ٹال مٹول کا انجام

ہمارا بھی عجیب مزاج ہے، کوئی بیماری لاحق ہوجائے تو محلے کی پرچون کی دکان سے لال پیلی گولیاں لے کر کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ ہوا تو کسی ڈاکٹر کے پاس چلے گئے مگر پھر بھی جم کر علاج نہیں کراتے، مرض کو اندر ہی اندر پالتے رہتے ہیں، جب وہ جان کو آجاتا ہے، تب بڑے ڈاکٹروں کے پاس مارے مارے پھرتے ہیں۔ بیشتر امراض ایسے ہوتے ہیں جن پر ابتدا ہی میں قابو پایا جاسکتا ہے، مگر ہمارا ٹال مٹول کا رویہ ان امراض کو لاعلاج کردیتا ہے۔ اپنے گھروں کو دیکھ لیں، کوئی بجلی کا بٹن خراب ہوجائے یا کوئی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہو، مجال ہے جو ہم اس پر توجہ دیں، ہاں! جس روز اس معمولی سے بٹن کی وجہ سے کوئی حادثہ رونما ہوجائے، پھر الیکٹریشن کے پاس دن بھر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ زیادہ دور کیا جانا، اپنے جوتوں ہی کو دیکھ لیں، چھوٹی موٹی مرمت کی ضرورت کے باوجود انہیں گھسیٹے پھرتے ہیں، جب کسی روز یہ راستے میں جواب دے جائیں تب کہیں جاکر موچی کا رخ کرتے ہیں۔ معاملات کو نظرانداز کرنے کا یہ رویہ ہمارے ہاں ہر سطح پر پایا جاتا ہے۔

پانی، بجلی، صحت، صفائی یا کسی بھی ادارے سے آپ کو کوئی شکایت ہے، انہیں درخواست پر درخواست دیتے رہیں، مجال ہے وہ آپ کی شکایت کا نوٹس لیں، ایک کے بعد دوسری درخواست کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے رہیں گے، اگر آپ کچھ اور متاثرین کو ساتھ لے کر سڑک پر دھرنا دے دیں تو یہی گونگے، بہرے افسران چٹکیوں میں مسئلہ حل کرنے پر تیار ہوجائیں گے۔ وہ مسئلہ جو ایک سادہ سی درخواست پر حل کیا جاسکتاتھا، افسران کا رویہ اسے سڑک کی بندش تک پہنچا دیتا ہے۔ اسی رویے کی وجہ سے اب معاملات دفاتر کی بجائے سڑکوں پر حل ہونے لگے ہیں۔ لال مسجد کا قصہ کوئی بہت پرانا نہیں ہے، اس تنازع کو ایک ایس ایچ او کی سطح پر حل کیا جاسکتا تھا لیکن ٹال مٹول اور نظرانداز کرنے کے رویے نے اس تنازع کو ایوان صدر اور جی ایچ کیو تک پہنچا کر دم لیا، پھر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
تازہ معاملہ یہ ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، اس دھرنے کے بہت سے پہلو ہیں، اﷲ نے چاہا تو ان پر اگلے کالموں میں کچھ لکھوں گا، اس وقت اس نکتے پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ لوگ اسلام آباد کیوں پہنچے؟ کیا ان کے مطالبات ایسے ہیں جن کو صرف وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دے کر ہی پورا کرایا جاسکتا ہے؟ عمران خان کی یہ احتجاجی تحریک 4 حلقوں میں ووٹوں کی جانچ پڑتال کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی، وزیراعظم کا استعفاء اور باقی دیگر مطالبات تو بعد میں سامنے آئے ہیں، پچھلے 14 ماہ میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب عمران خان نے 4 حلقوں کے معاملے پر بات نہ کی ہو، یہ جہاں بھی جاتے 4 حلقے ان کی زبان پر رہتے، حتیٰ کہ تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کے قتل پر تعزیت کے لیے گئے تو وہاں بھی ایک دو تعزیتی جملوں کے بعد 4 حلقوں پر آگئے۔ عمران خان نے یہ مطالبہ اتنی بار کیا کہ یہ ان کی چڑ بن گیا تھا، جہاں کہیں بھی یہ کوئی بات شروع کرتے، لوگ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے کہ اب پھر 4 حلقوں کی بات چھیڑکر دماغ کی دہی بنادیں گے۔

