26/11کے بعد سے ہندو پاک کے رشتے
میں آئی کرواہٹ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔بارہارشتوں کو بہتر بنانے
کی بات کی گئی مذاکرات کی میز سجائی گئی ۔لیکن رشتوں کی کرواہٹ کم نہ ہوسکی
۔2011 میں رشتوں کو فروغ دینے کے اراد سے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی نے ہندوستان کا دورہ بھی کیا ۔اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے
ساتھ دونو ں وزراء اعظم نے موہالی کاسیمی فائنل میچ بھی دیکھا ۔پاکستان نے
بھی منموہن سنگھ کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی لیکن منموہن سنگھ نہیں جاسکے۔
ہندوستان میں مودی حکومت آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر امید ہوئی تھی کہ
ہندوپاک کے رشتوں میں کئچھ بہتری آئے گی۔مودی کی تقریب حلف برداری میں
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستانیوں کی مخالفت کے باوجود شرکت کی
تھی تاکہ ہمارے درمیان سے تلخیاں کم ہوجائیں ۔بہتر رشتوں کا قیام ہوجائے ۔اس
مقصد کے تحت 25 اگست کو خارجہ سطح کی ایک میٹنگ ہونی تھی لیکن بدقسمتی سے
یہ میٹنگ منعقد ہونے سے قبل ہی منسوخ ہوگئی ۔
اس میٹنگ کی منسوخی کی وجہ کشمیر کی حریت کانفرنس کے وفد کی دہلی میں
پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط سے ملاقات تھی ۔کشمیری حریت کانفرنس سے
ملاقات کے بعد ہندوستان نے سخت رویہ اپناتے ہوئے اس میٹنگ کو منسوخ کرنے
کااعلان کردیا قومی میڈیا کے بقول یہ ملاقات بلا جواز تھی۔ اور اجلاس کی
منسوخی کی وجہ یہی ملاقات ٹھہرائی گئی ،دوسری طرف حکومت پاکستان کے ذرائع
کا کہنا ہے کہ لانگ مارچوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث اجلاس ملتوی
کردیاگیا۔
وجہ جو بھی ہو اس ملاقات کی منسوخی سے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی
بحالی کے عمل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان دنوں بھی دونوں ممالک کے درمیان
حالات معمول پر نہیں ہیں اور پاکستان کی طرف سے لائن آ ف کنٹرول پر مسلسل
سیزفائر کی خلاف ورزی ہو رہی آج بھی پاکستانی دراندازوں نے سرحد پار سے
فائرنگ کی ہے جس میں کئی لوگوں کے موت کی اطلاع ہے۔
جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ بہت ہی نازک
اور حساس مسئلہ ہے۔ کشمیر، سیاچن اور سرکریک جیسے دیرینہ تنازعات ہیں، پانی
کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ہندوستان کی ہر حکومت نے ہمیشہ نرمی سے کام لیا ہے
دوطرفہ تعلقات کوآگے بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستان نے اس پہ کوئی توجہ
نہیں دی ہے۔د دونوں ممالک کے درمیان امن کی کوشش کرنے والوں کی کمی نہیں ہے،
یوں بھی ایک حد تک معاملات چل رہے ہیں ۔ تجارت دونوں ممالک کے تعلقات کا
ذریعہ بنی ہوئی ہے ،جو ایک خاص حد تک ہوتی ہے۔ ہندوستان کو افغانستان،اور
وسطی ایشیائی ممالک کے لئے راہداری کی بھی ضرورت ہے اوراور اس ضرورت کے پیش
نظر پاکستان سے تعلق قائم کرنا ہندوستان کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا
پاکستان کے لئے ہندوستان سے بہتر رشتہ رکھنا ضروری ہے۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ برسر اقتدار
پارٹی بی جے پی متعصب ہندو جماعت ہے، جو مسلمان اورپاکستان کے بارے میں
اچھے ارادوں اور نیک نیت کی حامل نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر نریندر مودی
مذاکرات کی بحالی اور تمام تنازعات پر (بشمول کشمیر) پر بات کرنے پر تیار
ہیں تو یہ غنیمت ہے، اس لئے اس اجلاس کی منسوخی افسوسناک ہے ۔
جہاں تک عملی اور عقلی دلائل کا تعلق ہے تو دونوں ایک دوسرے کے ہمسایہ ہیں۔
اس لئے ان کے درمیان کشیدگی عوامی بہبود کے کاموں کو متاثر کرتی ہے۔ دونوں
ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں، ان کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے خطرات بھی
بڑھتے ہیں۔ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات دونوں کے لئے ہی مفید اور بہتر
ہے۔دونوں ملک عوام ان دونوں ممالک درمیان بہتر رشتے کا فروغ چاہتی ہے ۔کیوں
کہ دونو ملک کی عوام ایک ہے ۔دونوں کے دل ایک دوسرے ملے ہوئے ہیں۔لہذ ا
دونو ممالک کو مثبت پہل کرکے اس جانب توجہ دینی چاہئے ۔ویزاپالیسی کو آسان
بنا نا چاہئے۔ یہی بہتر اور مفید ہے دونوں ہمسایہ کے حق میں۔ |