا رہتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرا
لقادری کے مریدین کسی بھی حالت میں اپنے قائد کے حکم سے سرتابی نہیں کریں
گئے جس کی وجہ سے انھیں قابو کرنا مشکل ہو گا لہذا ان کی حکمتِ عملی یہی ہے
کہ انھیں کسی بھی حال میں مظاہروں کی کھلی چھوٹ نہ ی جائے۔اس بات میں شک و
شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ منہاج القرآن کے کارکن جان دے دیں گئے
لیکن اپنے قائد کو شرمسار نہیں کریں گئے،انقلاب سے ان کی یہی کمٹمنٹ مسلم
لیگ (ن) کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔حکومت نے منہاج القرآن پر شب خون مار
کر دیکھ لیا،ان کے ۱۴ کار کنوں کو شہید کر کے دیکھ لیا، ۱۰۰ سے زیادہ
کارکنوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر دیکھ لیا لیکن اس کے باوجود بھی ان کے
حوصلے پست نہیں ہوسکے جو حکومت کے ہیجان میں اضافہ کا موجب بن رہی ہے اور
۱۴ اگست کو منہاج القرآن کو چاروں طرف سے کینٹینروں سے بند کر نا اسی ہیجان
کا اظہار تھا، لیکن اس کے باوجود بھی وہ ایک بہت بڑے جلوس کے ساتھ ماڈل ٹا
ؤن سے نکلے تو پوری دنیا ششدر رہ گئی ۔ ان کا ماڈل ٹا ؤن سے نکل جانا مسلم
لیگ(ن) کی پہلی شکست تھی۔کیا یہ پہلی شکست بڑی شکست میں بدل جائے گی ایک
ایسا سوال ہے جس کافی الحال کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔اس لانگ مارچ کو
کئی مشکل مقامات سے گزرنا پڑا ۔خاص کر گوجرانوالہ میں جس طرح اس قافلے پر
مسلم لیگ کے غندوں نے سنگ باری کی اور وہ سب کے لئے پریشانی کا باعث تھی۔
ایک پر امن جلوس پر اس طرح کے حملے ایک ایسی جماعت کے ہاتھوں ہو ر ہے ہیں
جو جمہوریت کی دعوی دار ہے۔۳۸ گھنٹوں کے طویل اور صبر آزما سفر کے بعد یہ
کاروان اسلام آباد پہنچا۔کارکنوں نے جس پامردی سے تمام رکاوٹوں کو ہٹایا وہ
تاریخ کا درخشاں باب ہے۔تاریخ یوں ہی اپنا موڑ مڑا کرتی ہے اور نئی صبح کی
نوید دیا کرتی ہے۔آب پارہ میں چار دن دھرنا دینے کے بعد اس جلوس نے ریڈ زون
میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا جس نے حکمرانوں کی پریشانیوں میں مزید اضا فہ
کر دیا ہے۔ ۱۹ اگست کو اسلام آباد میں ریڈ زون کی جانب جانے والے لانگ مارچ
کو ٹیلیو یژن کی سکرینوں پر دیکھنے کے بعد ایسے لگ رہا تھا جیسے عوام کا اک
سمندر ہے جو اس کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بے قرار ہے جس نے
ان کے ارمانوں کا خون کیا ہوا ہے۔پاکستانی سیاست کیا ہے؟ استحصالی گروہ
کاایک شکنجہ جس میں پاکستان کے عوام بری طرح جکڑے ہوئے ہیں ۔ موجودہ لانگ
مارچ اس شکنجے سے عوام کی رہائی کی ایک کوشش ہے ۔ خو ش قسمتی سے اس لانگ
مارچ کی قیادت ان ہاتھوں میں ہے جن کی امانت و دیانت پرکسی کو کوئی شک نہیں
ہے ۔عمران خان اپنے اعلی کردار اور کھرے پن کی کی وجہ سے پور ی دنیا میں
پہچانے جاتے تے ہیں اور ان کا یہی کھرا پن عوام کے دلوں میں ان کی محبت کی
شمعیں روش کر رہا ہے۔عمران خان پاکستانی عوام کے جذبوں کی پکار ہے کیونکہ
اس کی آواز عوام کے دلوں کی پکار ہے اور یہ پکار وطن ہر دیوار کو توڑ کرپو
ری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ کوئی بھی آواز جب عوامی امنگوں کی ترجمان بن جاتی
ہے تو پھر وہ وہ آواز نہ مٹتی ہے ،نہ خاموش ہوتی ہے او نہ ہی کمزور ہوتی
ہے۔مجھے تو اس وقت ذولفقار علی بھٹو کی وہ تاریخ ساز آواز یاد آرہی ہے جس
نے اونچ نیچ کی آہنی دیواروں کو زمین بوس کر کے ایک نئے معاشرے کی بنیادیں
رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔وہ آواز اتنی توانا تھی کہ بلا رنگ و نسل ہر
ایک دل میں گھر کر گئی۔کمال یہ ہے کہ اپنی اس آواز کی صداقت کیلئے جب