عمران خان نے اس مطالبے کو تسلیم کروانے کے لیے ملک بھر میں جلسے کیے، سوشل میڈیا پر طوفانی مہم چلائی، مگر نتیجہ؟ حکومت نے اس مطالبے پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی، الٹا اس کے وزراء عمران خان کا مذاق اڑاتے رہے۔ وزراء کہتے تھے حکومت کے پاس ووٹوں کی تصدیق کرانے کا کوئی اختیار نہیں، الیکشن کمیشن جانے اور عمران خان جانے، بات 4حلقوں سے شروع ہوئی، پھر وہ پورے انتخابات کے آڈٹ پر پہنچی اور اب وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر جاکر کھڑی ہوگئی ہے۔ اب حکومت 4 چھوڑ 40 حلقوں میں ووٹوں کی جانچ پڑتال، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے پر تیار ہے۔ حکومت یہ کام چند ماہ قبل کرلیتی تو قوم کو یہ تماشا نہ دیکھنا پڑتا، جو کئی روز سے اسلام آباد میں لگا ہوا ہے۔

طاہرالقادری کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے، یہاں بھی حکومت سے بڑی بھول ہوئی ہے، آپریشن ضرب عضب کے اعلان کے ساتھ ہی عمران خان اور طاہرالقادری کی تحریک دم توڑگئی تھی، کیونکہ اس مرحلے پر احتجاجی تحریک کو فوجی آپریشن کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دے کر ان کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا جاسکتا تھا، اس لیے کوئی بھی جماعت یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بارے میں ملکی مفاد کے منافی سرگرمیوں کا تاثر ابھرے۔ عمران خان اور طاہرالقادری تو لمبی تان کر سوگئے تھے مگر تجاوزات ہٹانے کے نام پر ہونے والے خونی آپریشن نے ان دونوں کو انگڑائی لینے کا موقع فراہم کردیا۔

14لاشیں گرنا کوئی مذاق نہیں ہے اور وہ بھی لاہور میں۔ حکومت چاہتی تو اس واقعے کے بعد بھی صورت حال کو قابو کرسکتی تھی، مگر اس نے ایک طرف تو اپنے وزراء کو بیان بازی کی چھوٹ دے کر خوب آگ پر تیل کی بارش کروائی تو دوسری طرف متاثرین کو انصاف کی فراہمی کے قانونی دروازے بند کردیے۔ طاہرالقادری کے بیٹے اور دیگر پارٹی عہدیداروں پر تو اسی روز دہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی لیکن مقتولین کا مقدمہ آج تک درج نہیں ہونے دیا گیا۔

حکومت کا موقف ہے، کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد مقدمہ درج ہوگا، سوال یہ ہے ملک میں روزانہ درجنوں لوگ قتل ہوتے ہیں، کیا ان کی ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے بھی کوئی کمیشن بنتا ہے؟ اگر معاملہ کمیشن ہی پر چھوڑنا تھا تو پھر چند گھنٹوں کے اندر اندر طاہرالقادری کے بیٹے پر ایف آئی آر کیسے کٹ گئی؟ اب ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت طاہرالقادری کا دھرنا ختم کرانے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے 14مقتولین کی ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت دینے پر آمادہ ہے۔ بات وہی ہے، اگر یہ کام اسی وقت کرلیا جاتا تو آج اتنا اودھم نہ مچتا۔ طاہرالقادری کی انقلاب کی باتیں تو محض زیب داستان کے لیے ہیں، اس کا اصل مطالبہ خون کا حساب ہے۔ یہ حساب کتاب پہلے ہوجاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔

حکومت کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ عوام نے عمران خان اور طاہرالقادری کی کال کو مسترد کردیا ہے، یہ دونوں جس تعداد کا دعویٰ کررہے ہیں، لوگ اتنے ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئے۔ گلی محلوں میں گھوم پھرکر ہم نے جو دیکھا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے۔ اس دھرنے بازی کو عوام نے پسند نہیں کیا ہے۔ فی الحال عوام حکومت گرانے اور کسی بھی طرح کی دھینگامشتی کے حامی نہیں ہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ نوازشریف اپنی آئینی مدت پوری کریں، لیکن لگتا ہے حکومت خود مدت پوری کرنا نہیں چاہتی، اسی لیے وہ تنازعات کو فوری حل کرنے کی بجائے آنکھ اور کان بند کرنے کی روایتی پالیسی پر گامزن ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے غبارے کو بہت پہلے پنکچر کیا جاسکتا تھا، جو حکومت نہیں کرسکی، اب اسے جھکنا پڑے گا اور مطالبات بھی ماننے پڑیں گے۔ چلو یہ تنازع تو کسی نہ کسی طرح حل ہوہی جائے گا لیکن اگر مستقبل میں بھی حکومت کا یہی تاخیری رویہ رہا تو پھر اسے مزید دھرنوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 101992 views i am a working journalist ,.. View More