امتحان کا لمحہ آیا تو اس نے محروموں اور خاک نشینوں کی آبرو اور ان کے
وقار کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہ کیا ، اور یہی وجہ ہے
کہ اتنے سال گزنے کے بعد بھی اس آواز کی اثر پذیری کم نہیں ہوئی۔لوگ اب بھی
اس عظم سپوت کو یاد کرتے اور اس سے محبت کا م بھرتے ہیں کیونکہ اس نے اپنی
حیاتی عوام کے نام لکھ دی تھی۔یہ حیاتی لکھنا اتنا آسان ہو تا تو ہر شخص
بھٹو بن جاتا لیکن اس طرح کا فیصلہ کرنا کانٹوی کی سیج ہو تی ہے اور کا
نٹوں کی سیج پر لیٹنے والے بڑے خا ل خال ہوتے ہیں۔،۔
انقلاب کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ اس کی فتح اس وقت مکمل ہوتی ہے جب
تین شرائط پوری ہو جائیں۔حکمرانوں کو انقلابی جان سے مار دیں ،انھیں گرفتار
کر لیں یا انھیں جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا جائے ۔ ۱۹۱۷ میں انقلابِ
روس میں زارِ روس کو لینن اور ان کے ساتھیوں نے پہلے گرفتار کیا اور اس کے
بعد انھیں قتل کر دیا۔چین میں ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ سے خوفز دہ ہو کر
چیانگ کائی شیک ۱۹۴۸ میں تائیوان بھاگ گیا تھا۔یہی سب کچھ ایران میں بھی
ہوا تھا اور امام خمینی کی ایران آمد پر ایران کا شہنشاہ ( رضا شاہ پہلوی)
فروری ۱۹۷۹ میں ایران چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔افغانستان میں بھی نجیب اﷲ طا
لبان کے ہاتھوں بھاگ نکلا تھا اور بعد میں قتل ہوا تھا۔ لیبیا میں کرنل
قضافی باغیوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا تھا ۔جبکہ مصر کا خود ساخہ
شہنشاہ حسنی مبارک ۲۰۱۲ میں گرفتار ہو کر پابندِ سلاسل ہو گیا تھا۔ اس وقت
جمہوری قدروں کی وجہ سے دنیا میں سیاسی صورتِ حال بالکل بدل چکی ہے لہذاب
اس طرح کے حادثات کا امکان بہت کم ہے کہ حکمران بھاگ جائیں یا انھیں قتل کر
کے اقتدار پر قبضہ کر لیا جائے۔اب جہاں تک پاکستان میں موجودہ لانگ مارچ کا
تعلق ہے تو اس کے بارے میں تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے عوام کی اغلب اکثریت
موجودہ حکمرانوں کو فارغ کرنے کے بارے میں بڑی جذ باتی ہے اور اس سلسلے میں
وہ کئی دنوں سے سخت گرمی میں بھوک اور پیاس کو برداشت کررہی ہے۔موسمی اثرات
ان کے جذبوں میں کسی بھی طرح کی کمی لانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔وہ ہر شہ سے
بے نیاز اپنے قائدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی یہی
جراتیں ان کے قائدین کو نیا حوصلہ عطا کر رہی ہیں ۔تپتے سورج کی کرنوں اور
گرمی کی حدت کے سامنے کھڑا رہنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے لیکن اس کے
باوجود لاکھوں لوگ ہر مشکل کو نظر انداز کرتے ہوئے لانگ مارچ میں ڈتے ہوئے
ہیں۔نوجوان لڑکیاں شائد نوجوان لڑکوں سے سبقت لے گئی ہیں اور جس بہادری سے
وہ اس لانگ ماچ کا حصہ بنی ہوئی ہیں اس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔کہاں
انقلاب کی سختیاں اور کہاں صنفِ نازک ِ؟ لیکن لگتا ہے کہ یہ صنفِ نازک نہیں
بلکہ فولادی خوا تین ہیں ۔اسی انداز کو اپنی قیادت سے محبت کرنا کہتے
ہیں۔یہ کھیل ایک دو دن کا نہیں ہے بلکہ یہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور پتہ
نہیں اور کتنے ہفتے جاری رہیگا لہذا میں لانگ مارچ میں شامل ہر شخص کے
جذبوں کو سلام کرتاہوں کیونکہ وہ ہر قسم کے ریاستی جبر کے باوجود اپنے موقف
سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی یہی جراتیں آنے والے زمانوں میں
حریتِ و جانبازی کا عنو ان بنیں گی۔نئے پاکستان کے گمنام سپاہی تاریخ کے
سینے میں ہمیشہ زندہ رہیں گئے اور اہلِ جہاں ان کی جرا توں پر ہمیشہ رطب
اللسان رہیں گئے ۔،۔ |
|